بے روزگار نوجوانوں کیلئے مرکزی حکومت نے جس ’اگنی پتھ ‘اسکیم کا اعلان کیا ہے، جس کی پورے ملک میں نوجوان بھی مخالفت کررہے ہیں اور اپوزیشن پارٹیاں بھی۔ بی جے پی کی حلیف پارٹیوں نے خاموشی اختیارکرکے یا جنتادل متحدہ نے اسکیم پر نظرثانی کی مانگ کرکے ایک طرح سے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ یہ اسکیم صرف بی جے پی کی ہے ۔ ایک اور بات ہے کہ بی جے پی کی بہار اکائی کے صدر سنجے جیسوال نے جس طرح کا بیان دیا اور جنتادل متحدہ نے اس کا جیسا جواب دیا،ایسا لگتا ہے کہ اس کی آڑ میں دونوں پارٹیاں کچھ اورہی سیاست کررہی ہیں۔ریاست میں ہنگامہ اور بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے سے سرکاری جائیداد خصوصا ریلوے کو کافی نقصان پہنچا ۔ حیرت ہے کہ اس پر کوئی کچھ نہیں بول رہا ہے لیکن ہنگامے کے دوران بی جے پی کے لیڈروں پر حملے پربی جے پی کے ردعمل ، جنتادل متحدہ کے جوابی ردعمل اور مرکزی حکومت کے قدم سے ایک الگ ہی تصویر سامنے آرہی ہے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ ہنگامے کے دوران ڈاکٹر سنجے جیسوال اورریاست کی ڈپٹی وزیر اعلیٰ رینودیوی کے مکانوں پر حملے ہوئے ، ان پر بی جے پی کے تیور جتنے سخت ہیں، اس سے کم جنتادل متحدہ کے نہیں ہیں ۔ڈاکٹر جیسوال نے اس پر مسلسل 2دنوں تک بیان دیا، پولیس اورانتظامیہ کو کٹہرے میں کھڑا کیا اورپس پردہ نتیش سرکار جس میں ان کی پارٹی بھی شامل ہے،کوذمہ دارٹھہرانے کوشش کی۔ انہوں نے پہلے دن جہاں یہ بات کہی کہ ان کے مکان کو نذرآتش کرنے کی پوری سازش تھی اورانتظامیہ نے ویسی کارروائی نہیں کی جس کی ضرورت تھی، تودوسرے دن یہ بھی کہہ دیا کہ بی جے پی کو نشانہ بنایاجارہا ہے اورمنصوبہ بند سازش کے تحت بہارکو بدنام کیا جارہا ہے ۔ملک میں کہیں بھی ریاست جیسااحتجاج نہیں ہورہا ہے۔ 3اضلاع میں بی جے پی کے دفاتر کو نذرآتش کیا گیا لیکن پولیس خاموش تماشائی بنی رہی ، کہیں نہ تو لاٹھی چارج کیا اورنہ کوئی کارروائی کی ۔ پہلے دن بی جے پی کے ریاستی صدر کی باتوں یا دوسرے الفاظ میں الزامات کا جواب جنتادل متحدہ کے جنرل سکریٹری کے سی تیاگی نے دیا، جنہوں نے کہا کہ یہ احتجاج صرف بہار میں نہیں ہورہا ہے بلکہ اترپردیش ، راجستھان ، ہریانہ ، اتراکھنڈ اورہماچل پردیش میں بھی ہورہا ہے ، جہاں سے فوج میں سب سے زیادہ تقرری کی تاریخ رہی ہے ۔مجھے خوشی ہے کہ سرکاربے روزگاری دور کرنے کیلئے اسکیم لے کر آئی ، لیکن جن کیلئے اسکیم لائی ، وہی سڑکوں پر آکر احتجاج کررہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ کہیں کوئی چوک ہوئی ہے ،اس لئے میری پارٹی مطالبہ کرتی ہے کہ اسکیم پر نظر ثانی کی جائے اورناراض طلبا سے بات چیت کی جائے ۔جبکہ دوسرے دن جنتادل متحدہ کے ریاستی صدر للن سنگھ نے محاذ سنبھالا۔انہوں نے ڈاکٹر جیسوال اوربی جے پی کو کھری کھوٹی سنادی ۔انہوں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بی جے پی نوجوانوں کے فطری ردعمل کو نہیں سمجھ پائی ، اسے نوجوانوں کے اندیشہ کو دور کرنا چاہئے تھا، پارٹی انتظامیہ پر الزام لگارہی ہے جبکہ بات نوجوانوں کے اندیشے کی ہے۔انہوں نے سوال کیا کہ کیا بی جے پی حکومت والی ریاستوں میں ہنگامہ اورتشدد نہیں ہورہا ہے، اگر ایسا ہے توسنجے جیسوال جی کو وہاں انتظامیہ سے مظاہرین پر گولی چلوادینا چاہئے۔ رہی بات انتظامیہ کی تو نتیش کمار اسے چلانے کے اہل ہیں ،انہیں ملک میں گڈگورننس کا ایوارڈ مل چکاہے، اس لئے سنجے جیسوال سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے ،۔ حکومت اپنا کام کررہی ہے۔
دونوں پارٹیوں کی بیان بازیاں چل ہی رہی تھیںکہ مرکز نے ریاست کے اپنے 10سرکردہ لیڈروں کو ’ وائی ‘سیکورٹی فراہم کردی ، اس سے ایک الگ ہی پیغام جارہا ہے۔ لگتا ہے کہ بی جے پی اورمرکز کو ریاست کی سیکورٹی پر اعتماد نہیں ہے ۔شاید اسی لئے مرکز کے قدم پر بھی جنتادل متحدہ کے ترجمان نیرج کمار نے اس طرح کا ردعمل ظاہر کیا کہ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ نوجوانوں کے تحفظ اوران کے اندیشوں کو دورکرنے کا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے رشتے کچھ اچھے نظر نہیں آرہے ہیںتبھی تو ایسی بیان بازی ہورہی ہے۔ اسی کڑی میں نتیش کمارکے اس بیان کو شامل کرلیا جائے توتصویر اوربھی واضح ہوجاتی ہے کہ جب ان سے مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ کے تاریخ میں تبدیلی سے متعلق بیان کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے صاف صاف کہہ دیا کہ تاریخ میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی ۔یہ تیوراوراختلافات بہت کچھ کہتے ہیں ۔
[email protected]
بی جے پی اورجنتادل متحدہ کے تیور
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS