مولانا ندیم احمد انصاری
انسانیت اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑی ہے۔ ہر طرف خون خرابا اور ہاہاکار مچا ہوا ہے۔ انسانی زندگی بے قیمت ہو چکی ہے۔ دنیوی حرص و ہوس نے انسان کے حواس باختہ کر دیے ہیں۔ گلی، کوچے جرائم کے اڈے بنے ہوئے ہیں۔ سگا بھائی سگے بھائی کا دشمن ہے۔ اولاد ماں باپ سے نالاں ہے، والدین اولاد سے پریشان ہیں۔ دنیا میں اور بھی نہ جانے کیاکیا ہو رہا ہے۔ان سب کے درمیان صرف امراض کا ذکر کرلینا لاحاصل ہے۔ اس لیے اصل توجہ علاج پر ہونی چاہئے ،اور علاج ہے تعلیماتِ نبویؐ کا فروغ اور ان پر عمل درآمد کرنا۔آپؐ کی تعلیمات کو عام کرنا خاص طور سے اس زمانے میں ہماری سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔رسول اللہ نے مثال دے کر سمجھایا کہ انسان دنیا میں اس طرح رہے جیسے پانی کشتی میںرہا کرتی ہے، لیکن کشتی پانی کو اندر نہیں آنے دیتی، اس لیے کہ چھوٹے سے سوراخ سے بھی اگر پانی اندر داخل ہونا شروع ہو گیا تو کشتی غرق ہو جائے گی۔ یہی معاملہ انسان کا ہے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اگر اِس کی محبت اْس کے دل میں آ گئی تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔ تمام انبیائے سابقین کی طرح رسول اللہ حضرت محمدؐ کو بھی دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا اور آپؐ کے ذریعہ یہ پیغام دے دیا گیا کہ اب جو انسان کامیابی حاصل کرنا چاہے وہ حضرت محمدؐ کی اتباع کرے۔
تعلیمات قرآن، احادیث اور سیرتؐ وغیرہ کی شکل میں امت کے پاس بعینہ موجود ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ مستند دینی باتوںتک رسائی حاصل کرنے اور انہیں عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی جائے۔شیطان ،انسان کا ازلی دشمن ہے، اْس نے یہ تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ انسان کو دائیں، بائیں، آگے ، پیچھے گویا چہار جانب سے بہکانے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہے، جس سے وہ کبھی غافل نہیں ہوتا، اگرچہ انسان اپنے دشمن سے غافل ہو جاتا ہے۔رسول اللہ کا ارشاد ہے کہ شیطان انسان کے دل کے پاس اپنی سونڈ لیے بیٹھا رہتا ہے اور جب اْسے غافل پاتا ہے، اس کے دل میںوسوسوں کے زہر سے بھری سونڈ چْبھو دیتا ہے۔ شیطان کو یہ قدرت نہیں کہ کسی انسان سے جبراً کوئی بدی کروا سکے۔ وہ تو صرف وسوسہ ہی ڈالتا ہے، آگے اسے عملی جامہ خود انسان پہناتا ہے۔آج آپ دیکھ لیں کہ کس طرح اس نے انسانوں کو انسانوں کا، غیروں کو مسلمانوں کا ، اور بعض مسلمانوں کومسلمانوں کا دشمن بنا کر اس طرح کھڑا کر دیا ہے کہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہوئے بھی ہر وقت بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔ ان میں سے کتنے وہ ہیں جو دین و مذہب کے نام پر ظلم و ستم کا بازار گرم کرتے ہیں اور کتنوں نے بدعات و خرافات کو دین سمجھ کراصل دین کی طرف دعوت دینے والوں کو اپنا دشمن سمجھ رکھا ہے۔ آپؐ نے دشمن کے ساتھ بھی کبھی ایسا معاملہ نہیں کیا جیسا ہم اپنی رائے سے اختلاف کرنے والوں کے ساتھ معاملہ روا رکھتے ہیں۔
رحمۃ للعالمینؐ دنیا میں رحمت کو عام کرنے کے لیے تشریف لائے تھے، آپ کا مقصد جہنم میں جا رہی قوم کو جنت میں داخل کروانا تھا۔ آپؐ لوگوں کو شرک کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان کے نور میں داخل کرانا چاہتے تھے۔ آپؐ نے نہ صرف مسلمانوں کو آپس میں بھائی بن کر رہنا سکھایا، بلکہ اغیار سے بھی احسان کا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی۔ جسے مثالیں دیکھنی ہوں، وہ احادیثِ شریفہ کا مطالعہ کرے۔
آپ ؐنے بچیوں کو جینے کا حق دیا، عورتوں کو معاشرے میں عزت دی، والدین و رشتے داروں سے حسنِ سلوک کی تاکید کی، پڑوسیوں کے حقوق کی نشان دہی کی، غیروں سے حسنِ سلوک کرنا سکھایا بلکہ جانوروں کو تکلیف پہنچانے پر جہنم کی وعید سنائی۔ آپؐ نے قیدیوں سے بے جا بدسلوکی سے منع کیا، مقتولین کے مْثلے سے روکا، پھل دار درخت نہ کاٹنے کی ہدایت دی۔لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ آج ایک طرف جہاں اغیار اسلام اور مسلمانوں پر دہشت گردی کا الزام عائد کرنے پر تْلے ہوئے ہیں، وہیں بعض نام نہاد مسلمان بھی اپنے قول و عمل سے اسلام کی پاکیزہ شبیہ کو داغ دار بنانے سے احتراز نہیں کرتے۔
رسول اللہ کی تعلیمات خواہ وہ عائلی ہوں یا قبائلی انہیں ہمیںقلب و جگرسے اپنانا ہو گا اور سچے عاشقِ رسول بن کر دکھانا ہوگا۔ اخلاقِ حسنہ کے ذریعہ آپؐ کی تعلیمات کا ڈنکا سارے عالم میں بجانا ہوگا۔ اپنے اہلِ خانہ اور رشتے داروں کے ساتھ حسنِ سلوک کا معاملہ کرنا ہوگا۔ اپنے دوستوں اور پڑوسیوں کے نیک کاموں میں ان کا دست و بازو بن کر کھڑا ہونا ہوگا۔ نیز اپنے ملک کی سالمیت کا ہر دم لحاظ رکھنا ہوگا۔ اگر ایسا ہوا تو سمجھئے کہ ہم نے آپؐ کے امتی ہونے کا فرض نبھانے کی کوشش کی ورنہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ جس نے اپنے حبیبؐ کے ذکر کو قرآنِ کریم میں’’تمہارے اخلاق بہت بلند ہیں‘‘(القلم4-) کہہ کر ہمیشہ ہمیش کے لیے بلند کر دیا، اْسے ہم جیسوں کی کوئی ضرورت نہیں۔ ہماری سخت محرومی کی دلیل ہے کہ اپنی من مانی کرکے ہم اپنے رب کی رضا و خوشنودی کا خواب دیکھیں۔ شیخ عبد القادر جیلانیؒنے فرمایا تھا’’ اپنے آقا کی خوشنودی سے محروم ہے وہ شخص، جو اس کی تو تعمیل نہ کرے جس کا وہ حکم فرماوے اور جس کا اس نے حکم نہیں دیا، اس میں مشغول رہے۔ یہی اصل محرومیت اور اصل موت اور اصل مردودیت ہے‘‘ ۔qq