ایم اے کنول جعفری
عدالت عظمیٰ کی جانب سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو کے مسلمانوں کے خلاف دیے گئے متنازع بیانات پر ازخود نوٹس لیا جانا خوش آئند اقدام ہے۔ دو فرقوں کے درمیان منافرت پھیلانے،دلوں میں دوریاں پیدا کرنے اورملک کے جمہوری نظام کو جان بوجھ کر شدید نقصان پہنچانے کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے یہ ضروری تھا کہ عدالت عظمیٰ کسی شخص،تنظیم یا ادارے کی جانب سے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے قبل خود ہی عملی کارروائی کی شروعات کرکے نظیر پیش کرے۔سپریم کورٹ نے اس بابت ہائی کورٹ الٰہ آباد سے مفصل جانکاری طلب کی ہے۔ واضح رہے کہ 8دسمبر 2024 کو وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے قانونی سیل کی جانب سے منعقد کرائے گئے ایک پروگرام میں یکساں سول کوڈ کے موضوع پر بات کرتے ہوئے جسٹس شیکھر کمار یادو نے جس طرح کے متنازع بیانات دیے تھے، اُس سے یقینی طور پر ملک میں جمہوریت کی رُوح تڑپ گئی ہوگی۔ ہندوستان کودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا شرف حاصل ہے۔ایسے جمہوری ملک میں کسی جج کا اپنے عہدے پر فائز رہتے ہوئے کسی سیاسی شخصیت کی طرح ببانگ دہل یہ کہنا کہ ہندو،مسلمانوں سے ان کی ثقافت کی پیروی کرنے کی توقع نہیں رکھتے،بلکہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ اس کی توہین نہ کریں۔ ’دی ہندو‘ اخبارمیں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق جسٹس یادو نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اَب ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے،تین طلاق یا حلالہ کرنے کا کوئی بہانہ نہیں ہے۔یہ طرز عمل اب کام نہیں کریں گے۔ اُنہوں نے کہا کہ ’جنونی‘ لفظ غلط ہے،لیکن انہیں یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے،کیوں کہ یہ ملک کے لیے بُرا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام کو اُکساتے ہیں۔ایسے لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ملک کو ترقی نہیں کرنی چاہیے۔ان سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ہمارے ملک میں جب کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُس کے سامنے وید کے منتر پڑھے جاتے ہیں۔ان کی جگہ بچوں کے سامنے جانوروں کو بے دردی سے ذبح کیا جاتا ہے۔پھر یہ کیسے اُمید کی جا سکتی ہے کہ وہ سخی ہوگا۔جسٹس یادو کی تقریرسے متعلق ویڈیوز سوشل میڈیا پر گشت کرنے کے بعد اُنہیں زبردست تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جسٹس یادو دائیں بازو کی تنظیم وشوہندوپریشد کی قانونی سیل کی جانب سے منعقدہ تقریب میں شریک ہوئے اور مسلمانوں کے خلاف جم کر بھڑاس نکالی۔اُنہوں نے کہا کہ ہندوستان اکثریتی برادری کی خواہشات کے مطابق کام کرے گا۔اکثریت کی فلاح و بہبود اور خوشی دوسروں کی خوشیوں پر مقدم رہنی چاہیے۔مزید کہا: ’ مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجک نہیں ہے کہ یہ ہندوستان ہے اور یہ ملک یہاں رہنے والوں کی اکثریت کی مرضی کے مطابق چلے گا۔ یہی قانون ہے اور قانون اکثریت کی مرضی کے مطابق چلتا ہے۔اس پر ایک خاندان یا معاشرے کے تناظر میں غور کریں،جہاں صرف وہی قبول کیا جائے گا، جو اکثریت کی فلاح و بہبود اور خوشی کو یقینی بناتا ہے۔ عدالت عظمیٰ کی جانب سے الٰہ آبادہائی کورٹ کے جج جسٹس شیکھر کمار یادو کی متنازع تقریر کی خبر کا از خود نوٹس لینے سے پہلے، مہم برائے عدالتی احتساب اور اصلاحات( سی جے اے آر) نے چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ کو ایک خط لکھا۔اس میں اُنہوں نے ہائی کورٹ کے جسٹس شیکھر کمار یادو کے خلاف اندرونی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ پرشانت بھوشن وکیل اور این جی او مہم برائے عدالتی احتساب اور اصلاحات کے کنوینر نے جسٹس یادو کے خلاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ این جی او نے اُن پر عدالتی اخلاقیات کی خلاف ورزی اور غیر جانب داری و سیکولرازم کے آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کا الزام لگایاہے اور کہا کہ جسٹس یادو نے ایک کمیونٹی کے خلاف توہین آمیز الفاظ کا بھی استعمال کیا۔اس کی وجہ سے الٰہ آباد ہائی کورٹ کے جج کے عہدے اور عدلیہ کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑا۔انہوں نے اپنے عمل سے قانون کی حکمرانی اور بالادستی کو کمزورکیا،جسے برقرار رکھنا ان کا کام ہے۔اتنا ہی نہیں،انہوں نے ریمارکس دیے کہ ایک کمیونٹی کے بچوں کو رحم دلی اور عدم تشدد کی قدریں سکھائی جاتی ہیں اور اس کے لوگوں کی پرورش رواداری پر کی جاتی ہے۔ خط کی تحریر کے مطابق ’ہائی کورٹ کے جج نے یہ بھی کہا کہ جہاں گائے، گیتا اورگنگا ثقافت کی تعریف کرتے ہیں،جہاں ہر گھر میں بالادیوی کی مورتی ہے اور ہر بچہ رام ہے۔یہ میرا ملک ہے۔جسٹس یادو نے مبینہ طور پر اکثریتی برادری کے حق میں تبصرہ کیا۔اس میں انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہندوستان اکثریت کی مرضی کے مطابق کام کرے گا۔تجویز دی کہ قانون سازی اکثریت کے مفادات کے مطابق ہو۔انہوںنے کثیرازواج،حلالہ اور تین طلاق کا حوالہ دیتے اور ہندو روایات سے موازنہ کرتے ہوئے مسلم کمیونٹی میں رائج طریقوں پر بھی تنقید کی۔ان تبصروں میں مبینہ طور پر تضحیک آمیز زبان کا استعمال کیاگیا،جس کے سبب ہندوستانی آئین میں درج سیکولر اور مساواتی اقدار مجروح ہوئیں۔
15اگست1947کو ملک آزاد ہونے کے بعد ملک کے پہلے صدر ڈاکٹر راجندر پرساد کی صدارت میں ہندوستان کا آئین تیار کرنے کے لیے ایک آئین ساز کمیٹی کی تشکیل کی گئی۔ شروع میں اس کے اراکین کی تعداد 389 تھی، جسے بعد میں کم کرکے 299 کیاگیا۔ آئین تیار کرنے میں 2برس 11 مہینے اور18دن کا وقت لگا۔ اس دوران آئین ساز اسمبلی نے 166دنوں تک تبادلہ خیال کیا اور11اجلاس منعقد کیے۔ تمام قوانین پر کافی بحث ہوئی۔ زبان، حقوق، اقلیتوں کے ایشوز وغیرہ پر کافی مباحث ہوئے۔ 26نومبر1949کو آئین ساز اسمبلی نے اسے رسمی طور پر اپنایا اور پھر26 جنوری 1950 کو اسے باقاعدہ نافذ کیا گیا۔ اس دن کو یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ حالاں کہ اسے 26 نومبر 1949 تک تیارکرلیاگیاتھااور آئین ساز اسمبلی نے اسے رسمی طور پر اپنانے کی منظوری بھی دے دی تھی،لیکن اسے نافذ کرنے سے قبل2مہینے تک اس کا باریک بینی سے جائزہ لیا گیا۔آئین کو اچھے سے پڑھاگیا اور پھر انگریزی سے ہندی میں اس کا ترجمہ کیا گیا۔ 24جنوری 1950کو آئین کی انگریزی اور ہندی میں 2 ہاتھوں سے لکھی کاپیوں پر دستخط کیے گئے۔ 2 دن بعد 26جنوری1950کو ہندوستان کا آئین ملک کا قانون بن گیا اور نافذہوا۔اس طرح ہندوستان انگریزوں سے آزاد ہونے کے بعد ایک جمہوری ملک بنا۔سوال یہ ہے کہ اگر ہندوستان کو اکثریت کے حساب سے ہی چلناتھاتو پھر ملک کا آئین تیار کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ ملک کی اعلیٰ ذہنیت نے کیوں3برس تک اس پر ماتھا پچی اور بحث و مباحثے کیے؟ کیوں آئین کی انگریزی اور ہندی کی الگ الگ ہاتھ سے قلم بند کاپیاں تیار کی گئیں؟کیوں ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کو آئین ہند کی مجلس مسودہ سازی کا صدر بنانے کی نوبت آئی؟کیوں جواہر لعل نہرو، سنجے،چکرورتی راج گوپال آچاریہ، ڈاکٹر راجندر پرساد، ولبھ بھائی پٹیل، کنہیا لال مانک، گنیش واسودیو، سندیپ کمار پٹیل، مولانا ابوالکلام آزاد، شیامہ پرساد مکھرجی، نینی رنجن گھوش اور بلونت رائے مہتا جیسے لوگوں کو مجلس دستور ساز کا ارکان بنایاگیا اور کیوں مجلس آئین ساز کے 284اراکین کے دستخط کرنے کی ضرورت پڑی؟ کیوں آئین ہند گورنمنٹ آف انڈیا، ایکٹ 1935 کو بدل کر ملک کا بنیادی سرکاری دستاویز بنا اور بھارت ڈومینین جمہوریہ ہند بن گیا؟ اور آخر کس لیے آئینی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے آئین ہند کے معماروں نے برطانوی پارلیمان کی دفعات کو آئین ہند کی دفعہ395میں کالعدم قرار دے دیا؟یہ ہندوستان کا آئین ہی ہے،جو ہندوستان کو ایک آزاد، سماجی اور ایسا جمہوری ملک بناتا ہے،جہاں عوام کو اس کے اکثریت اور اقلیت کی بنا پر سہولتیں مخصوص نہیں ہیں،بلکہ عوام کے لیے انصاف، مساوات اور حقوق کو یقینی بناتا ہے اور تمام مذہبی برادریوں کو فروغ دینے کے لیے اُبھارتا ہے۔اُمید کی جانی چاہیے کہ عدالت عظمیٰ کے ذریعہ لیے گئے فوری ایکشن کا مثبت اثرضرور سامنے آئے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]