محمد حنیف خان
کسی بھی ملک و قوم کی شناخت اس کا قومی جھنڈا ہوتاہے، جو صرف کپڑے کا ایک ٹکڑا نہیں ہوتا بلکہ اس سے اس قوم اور ملک کا وجود اور اس کی پہچان وابستہ ہوتی ہے، اس سے محبت اس بات کی علامت ہے کہ ہم ملک اور اس کے ہر ذرے سے محبت کرتے ہیں، اندرون ملک یا بیرون ملک ہر جگہ یہ جھنڈا ہماری پہچان ہے مگر کچھ لوگ ہیں جو اس جھنڈے کے تئیں اپنی وفاداری نہیں رکھتے، وہ گاہے بگاہے کسی نہ کسی طریقے سے اس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔
یہ بات کسی سے کبھی ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ ایک ٹولہ اس ملک میں ہے جس کی وفاداری قومی جھنڈے ترنگے سے کبھی نہیں رہی، اس نے شروع سے ہی ترنگے کے بجائے بھگوا جھنڈے کو اہمیت دی۔ خود گولوالکر نے اپنے مضمون ’’پتن ہی پتن‘‘میں ترنگے کی مخالفت کرتے ہوئے ہندوؤں کے ذہن کو مسموم کرنے کی کوشش کی اور لکھا کہ بھگوا ہی ہندوؤں کی عظیم تاریخ کا شناخت نامہ ہے اور ترنگے کو ہندو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ترنگے کو قبول نہ کرنے والے مٹھی بھر لوگ تھے۔آر ایس ایس جو آج حب الوطنی کا راگ الاپ رہی ہے، اس کی تاریخ ترنگے کے حوالے سے بڑی متنازع رہی ہے، جس نے اپنے دفتر پر1950سے لے کر 2002تک قومی جھنڈا نہیں لہرایا، جس کا جواب وہ واضح انداز میں آج تک نہیں دے سکی ہے، اس نے اپنے دفتر پر دو نوجوانوں کے ذریعہ زبردستی قومی جھنڈا لہرانے پر ان کے خلاف مقدمہ تک کردیا تھا۔اب ایک بار پھر قوم کی آن بان اور شان ترنگے جھنڈے کے خلاف ہرزہ سرائی شروع کردی گئی ہے اور اس کی جگہ بھگوا جھنڈے کو قومی جھنڈا بنانے کی بات کی جانے لگی ہے۔
سب جانتے ہیں کہ بی جے پی آر ایس ایس کی سیاسی ونگ ہے جو گزشتہ گیارہ برسوں سے اقتدار میں ہے، اسے یہ اقتدار مذہب کے دوش پر ملا ہے، چونکہ آزادی کے بعد ہندوستان نے جمہوری طرز حکومت اختیار کیا، اس لیے کوئی بھی جماعت یہاں اقتدار میں آسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بی جے پی بھی اقتدار میں ہے اور امید ہے کہ وہ اپنی تیسری مدت بھی مکمل کرے گی۔
اقتدار میں کوئی بھی جماعت یا پارٹی ہو، کسی کو بھی ملک کے آئین اور قومی نشانات سے چھیڑ چھاڑ کی اجازت نہیں ہے، آئین کے تناظر میں قانون سازی کا اسے حق ضرور ہوتاہے۔اس کے باوجود جب سے بی جے پی حکومت میں آئی ہے، اس سے وابستہ لوگ کھلے عام آئین کی تبدیلی کی بات کرتے رہے ہیں، ملک کو ہندوراشٹر بنانے کی وکالت کرتے رہے ہیں جس کی چہار طرفہ مخالفت بھی ہوئی ہے اور جب بھی ایسی کوشش کی جائے گی تو امید ہے کہ اس طرح کی کوششوں کو یہاں کے شہری کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے جس کی سب سے بڑی وجہ آئین ہے۔
ہمارے آئین سازوں نے ہندوستان میں پہلی بار ہر قوم و طبقہ، ذات و برادری اور مرد و عورت کو برابری کا درجہ دیا ہے ورنہ اس سے قبل ماقبل تاریخ تک اگر جائزہ لیں تو ہندوستان ہر سطح پر منقسم ملے گا۔ہندو راشٹر کا تصور منو اسمرتی پر مبنی ہے جو آج بھی عملی زندگی خاص طور پر خانگی، معاشرتی اور مذہبی زندگی میں دخیل ہے، ابھی گزشتہ دنوں شری کرشن کے بھکت ’’یادو‘‘ برادری کے ایک شخص کی صرف اس لیے پٹائی اور تذلیل کی گئی کہ وہ یادو ہوکر مذہبی اپدیش کیسے دے سکتاہے، تذلیل کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ اونچی ذات پنڈت کی ایک خاتون کے پیشاب سے اس کی ’’شدھی‘‘کی گئی۔ اس واقعہ پر ایک صاحب نے بڑی اچھی بات کہی کہ مذکورہ یادو پر برہمنوں کا یہ احسان ہے کہ اس کی زبان نہیں کاٹی، کانوں میں پگھلایا ہوا سیسہ نہیں ڈالا ورنہ منواسمرتی کے مطابق ایسا ہی کیا جانا چاہیے تھا۔یہ محض ایک واقعہ ہے، اس واقعہ کے پس پشت جو ذہنیت ہے اگر اس پر غور کریں تو ہندوراشٹر کے تصور کی حقیقت سامنے آجاتی ہے۔
کیرالہ بی جے پی سے وابستہ شیوراجن نے حال ہی میں ایک پروگرام میں قومی جھنڈے ترنگے کی جگہ بھگوا جھنڈے کی وکالت کرتے ہوئے اسے قومی جھنڈا بنانے کی بات کہی، جسے ملک کے کئی بڑے اخبارات نے بھی رپورٹ کیا مگر یہ خبر ٹیلی وژن کی دنیا میں نہیں دکھائی دی اور نہ ہی اس پر مباحثے ہوئے کہ آخر یہ بات کیوں کہی گئی، اس کے پس پشت ذہنیت کیا ہے، ایسا کرنے والے کیا چاہتے ہیں اور ان کی سوچ کیا ہے؟چھوٹی چھوٹی باتوں پر سر پر آسمان اٹھالینے والا میڈیا اس خبر سے دور رہا جس کی وجہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ایسی خبروں سے حکمراں پارٹی کی حقیقت اور اس کی ذہنیت سامنے آجائے گی اور اس کی بدنامی ہوگی، اس لیے اسے مرکزی دھارے میں نہیں لانا ہے۔
ملک سے غداری کے مقدموں میں جس طرح کی تیزی بی جے پی کی حکومت میں دیکھی گئی اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ بی جے پی خود کو سب سے محب وطن پارٹی ثابت کرنا چاہتی تھی۔جس پروگرام میں قومی جھنڈے کو تبدیل کرنے کی بات کی گئی، وہ پروگرام بھی ’’بھارت ماتا‘‘سے ہی وابستہ تھا یعنی یہ ایک ایسا پروگرام تھا جس میں حب الوطنی کو ہی مرکزیت حاصل تھی، اس کے باوجود قومی جھنڈے سے وفاداری کے بجائے بھگوا جھنڈے کی بات کی گئی۔در اصل بھارت ماتا کا تصور ہی ایک مذہبی تصور ہے جس کا سیکولر قومیت اورنیشنلزم سے تعلق نہیں ہے۔
قومی جھنڈے میں تین رنگ اور چکر، ملک کی ذہنیت اور اس کی تاریخ سے وابستہ ہیں، یہ جوش و ہمت، امن و سلامتی، خوشحالی اور ہندوستان کی عظیم تاریخ کو پیش کرتے ہیں، جس میں مذہبیت کا شائبہ تک نہیں ہے کیونکہ یہ ملک سیکولر ہے جس میں ہر مذہب کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے، کسی کوکسی پر فوقیت نہیں دی گئی ہے، اس لیے آئین اور قومی علامت میں بھی مذہب کے بجائے قومیت، قومی اتحاد اور اس کی سالمیت کو اہمیت دی گئی ہے۔ وہ لوگ جن کے ذہن مذہب کی افیم سے مسموم کردیے گئے ہیں، وہ سالمیت اور اتحاد کے بجائے مذہبی علامت اور اس کے خول کو پسند کرتے ہیں اور ہمیشہ اس بات کی کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں جس کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔
حب الوطنی کی مدعی پارٹی بی جے پی اپنے ایسے ممبران کے خلاف کبھی کارروائی بھی نہیں کرتی ہے کیونکہ اس سے ماقبل بھی اس کے وزرا تک نے آئین کی تبدیلی کی بات اسٹیج سے کی ہے مگر کسی کے خلاف کچھ نہیں ہوا، قومی جھنڈے کی تبدیلی کی بات کرنے والا شیوراجن بھی بی جے پی سے ہی وابستہ ہے، اس کی جگہ اگر کوئی دوسرا ہوتا جس کا تعلق کانگریس یا اقلیتی طبقے سے ہوتا تو اب تک وہ شخص سلاخوں کے پیچھے ہوتا۔اس طرح کا دوہرا معیار اس حکومت کی تاریخ بھی رہی ہے جس پر وہ اس وقت بھی عمل پیرا ہے۔حکومت کو دوہرا معیار کم از کم قومی معاملات میں کسی بھی صورت میں نہیں اختیار کرنا چاہیے کیونکہ یہی علامات ہماری شناخت ہیں۔
قومی جھنڈے کی تبدیلی کے بارے میں بات کرنا ہی اس بات کی علامت ہے کہ اس سے لگاؤ کے بجائے نفرت ہے، اس پہچان سے دور بھاگنا چاہتے ہیں جس نے دنیا میں شناخت دلائی ہے، جس نے سر کو فخر سے اونچا کیا ہے، اس کے بجائے جس جھنڈے کو اس کی جگہ رکھنا چاہتے ہیں، اس کی وکالت اس بات کی علامت ہے کہ ہم اپنی یہی پہچان دنیا میں بنانا چاہتے ہیں، مذہب انسان کی ذاتی شناخت ہوسکتی ہے، جس کا تعلق اس کے اندرون سے ہوتاہے جبکہ قومی اتحاد اور امن ہمیں دنیا میں ایک مضبوط قوم کے طور پرپیش کرتاہے جس کی نشانی ہمارا قومی ترنگا ہے، بھگوا جھنڈا ایک خول کی طرح بہت محدود علامت ہے۔یہ ان چند لوگوں کے لیے اہم ہوسکتاہے جن کی فکر اور تصور کو پیش کرے، بھگوا کبھی پورے ملک کو نہیں پیش کرسکتا کیونکہ یہ ملک بہت متنوع ہے، جس میں مذاہب کی کثرت ہے، لسانی اور جغرافیائی اختلافات ہیں، اس لیے جو لوگ بھی قومی جھنڈے کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں وہ در اصل ملک سے غداری کے مرتکب ہوتے ہیں اور ان کے خلاف ان ہی دفعات کے تحت کارروائی کی جانی چاہیے، ورنہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب کا جھنڈا لے کر کھڑا ہوجائے گا جسے وہ قومی جھنڈا بنانے کی بات کرے گا جو ملک میں خون خرابے کا باعث بھی ہوسکتاہے۔لیکن چونکہ بھگوا جھنڈے اور ہندوراشٹر کی وکالت کرنے والے لوگوں پر حکومت اور طاقت کا نشہ سوار ہے، اس لیے ان لوگوں کو نہ ملک کی سالمیت کی فکر ہے اور نہ ہی دوسرے مذاہب کے ماننے والے افراد کے جذبات و خیالات کاپاس و لحاظ ہے، وہ طاقت کے زعم میں ملک کی سالمیت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں اور اسے اس دہانے پر پہنچانے میں لگے ہوئے ہیں جہاں خانہ جنگی شروع ہوجائے۔
جب تک کوئی پارٹی اقتدار میں نہیں ہوتی اس کے خیالات و افکار کیسے بھی ہوں مگر جب وہ اقتدار میں آجاتی ہے تو آئین اور قومی نشانات کے تحفظ کی ذمہ داری اس کا آئینی فریضہ بن جاتاہے، بی جے پی کو چاہیے کہ وہ اپنے اس مقدس فریضے کو ادا کرتے ہوئے ایسے لوگوں کے خلاف سخت کارروائی کرے جو ہندو راشٹر یا قومی جھنڈے کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں ورنہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ہر مذہب کے ماننے والے لوگ ایک ایک جھنڈے کے ساتھ کھڑے ہوں گے اور وہ مطالبہ کر رہے ہوں گے کہ ہمارے جھنڈے کو بھی قومی جھنڈا بنایا جائے جو ناممکن ہے، اس لیے قومی شناخت اور فخر و غرور کی علامت اس قومی ترنگے کے خلاف کسی بھی طرح کی ہرزہ سرائی ناقابل معافی ہونی چاہیے۔