حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کی تعلیمات اور تصور امن: ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی

0

ڈاکٹر ریحان اخترقاسمی

عیسائیت میں تصور امن کا جائزہ لینے کے لیے ناگزیر طور پر اس کے اہم ترین منشور انجیل کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔ انجیل میں بلاشبہ بہت حد تک انسانوں کے لیے امن و امان اور صلح و آشتی کی تعلیمات موجود ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر دنیا ئے انسانیت امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے لیکن ایک دو سرا رخ یہ ہے کہ ظالموں کو کیفرو کردار تک پہنچانے، شرپسندوں اور فتنہ پروروں کو لگام دینے اور دیگر تمام خبائث و زائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے واضح ہدایت و فرامین موجود نہیں ہیں جن کی بنا پر ایک طرف اخلاقی اور روحانی تعلیمات کی بنا پر عفوو در گزر، صبر و استقامت اور عاجزی و فروتنی کا دلکش اور جاذب نظر منظر ہوتا ہے تو دوسری طرف اس صداقت سے انکار کی گنجائش نہیںہے کہ شرپسندوں، فتنہ پروروں، ظالموںاور جابروں کی طرف سے دلخراش اور روح فرساماحول بھی نشوونما پاتا ہے۔ تا ہم اس میں شبہ نہیں کہ امن و آشتی سے متعلق تعلیمات انجیل کے اہم مشتملات ہیں۔ اس سلسلہ میں انجیل کے بعض اہم اقتباسات سپرد قرطاس کیے جاتے ہیں۔

صلح کی تعلیم:صلح و مصالحت کا نقطہ نظر کسی بھی مذہب یا نظریہ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے جس کی بنا پر معاشرہ انسانی میں خوشگوار فضا پیدا ہوتی ہے اور جنگ و جدال اور حرب و پیکار کی صورت حال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مذہب عیسائیت بھی اس عمل خیر کی علمبردار ہے۔ اس مذہب کی کتب مقدسہ میں سے چند تعلیمات اس سلسلے میں ذیل میں ملاحظہ فرمائیں :
’’مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔‘‘
ایک دوسری آیت میں صلح و مصالحت کی تعلیم دیتے ہوئے حضرت عیسیٰؑ فرماتے ہیں :
’’جب تک تو اپنی لاعلمی کے ساتھ راہ میں ہے اس سے جلد صلح کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مدعی تجھے منصف کے حوالے کر دے اور منصف تجھے سپاہی کے حوالے کر دے اور تو قید خانہ میں ڈال دیا جائے۔

عدل و انصاف کا قیام :
ظلم و عدوان اور طغیان و سرکشی کسی بھی معاشرے کے لیے زہر ہلاہل ہے اس سے انسانیت و بشر کے دوستی کے جذبات سرد پڑجاتے ہیںاور حق گوئی وراست بازی اور محبت و مؤدت کے لیے راہیں بڑی مشکل سے ہموار ہوتی ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ نے قیام بدل سے متعلق جو جامع تعلیمات دی ہیں وہ انا جیل اربعہ میں جابجا لعل و گہر کی شکل میں بکھری نظر آتی ہیں۔ مثلاً ذیل کا یہ اقتباس ملا حظہ ہو :
’’اے ریا کار فقیہو ں تم پر افسوس کہ…تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں انصاف ، رحم اورایمان چھوڑ دیا ہے لازم تھا کہ یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے۔‘‘

اتحاد و اتفاق :اتحاد و اتفاق معاشرۂ انسانیت کے لیے ایک ایسی مضبوط بنیاد ہے کہ جس کو روبعمل لاکر انتشار و اختلاف اور بغض و عداوت کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے اور لوگ معاشرے میں ایک دوسرے کے لیے معاون و مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ اپنے پیروکاروں کے لیے انجیل مقدس میں اس کی افادیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر اتحاد و اتفاق کا قیام عمل میں نہیں آیا تو آپسی رشتوں میں تلخی و ترشی پیدا ہوگی۔ حضرت عیسیٰؑ فرماتے ہیں :
’’اور اگر کسی سلطنت میں پھوٹ پر جائے تو وہ سلطنت قائم نہیں رہ سکتی اور اگر کسی گھر میں پھوٹ پڑ جائے تو وہ گھر قائم نہ رہ سکے گا۔ اور اگر شیطان اپنا ہی مخالف ہو کر اپنے میں پھوٹ ڈالے تو وہ قائم نہیں رہ سکتا بلکہ اس کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘

قتل ناحق کی ممانعت:
انسانی زندگی کے تقدس کی پامالی اور معصوم انسانوں کا قتل ناحق، بہت ہی سنگین قسم کا جرم ہے۔ اس کی وجہ سے معاشرے کا وجود و استحکام متزلزل ہوجاتا ہے اور انسانی رشتوں کا جو تقدس ہے وہ پامال ہو جاتا ہے۔ انسانی زندگی کے تقدس کو پامال نہ کیا جائے اور نہ ہی انسانوں کا ناحق زمین میں خون بہایا جائے۔ اسی وجہ سے حضرت عیسیٰؑ انسانی زندگی کے تقدس کی پامالی پر بندلگاتے ہوئے اور قتل ناحق کو لائق سزا جرم قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔‘‘

عزت نفس کا حق:
عزت نفس ایک ایسا حق ہے جس کے قائم ہونے کی وجہ سے افراد معاشرہ کے درمیان الفت و محبت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ایک ہی خاندان آدم کے افراد ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ چونکہ کائنات میں بسنے والے لوگ ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں اور سب ایک دوسرے سے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں، اس لیے انسانوں کے مابین عزت و احترام کا سلوک ضروری ہے۔ ان پر ناحق غصہ و ملامت اور عزت و عفت کی پامالی ایک مذموم عمل ہے، اسی وجہ سے عزت نفس کی تعلیم دیتے ہوئے اور اس حق سے روگردانی کرنے والوں کو سزا کا مستحق قرار دیتے ہوئے، حضرت عیسیٰؑ فرماتے ہیں :
’’لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غصہ ہوگا، وہ عدالت کی سزا کے لائق ہوگا۔ اور جو اس کو احمق کہے گا وہ آتش جہنم کا سزاوار ہوگا۔

راست بازی اور سچائی:
راست بازی و سچائی اور صداقت و وفا شعاری انسان کی ایک ایسی صالح صفت ہے کہ جس کے اندر یہ صفت پائی جائے وہ انسان معاشرہ و سوسائٹی میں قابل احترام شخص قرار دیا جاتا ہے اس عمل نیک کی وجہ سے آپسی رشتوں میں دوام و استحکام پیدا ہوتا ہے اور ملک و معاشرے میں امن و امان کی فضا ہموار ہوتی ہے اور دوسری طرف اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سند محبوبیت حاصل ہوتی ہے۔ اس بابت انجیل مقدس میں حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم موجود ہے :
’’مبارک ہیں وہ جوراست بازی کے سبب سے ستائے گئے ہیں، کیونکہ آسمان کی بادشاہی ان ہی کے لیے ہے، کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راست بازی فقہیوں کی راست بازی سے زیادہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہر گز داخل نہ ہوگے۔

بغض و عداوت سے اجتناب:
عناد و عداوت اور بغض و حسد ایسا فعل قبیح ہے کہ یہ جس فرد یا جس قوم کے اندر پائی جائے وہ فرد اور قوم اور ملک و معاشرہ ہمیشہ بے چینی و بے قراری اور بدامنی وبے اطمینانی کی کیفیت سے دو چار ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کی ممانعت کی تعلیم دیتے ہوئے حضرت مسیحؑ فرماتے ہیں :
’’مبارک ہیں وہ جو پاک دل ہیں کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے۔‘‘
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS