علم کے قافلے پر سیاست کی تلوار

0

دنیا کے نقشے پر طاقت کا جو محور کبھی آزادی، مساوات اور اظہاررائے کی علامت سمجھا جاتا تھا آج وہی سرزمین بین الاقوامی طلبا کیلئے ایک خفقان زدہ خواب بن چکی ہے۔ امریکہ جو علم و فضل کے میناروں، اعلیٰ جامعات اور فکری آزادی کے حوالے سے اقوامِ عالم میں پیش پیش تھا اب سیاسی مداخلتوں، نظریاتی انتقام اور خوفناک تعصبات کے شکنجے میں جکڑا نظر آتا ہے۔

20 جنوری 2025 کے بعد سے جب صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنی دوسری مدت صدارت کا آغاز کیا ایک ایسا طوفان اٹھا جو نہ صرف امریکی معاشرے بلکہ عالمی علمی منظرنامے کو ہلا کر رکھ گیا۔ سینکڑوں بین الاقوامی طلبا جن میں بڑی تعداد ہندوستان، ترکی، فلسطین اور افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والوں کی ہے، نے اس عہد میں اپنے تعلیمی ویزے یکایک منسوخ ہوتے دیکھے۔ ان میں سے متعدد کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ بعض کو حراستی مراکز میں رکھا گیا، ان کے مستقبل پر سیاہ دھبے لگا دیے گئے۔
یہ کوئی حادثاتی یا انفرادی پالیسی نہیں بلکہ ایک منظم نظریاتی حملہ ہے۔ بظاہر قانون کی عملداری اورقومی سلامتی جیسے الفاظ کے پردے میں امریکی ریاست اب اختلاف کو جرم، ہمدردی کو غداری اور تنقید کو دہشت گردی قرار دے رہی ہے۔ فلسطین کے حق میں کی گئی پوسٹ، کسی مظاہرے میں موجودگی یا کسی مضمون میں لکھا گیا ایک جملہ،سب اب جرم کی درجہ بندی میں آ چکے ہیں۔

ٹرمپ انتظامیہ نے ان طلبا پر یہود دشمنی اور حماس نوازی کا الزام عائد کیا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ الزامات حقیقت پر مبنی ہوتے تو کیا درجنوں یہودی طلبا اور کارکنان جو فلسطینی عوام کیلئے آواز اٹھا رہے ہیں بھی ان ہی الزامات کے تحت گرفتار ہوتے؟ نہیں۔ اصل نشانہ وہ نظریہ ہے جو آزادی، برابری اور انصاف پر مبنی ہے اور یہی نظریہ امریکہ کی روح تھا جو اب زخم خوردہ ہے۔
زیادہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کئی ویزے ایسے جرائم پر منسوخ ہوئے جن کا احتجاج یا سیاست سے کوئی تعلق نہیں جیسے ٹریفک کا چالان یا فارم میں غلطی۔ حقیقت یہ ہے کہ قانون کا استعمال بطور ہتھیار کیا جا رہا ہے، تاکہ خوف پھیلایا جا سکے اور تعلیمی اداروں کو خاموش کرایا جا سکے۔
آج جب دنیا بھر میں یونیورسٹیاں عالمی فکری ورثے کی نمائندہ بن چکی ہیں امریکہ کے کیمپس وہ جگہیں بن چکے ہیں جہاں علم نہیں بلکہ فرمانبرداری کی پرکھ کی جا رہی ہے۔ کولمبیا،ہارورڈ، اسٹین فورڈ جیسے ادارے جو کبھی اختلاف رائے کے نخلستان سمجھے جاتے تھے اب ریاستی دبائو میں آ کر اپنے ہی طلبا کو قربان کر رہے ہیںکیوں کہ انہیں کبھی فنڈنگ روکنے کی دھمکی تو کبھی ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی وعیدسنائی جارہی ہے۔

علمی اداروں کی خاموشی یا رضامندی اور ان کی خودسپردگی کا حال کولمبیا یونیورسٹی کی مثال سے عیاں ہے۔ 400 ملین ڈالر کے فنڈ کی بندش کے ڈر سے اصولوں کو گروی رکھ کر شعبہ مشرق وسطیٰ پر اکیڈمک رسیور شپ نافذ کر دینا محض ڈر نہیں ضمیر کی شکست ہے۔ ہارورڈ جو نسبتاً مزاحم دکھائی دیتی ہے بھی مسلسل دبائو میں ہے حتیٰ کہ 2 بلین ڈالر کی امداد کی معطلی کی تلوار اس پر لٹک رہی ہے۔
یہ تمام واقعات اکیلے کسی ایک قوم یا طبقے کی آزمائش نہیں بلکہ پوری فکری دنیا کیلئے لمحہ فکریہ ہیں۔ علم اگر خوف کے سائے میں پروان چڑھے تو وہ علم نہیں محض اطاعت کا جز بن جاتا ہے۔ اس فکری جبر کوقومی سلامتی اورغداری جیسے الفاظ کی چادر میں چھپانا ایک غیر جمہوری ذہنیت کا مظہر ہے۔
یہ سب اس بڑی حکمت عملی کا حصہ ہے جس میں تنوع مساوات اور شمولیت جیسے بین الاقوامی تعلیمی اصولوں کو قصہ پارینہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ٹرمپ کا وژن ایک ایسے یک رخے امریکہ کا ہے جہاں صرف مخصوص نظریات کو جگہ ہو اور باقی سب کو دیس نکالا۔

یہ صورت حال کسی ایک صدر یا ایک پالیسی کی پیداوار نہیں بلکہ اس عالمی رویے کی عکاس ہے جو اختلاف رائے کو کمزوری اور تنقید کو دشمنی سمجھنے لگا ہے۔ کیا علم کی آزادی جو انسانی ترقی کا ستون ہے،اب محض طاقت کی نوک پر طے ہو گی؟
وقت کا تقاضا ہے کہ دنیا بھر کی علمی برادری اس جبر کے خلاف آواز بلند کرے۔ علم کو تجارت، نظریے کو غداری اور تنقید کو جرم بنانے والے ہاتھوں کو روکنا صرف امریکہ کی نہیں پوری انسانیت کی ذمہ داری ہے۔ اگر ہم نے آج خاموشی اختیار کی تو کل ہماری اپنی جامعات بھی خوف کے اسی اندھیرے میں گم ہو جائیں گی۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS