کابل (ایجنسیاں) : افغانستان میں طالبان نے لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت دینے کا اپنا فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ابھی لڑکیوں کے اسکول کے یونیفارم کے حوالے سے فیصلہ کیا جانا ہے۔ گزشتہ اگست میں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے کئی ماہ تک بند رہنے کے بعد آج لڑکیوں کے اسکول کھولے جانے تھے۔ تاہم وزارتِ تعلیم کی جانب سے جاری کردہ ایک نوٹس میں کہا گیا ہے کہ اسکول ابھی بند رہیں گے۔ آخری لمحات میں اس فیصلے کی تبدیلی پر کئی لڑکیاں رو پڑیں اور والدین نے برہمی اور مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ ایک ہفتہ قبل وزارتِ تعلیم نے کہا تھا کہ تمام طلبہ بشمول لڑکیوں کے لیے اسکول بدھ کے روز کھول دیے جائیں گے۔ تاہم تازہ ترین نوٹس میں کہا گیا ہے کہ تمام لڑکیوں کے ہائی اسکولوں اور ان اسکولوں جن میں چھٹی جماعت سے سینئر لڑکیاں پڑھتی ہیں، ہم انھیں مطلع کرتے ہیں کہ اگلے حکم نامے تک وہ بند رہیں۔ نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغان روایات اور شریعہ قوانین کے مطابق لڑکیوں کے یونیفارم پر فیصلے کے بعد ان اسکولوں کو دوبارہ کھول دیا جائے گا۔
گزشتہ برس اگست میں افغانستان پر قبضہ حاصل کرنے کے بعد سے ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ طالبان ایک بار پھر خواتین کے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی عائد کر دیں گے۔ طالبان نے سنہ 1996 سے 2001 کے درمیان اپنے پہلے دور حکومت کے دوران خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی تھی۔ مگر طالبان کے قطر میں سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ طالبان لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت دینے کے اپنے وعدے سے مکر رہے ہیں۔ انھوں کہا ہے کہ لڑکیوں کے اسکولوں کے حوالے سے کوئی تنازع نہیں ہے،
Girls in Afghanistan crying after they were promised their schools would reopen only for the Taliban to lock them out again at the last minute. pic.twitter.com/SuoEpNLz5B
— Heather Barr (@heatherbarr1) March 23, 2022
یہ لڑکیوں کے اسکول یونیفارم پر فیصلے کا ایک تکنیکی معاملہ ہے جو کہ تاخیر کا باعث بن رہا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ وزارتِ تعلیم تمام طالبات کے لیے ایک جیسے یا ملتے جلتے یونیفارم بنا رہی ہے مگر ایسے ایک جیسے یونیفارم سارے ملک میں میسر نہیں ہیں۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ یونیفارموں کا مسئلہ جلد حل ہو جائے گا۔
عالمی برادری کی جانب سے طالبان سے غیر ملکی امداد کے حصول سے قبل ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ وہ ملک میں خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا حق دیں۔ طالبان حکومت کی جانب سے اسکولوں کو کھولنے کا فیصلہ اچانک واپس لیے جانے پر لڑکیوں کے والدین میں برہمی اور غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ ایک شخص نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ طالبان کی جانب سے بدھ کی صبح اسکولوں کو دوبارہ بند کرنے کے فیصلے کے بعد ان کی بیٹی رو رہی ہیں اور صدمے میں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر میری بیٹی کو کچھ ہوا تو میں طالبان کو معاف نہیں کروں گا۔‘