ایسا لگتا ہے کہ آج 2024کے عام انتخابات کی بساط بچھ چکی ہے۔ مرکز میں حکمراں این ڈی اے محاذ کی کلیدی پارٹی بی جے پی یہ دعویٰ کر رہی ہے کہ اس کا کنبہ لگاتار بڑھ رہا ہے اور اس میں برکت ہورہی ہے جبکہ دوسری جانب اپوزیشن پارٹیاں اس لئے پرامیدنظرآرہی ہیں کیونکہ ان کولگتا ہے کہ مختلف ریاستوں میں حکمراں تمام اپوزیشن پارٹیاں ایک چھتری کے نیچے آتی جارہی ہیں۔ وزیراعظم نریندرمودی نے آج ان اپوزیشن پارٹیوںکے اتحاد کودکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کنبہ پرور اور کرپٹ لوگوںکی دکان ہے۔ جبکہ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے گزشتہ 9سال کے دوراقتدار اور بی جے پی کی عوام دشمن پالیسیوں کو نشانہ بناکر دعویٰ کر رہی ہیں کہ 2024کے الیکشن میں اپوزیشن پارٹیاں متحد ہوکر حکمراں بی جے پی کے خلاف ایک مستحکم اورمضبوط سیاسی متبادل کھڑا کرلیںگی۔ جیسا کہ پٹنہ کی میٹنگ میں یہ بات نکل کر آئی تھی کہ اپوزیشن پارٹیاں بی جے پی کے خلاف ایک متحد امیدوارکو کھڑا کرکے ووٹوں کی تقسیم کو روکیںگی۔ اگرچہ یہ بات دلچسپ اور کارگر دکھائی دیتی ہے مگر 2024 تک پہنچتے پہنچتے سیاسی محاذ کس حد تک موجودہ ہیئت برقرار رکھیںگے اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ مگر کئی ریاستوں میں جہاں پر دونوںمحاذوں میں براہ راست ٹکر ہے صورت حال واضح ہوتی جارہی ہے۔ اس میں مغربی بنگال، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور اترپردیش وغیرہ کے منظرنامے تو کسی حد تک توواضح ہیں مگربہار اور مہاراشٹر میں صورت حال اس قدر واضح نہیں ہے اور بی جے پی کو لگتا ہے کہ لوک سبھا الیکشن تک مہاراشٹر میں اپوزیشن پارٹیوں کو منتشرکرنے میں کامیاب رہے گی۔ جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی تھیں اس وقت مہاراشٹر این سی پی کے صدر جینت پاٹل اور دیگر لیڈروں نے اسپیکر سے اپیل کی ہے کہ وہ ایکناتھ شندے کی حکومت میں شامل 9وزرا کو الگ سے جگہ مختص کردیں کیونکہ وہ ان کی پارٹی کا حصہ نہیں ہیں۔ یہ بات ان معنوںمیں دلچسپ ہے کہ گزشتہ 2دنوںمیں اجیت پوار نے اپنے چچا شردپوار سے ان کی اہلیہ کی مزاج پرسی کے بہانے راہ ورسم بحال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ اجیت پوار یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ایک بڑی اکثریت ان کے ساتھ ہے مگر حالات ایسے نہیں ہیں کہ ان کے اس دعوے کی تصدیق کی جاسکے۔ مہاراشٹر میں اجیت پوار کا حشر بھی وہی ہوتا نظرآرہا ہے جو ایکناتھ شندے کا ہوا ہے۔ اجیت پوار دومرتبہ شردپوار کے گھر گئے مگرچند ممبران ہی ان کے ساتھ تھے۔ بہرکیف ایک اور دوسری اہم اورسیاسی طورپر حساس ریاست بہار میں بھی منظرنامہ دلچسپ ہے۔ لوک جن شکتی پارٹی کو توڑنے کے بعد بی جے پی نے دوبارہ چراغ پاسوان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے جبکہ ان کے چچا پارس پاسوان بھی اس کے ساتھ ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بہار میں پاسوان کی پارٹی کا وہ زوروشور اثر ورسوخ برقرار ہے جو رام ولاس پاسوان کی زندگی میں تھا یا چچا بھتیجے کے کھیل میں لوک جن شکتی پارٹی کا بنیادی ووٹ بینک اس سے کھسک گیا ہے۔ بی جے پی کوشش کر رہی ہے کہ وہ جنتا دل یونائیٹڈ اور راشٹریہ جنتادل کو سمیٹ دے اور اپنے ساتھ جیتن رام مانجھی کی ہندوستان عوام پارٹی اور لوک جن شکتی پارٹی کے ٹوٹے بکھرے ہوئے حصوںکو ساتھ میں لاکر ایس سی، ایس ٹی کو بھی اپنے ساتھ لے آئے۔ ادھر بنگلورو میں اپوزیشن پارٹیوں کی جو میٹنگ ہورہی ہے اس میں بڑی پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں۔ یہ وہ پارٹیاں جو اپنے اپنے صوبوںمیں بی جے پی کو زبردست چنوتی دے رہی ہیں۔ اس میں جے ڈی یو، آرجے ڈی بہار میں، مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس، یوپی میں سماجوادی پارٹی ،کانگریس اور اجیت سنگھ کی پارٹی لوک دل کے علاوہ جنوب میں ڈی ایم کے، عام آدمی پارٹی، سی پی آئی، سی پی آئی ایم، سی پی آئی ایم ایل، مہاراشٹر میں شیوسینا، این سی پی اور کانگریس مل کر اپنے اپنے طورپر بی جے پی کو چیلنج دینے کی پوزیشن میں آتی جارہی ہیں۔ این ڈی اے کی حلیف پارٹیوںمیں بی جے پی کے ساتھ اے آئی اے ڈی ایم کے، شیوسینا ایکناتھ شندے، این سی پی اجیت پوار، این پی پی(میگھالیہ) ، نیشنل ڈیموکریٹک پروگریسوپارٹی (این ڈی پی پی)، سکم میں سکم کرانتی کاری مورچہ (ایس کے ایم)، ہریانہ میں جن نائک جنتا پارٹی (جے جے پی) ، تمل ناڈو میں آئی ایم کے ایم کے، جھارجھنڈ میں آل جھارکھنڈ اسٹوڈنٹس یونین، مہاراشٹر میں آر پی آئی، میزورم میں میزونیشنل فرنٹ، تمل ناڈو میں تمل منیلاکانگریس، تری پورہ میں آئی ٹی ایف ٹی، آسام میں بوڈو پیپلز پارٹی (بی پی پی) ، تمل ناڈو میں پی ایم کے، گوا میں مہاراشٹر وادی گومانتک پارٹی (ایم جی پی)، اترپردیش میں اپنا دل، آسام میں آسام گن پریشد، نشاد پارٹی، آسام میں یو پی پی ایل ، پونڈیچری میں اے آئی آر ایل سی، پنجاب میں شرومنی اکالی دل ڈھنڈسہ، جن سینا پون کلیان،بہار میں راشٹریہ لوک سمتا پارٹی (اوپیندرکشواہا)، یوپی میں سکھ دیو بھارتیہ سماج پارٹی اوم پرکاش راج بھر، کیرل میں بی ڈی ایس جے، کیرالہ کانگریس، گورکھا نیشنل لبریشن فرنٹ، جناتی پاتھیا راشٹریہ سبھا، ناگالینڈ میں این پی ایف، یونائیٹڈ ڈیموکریٹک پارٹی، ایچ ایس ڈی پی، جن سوراج پارٹی، مہاراشٹر میں ہی پریہار جن شکتی پارٹی شامل ہیں۔
یہ مرکز میں دونئے محاذ معرض وجودمیں آرہے ہیں ان میں کچھ دلچسپ پیش رفت ہوئی ہے۔ کانگریس پارٹی جوکہ پٹنہ کی میٹنگ تک بیک فٹ پر تھی اب اچانک اس میٹنگ میں قائدانہ رول میں آگئی ہے اور کانگریس پارٹی سے مخاصمت اور مقابلہ کرنے والی پارٹیاں جوکہ بہ بانگ دہل برا بھلا کہتی تھیں اس کے ساتھ میں آگئی ہیں۔ اس میں سب سے بڑا نام ترنمول کانگریس کا ہے اور دوسرا سب سے دلچسپ نام عام آدمی پارٹی کا ہے۔ اس محاذ میں اگرچہ کمیونسٹ پارٹیاں کہیں دکھائی نہیں دے رہیں مگر یہاں یہ بات بھی مدنظر رہے کہ مغربی بنگال میں پچھلا الیکشن کانگریس اور کمیونسٹوںنے آپسی مفاہمت کے ساتھ لڑا تھا۔ جبکہ بی جے پی اور ترنمول کانگریس کا براہ راست مقابلہ تھا اس میں کانگریس پارٹی اور کمیونسٹ پارٹیاں حاشیہ پر پہنچ گئی ہیں اور مغربی بنگال میں ایسا لگتا ہے کہ مقابلہ ترنمول کانگریس اور بی جے پی کا رہ گیا ہے۔ پچھلے دنوں ہماچل پردیش اور کرناٹک میں اقتدارحاصل کرنے کے بعد کانگریس کا اعتماد بڑھا ہے۔ کانگریس پارٹی اپوزیشن کی میٹنگ کی میزبانی کر رہی ہے۔ سونیا گاندھی کی قیادت میں دیگرپارٹیوں کے بڑے لیڈر شردپوار، عام آدمی پارٹی کے کنوینر اروندکجریوال کا ایک ساتھ آنا بڑا معنی خیز ہے۔ کیونکہ اب تک بی جے پی ان پارٹیوں کی آپسی خلفشار کا فائدہ اٹھاکر ووٹوںکی تقسیم کرانے میں کامیاب ہوجاتی تھی جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ 2014کے بعد 2019 میں این ڈی اے اور بی جے پی مضبوط پارٹیاں بن کر ابھری ہیں۔ مگریہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ کئی ریاستوںمیں بی جے پی اپوزیشن پارٹیوںمیں خلفشار کراکر اپنی حکومتیں بنانے میں کامیاب رہی ہیں۔ ان میں کرناٹک، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر تازہ ترین مثالیں ہیں جبکہ اسمبلی کے پچھلے الیکشن میں ہریانہ میں جن نائک جنتا پارٹی اورکانگریس کا اتحاد تھا مگر اس اتحادکوتوڑکر بی جے پی نے دشینت چوٹالہ کے ساتھ حکومت بنالی ہے لہٰذا اس مرتبہ ہریانہ میں جو صورت حال ہے وہ کافی حد تک کانگریس کے حق میں ہے۔ پنجاب کا معاملہ بالکل دوسرا ہے۔ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے کانگریس کی حکومت کوگرا کر اقتدار سنبھالا ہے۔ اس طرح دہلی کے بعد عام آدمی پارٹی پنجاب میں بھی برسراقتدار ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پنجاب میں اور دہلی میں عام آدمی پارٹی کس طرح کانگریس کے ساتھ انتخابی تال میل کرے گی کیونکہ دہلی میں تمام سیٹوں پر بی جے پی کا قبضہ ہے اور اسمبلی میں کانگریس کا ایک بھی ایم ایل اے نہیں ہے اور بی جے پی کے بھی 8 ایم ایل اے ہیں۔ پنجاب میں کانگریس پارٹی کا انتشار کسی سے چھپا نہیں ہے امریندرسنگھ نے جو آخری وقت پر دھوکہ دیا تھا اس کے زخم ابھی تک تازہ ہیں، سدھو جیل سے باہر آئے ہیں، سنیل جاکھڑ جیسے لوگ بی جے پی میں شامل ہوگئے ہیں۔
اپوزیشن کے اتحاد کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے اپنے کچھ سابق حلیفوں کی ناراضگی کو دورکرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں ہریانہ کی جن نائک جنتا پارٹی (جے جے پی) بھی شامل ہے۔ جن نائک جنتا پارٹی لیڈر دشینت چوٹالہ جوکہ آنجہانی نائب وزیراعلیٰ دیوی لال کے پڑپوتے اور سابق وزیراعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ کے پوتے اور ہریانہ میں نائب وزیراعلیٰ ہیں۔
اس طرح بہار میں رام ولاس پاسوان کے بیٹے اور بھائی دونوں کو ایک ساتھ ’حلیف‘ کے طورپر این ڈی اے کا حصہ بنا چکے ہیں۔ یوپی میں بی جے پی راج بھر کی سکھدیوپارٹی کوساتھ لاچکے ہیں اور راج بھر پچھلے الیکشن میں بی جے پی کو مغلظات سنا رہے تھے اوراب اس کی مدح سرائی کرتے نہیں تھک رہے ہیں۔ اس کے برخلاف بی جے پی جاٹوں کی سمجھی جانے والی پارٹی چودھری اجیت سنگھ راشٹریہ لوک دل کو ساتھ نہیں لاسکے ہیں۔ جہاں کسان تحریک کے دوران اجیت سنگھ کے ساتھ پولیس نے زبردست زیادتی کی تھی۔ اس طرح پنجاب میں شرومنی اکالی دل کو اپنے ساتھ لانے میں بی جے پی ناکام رہی ہے۔ شرومنی اکالی دل کے وزیر کے طورپر ہرسمرت کور نے 2020 میں کسان قوانین پر این ڈی اے سرکار سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اڑیسہ کی بیجو جنتادل اور اکالی دل کا این ڈی اے یا کانگریس کی قیادت والے محاذ میں شمولیت کا فی الحال امکان نہیں ہے۔