نئی دہلی (ایس این بی): سپریم کورٹ نے پیر کو اسٹیٹ بینک آف انڈیا (ایس بی آئی) سے کہا ہے کہ وہ 21مارچ تک ’الیکٹورل بانڈز‘سے متعلق الفا نیومیرک نمبروں کی تفصیلات فراہم کرے۔اسے الیکشن کمیشن کے حوالے کریں اور اس سے متعلق (عدالت میں) حلف نامہ داخل کریں۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی آئینی بنچ نے سیاسی جماعتوں کے عطیات میں شفافیت کی درخواستوں پر 15فروری 2024 کے اپنے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے یہ ہدایات دیں۔ بنچ نے پھر کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتخابی بانڈز کو غیر آئینی قرار دیے جانے کے ساتھ ہی ایس بی آئی کو الفا عددی نمبروں سمیت تمام تفصیلات کا انکشاف کرنے کی عدالت کی ہدایت کی تعمیل کرنی ہوگی۔
انتخابی بانڈز سے متعلق تمام تفصیلات کے انکشاف پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ ایس بی آئی کو تفصیلات کا انکشاف کرنے میں سلیکٹیو نہیں ہونا چاہئے۔ ہم چاہتے ہیں کہ انتخابی بانڈز سے متعلق تمام معلومات جو ایس بی آئی کے پاس ہیں، کو عام کیا جانا چاہیے۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ ہم نے ایس بی آئی سے تمام تفصیلات ظاہر کرنے کو کہا تھا اور اس میں انتخابی بانڈ نمبر بھی شامل تھے۔ ایس بی آئی کو الیکٹورل بانڈز سے متعلق مکمل معلومات دینی چاہیے۔ سپریم کورٹ نے سخت لہجے میں کہا کہ جو بھی معلومات ہیں، انہیں ظاہر کیا جائے۔ ایس بی آئی کو ہمارے حکم پر عمل کرنا چاہیے۔ایس بی آئی کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر وکیل ہریش سالوے نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ہم انتخابی بانڈ کی تعداد سمیت تمام معلومات دیں گے۔ بینک اپنے پاس موجود کسی بھی معلومات کو پوشیدہ نہیں رکھے گا۔ سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے کہا کہ ایس بی آئی ایک حلف نامہ بھی داخل کرے گا جس میں کہے گا کہ اس نے کوئی معلومات نہیں چھپائی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ ایس بی آئی 21 مارچ کی شام 5 بجے تک تمام معلومات فراہم کرے۔دریں اثنا سالیسٹر جنرل تشار مہتا جو مرکز کی طرف سے پیش ہوئے، نے سپریم کورٹ سے کہا کہ حتمی مقصد کالے دھن پر روک لگانا ہے اور عدالت عظمیٰ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس فیصلہ کو عدالت کے باہر کیسے کھیلا جا رہا ہے۔ اس دوران تشار مہتا نے سپریم کورٹ سے کہا ہے کہ وہ اس سلسلے میں کچھ ہدایات جاری کرنے پر غور کرے۔ اس معاملے پر سوشل میڈیا پر پوسٹس کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران ایس بی آئی کی سرزنش کی۔ عدالت نے ایس بی آئی سے پوچھا کہ انتخابی بانڈ سے متعلق معلومات میں ہر بانڈ پر کوئی نمبر کیوں نہیں ہے۔
پرشانت بھوشن نے کہا کہ عدالت نے سخت لہجے میں ایس بی آئی سے اس کا انکشاف کرنے کو کہا۔ ایس بی آئی کو 21 مارچ کی شام 5 بجے تک حلف نامہ داخل کرنا ہوگا۔
جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوئی، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشرا پر مشتمل ایک آئینی بنچ نے ان مشاہدات کے ساتھ ایس بی آئی کے چیئرمین اور منیجنگ ڈائریکٹر سے کہا ہے کہ وہ متعلقہ تفصیلات (سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق) حوالے کریں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے الیکشن کمیشن کو (جمعرات تک) ایک حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت دی ہے کہ اس نے (بینک نے) انتخابی بانڈز سے متعلق تمام تفصیلات الیکشن کمیشن کو بتا دی ہیں۔آئینی بنچ نے کہا کہ ایس بی آئی کو بانڈزکی خریداری اور رسیدوں کے سلسلے میں تمام تفصیلات فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے 12اپریل 2019کے عبوری حکم سے قبل انتخابی بانڈز کی تفصیلات کا انکشاف کرنے کی درخواست کو مسترد کر دیا۔سینئر ایڈووکیٹ ہریش سالوے، ایس بی آئی کی طرف سے پیش ہوئے، تمام تفصیلات دینے پر راضی ہوئے اور کہاکہ ’ہمیں ہر معلومات ملیں گی۔ ایس بی آئی کسی بھی معلومات کو پوشیدہ نہیں رکھ رہا ہے۔ ہم بانڈ نمبر دیں گے‘۔عدالت نے، 12اپریل، 2019کو اپنے عبوری حکم سے پہلے، 2018 میں اسکیم کے آغاز کے بعد سے جاری کردہ تمام بانڈز کے انکشاف سے متعلق درخواست پر غور کرنے سے انکار کردیا۔
بنچ نے کہاکہ ہمارے فیصلے میں ہم نے شعوری فیصلہ کیا ہے کہ کٹ آف تاریخ عبوری حکم کی تاریخ ہونی چاہیے۔ ہم نے وہ تاریخ اس لیے لی، کیونکہ ہمارا خیال تھا کہ ایک بار عبوری حکم سنانے کے بعد سب کو نوٹس دیا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے غیرسرکاری تنظیم (این جی او) ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کے وکیل پرشانت بھوشن کی اس درخواست پر بھی غور کرنے سے انکار کر دیا کہ بڑی سیاسی جماعتوں نے عبوری احکامات کے تحت الیکشن کمیشن کو اپنے بیانات میں چندہ دینے والوں کے نام ظاہر نہیں کیے، حالانکہ کچھ چھوٹی پارٹیوں نے ایسا کیا تھا۔
مزید پڑھیں: بہار میں این ڈی اے کے درمیان ہوئی سیٹوں کی تقیسم، جانیں کس کو ملی کون سی سیٹ
تاہم، بنچ نے کہا کہ ’اگر ہم پچھلی تاریخ (2019میں عبوری حکم سے پہلے) پر واپس چلے جاتے ہیں تو یہ فیصلے پر نظرثانی کے مترادف ہوگا‘۔عدالت نے سینئر وکیل مکل روہتگی کے دلائل پر غور کرنے سے انکار کر دیا، جو فکی اور ایسوچیم جیسے صنعتی اداروں کی طرف سے پیش ہوئے۔مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے سیاسی پارٹیوں کی سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی اور سوشل میڈیا میں تفصیلات کو مسخ کرنے کا سلسلہ شروع کیا، جیسا کہ عدالت سے پہلے بھی لوگ مبینہ طور پر عدالت کو شرمندہ کرنے کیلئے میڈیا میں انٹرویو دینے لگے ہیں۔ تاہم بنچ نے کہا کہ ’ہم قانون کی حکمرانی کے تحت چلتے ہیں …… ہمارا مقصد صرف انکشافات کرنا تھا‘۔