محمد حنیف خان
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جنگ کو تین ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے،دنیا اب اس جنگ کی عادی ہوتی جارہی ہے، ہندوستانی اخبارات سے تو کوئی زیادہ امید نہیں، عربی اخبارات میں بھی اب اس جنگ اور اس کے نتائج سے متعلق خبریں کم ہوتی جا رہی ہیں،البتہ امریکہ اور برطانیہ کے اخبارات گاہے بگاہے تجزیاتی مضامین شائع کر رہے ہیں،ہاں اسرائیلی اخبارات پہلے دن سے اب تک جس راہ پر چلے تھے وہ مستقل چل رہے ہیں،ان میں شائع خبریں اور تجزیاتی مضامین یکطرفہ ہوتے ہیں، اس لیے وہ نہ تو لائق توجہ ہیں اور نہ ہی ان سے کچھ حقیقی حالات سے باخبر ہوا جاسکتا ہے،الجزیرہ تازہ خبریں بھی دے رہاہے اورسوشل میڈیا اب بھی حقائق کو سامنے لانے میں سب سے زیادہ اور نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ نیویارک ٹائمس نے ایلس روتھ چائلڈ(Alice Rothchild)کا ایک مضمون ’’For Gaza’s Pregnant Women and Newborns, the War Will Never Be Over‘‘ شائع کیا ہے۔یہ مضمون صرف غزہ کی حاملہ خواتین کے درد و کرب کو ہی نہیں بیان کرتا ہے بلکہ ان حالات میں پیدا ہونے والے بچوں کے مستقبل کی زندگی کی مشکلات اور ان کو پیش آنے والے خدشات کی بھی وضاحت کرتا ہے۔
جب جنگ کا آغاز ہوا تھا اور تباہی کی شروعات ہوئی تھی، اسی وقت ادارہ عالمی صحت نے انتباہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ اگر جنگ نہ روکی گئی تو حالات بدتر ہوسکتے ہیں۔ آبزرور نے غزہ کو جہنم سے تشبیہ دی تھی،مگر یہ متمدن دنیا بالکل خاموش رہی، عرب دنیا سے زیادہ احتجاج تو یوروپ، فرانس،جرمنی اور امریکہ میں ہوئے۔عملی اقدام کسی بھی ملک نے نہیں کیا۔ جنوبی افریقہ نے اسرائیل کو ضرور عالمی عدالت میں گھسیٹا مگر نتیجہ ’’ڈھاک کے تین پات‘‘کے سواکچھ نہیں نکلا۔جب افریقہ نے 84 صفحات پر مشتمل اپنی رٹ عالمی عدالت میں داخل کی تھی تو امریکی سیاسی تجزیہ نگارجان جے مارشیمر(John J. Mearsheimer)ایک مضمون Genocide in Gazaلکھا، جس میں انہوں نے لکھا تھا “The final analysis the power of international courts to Coerce Countries like Israel and the United States is extremely limited.” یعنی امریکہ اور اسرائیل جیسے ممالک پر اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے کی بین الاقوامی عدالتوں کی طاقت ہی نہیں ہے،محدود کے معنی اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتے ہیں؟
ایلس روتھ چائلڈ نے اپنے مضمون میں غزہ میں حاملہ خواتین کی دشواریوں اور پیدا ہونے والے بچوں سے متعلق چشم کشا حقائق پیش کیے ہیں،جس کے مطابق اس وقت غزہ میں 50ہزار حاملہ خواتین ہیں،جو سر پر سائبان کے لیے ترس رہی ہیں،ان کو مستقل گھر چھوڑنا پڑ رہا ہے،بعض خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے حالت حمل میں پانچ پانچ بار اپنی رہائش تبدیل کی ہے اور ایسے مکان میں رہی ہیں جس میں گیارہ کنبوں کے سو سے زائد افراد بیک وقت قیام کرتے ہیں،ان کو میڈیکل کیئر کی سہولت دستیاب ہی نہیں ہے کیونکہ اسرائیل نے اپنے حملوں میں سب کچھ تباہ کردیا ہے۔آنے والی امداداور دواؤں پر بھی پابندی لگا رکھی ہے اور جو دوائیں آ رہی ہیں وہ ناکافی ہیں کیونکہ اسرائیل کی بمباری میں زخمی ہونے والے افراد جن کو محافظ حیات دواؤں اور دیگر طبی امداد کی ضرورت ہوتی ہے، ان کی کثرت ہے۔غزہ میں یومیہ 180خواتین وضع حمل سے گزر رہی ہیں مگر طبی امداد سے محروم ہیں۔
مضمون نگار نے مابعد جنگ متعدد خدشات کا اظہار دنیا میں ہونے والی جنگوں کے تناظر میں کیا ہے کہ یہ بچے کس طرح کے حالات کا شکار ہوسکتے ہیں اورمستقبل میں کیسی دشواریاں ان کے سامنے ہوں گی۔ انہوں نے شام، افغانستان، صومالیہ اور کوسوو میں 1945سے 2017کے درمیان ہونے والی جنگوں اور ان کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان ملکوں میںہونے والی جنگوں سے پتہ چلتا ہے کہ اسقاط حمل،معذوری،مردہ پیدائش اور قبل از وقت پیدائش سے زچہ بچہ کی شرح اموات میں اضافہ دیکھا گیا ہے،اسی طرح جنگ کی زد میں آنے والے بچوں کی زندگی نہ صرف غربت کا شکار ہوجاتی ہے بلکہ تعلیمی اور معاشی انفرااسٹرکچر کی تباہی کی وجہ سے وہ تہی دست رہ جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ صحت کے ایمرجنسی ریلیف کوآرڈی نیٹر مارٹن گرفتھس(Martin Grifthis)کا کہنا ہے کہ بچوں کو اس المیے سے بچانے کا واحد راستہ جنگ کو روکنا اور صحت خدمات کی بحالی ہے۔مگر نقارخانے میں طوطی کی آواز کہاں سنی جاتی ہے۔امریکہ بزعم خود انسانی اقدار کا محافظ اور جمہوریت کا علمبردار ہے، اس کی سچائی پوری دنیا کے سامنے ہے۔سب جانتے ہیں کہ اگر امریکہ چاہے تو یہ جنگ رک سکتی ہے مگر اس کے اپنے مقاصد ہیں،اسی لیے امریکہ کے دانشور اور وہاں کا عمومی میڈیا بھی اپنی حکومت کے ساتھ ہے۔امریکہ سے تو خیر کوئی امید ہی نہیں وہ ممالک جو اسلامی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،انہوں نے بھی کسی بھی طرح کے عملی اقدام سے گریز ہی کیا ہے اور اب حالات اتنے بدل گئے ہیںکہ عالمی میڈیا میں اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کو پٹری پر لانے اور اسرائیل کو تسلیم کیے جانے سے متعلق بھی خبریں آنے لگی ہیں،جس سے عربوں کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
کسی بھی عرب ملک یا دانشور کاکوئی قابل ذکر بیان تک ایسا نہیں آیا ہے جس سے یہ اندازہ ہو کہ واقعی عرب دنیا فلسطینیوں کے دکھ درد کو اپنا دکھ درد سمجھتی ہے۔حالانکہ ’’المومن اخ المومن‘‘ کا درس اسی امت کو دیا گیا تھا۔ایلس نے فلسطینی خاتون ڈاکٹر خیری(حاملہ خاتون)کاواقعہ لکھنے کے بعد لکھا ہے کہ فلسطین کی 50ہزارخواتین اس جنگ کے خاتمے کی منتظر ہیںتاکہ وہ اپنے بچوں کو محفوظ طریقے سے جنم دے سکیں،اسی طرح وہ اس جنگ کے خاتمے کی منتظر ہیںجو وہاں پیدا ہونے والے بچوں کی پرورش اور ان کے مستقبل کو متاثر کررہی ہے۔
نکولس کرسٹوف (NIcholas Kristof)کا مضمون “The Things We Disagree on About Gaza”، نیویارک ٹائمس میں9جنوری کو شائع ہوا ہے۔ اس مضمون میں بہت سے سوالات کے جوابات دیے گئے ہیں،سب سے اہم جواب حماس کی جنگ شروع کرنے پر دیا گیا ہے۔یہودی ذہنیت کے حامل سیاست دانوں اور خاص طور پرعرب ممالک کے دانشوروں اور وہاں کے اخبارات کے مدیروں کے منھ پر یہ مضمون کسی طمانچہ سے کم نہیں ہے۔
غزہ میں جو حالات ہیں اور دنیا جس طرح اس سے چشم پوشی کر رہی ہے، وہ واقعی مادیت پرستی کی آخری حد ہے۔ جان جے مارشیمر نے اپنے مندرجہ بالا مضمون کے آخر میں امریکہ اور وہاں کے دانشوروں کے حوالے سے لکھا ہے: ’’ امریکہ لبرل اور جمہوری اقدار کا حامل ملک ہے،جو دانشور،اخبارات کے مدیر، پالیسی ساز اور اسکالروں سے بھرا پڑاہے،جو پوری دنیا میں انسانی حقوق کے تحفظ کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،لیکن وہ اسرائیل کی بربریت اور نسل کشی کے خلاف خاموش ہیں،امید ہے کہ وہ اپنی اس خاموشی کا جواز کسی وقت پیش کریں گے مگر تاریخ ان پر مہربان نہیں ہوگی۔‘‘ لیکن یہ باتیں صرف امریکہ کے لیے نہیں بلکہ ہر اس ملک کے دانشوروں کے لیے ہیں جواس بات کے مدعی ہوں کہ ہم دنیا میں بھلائی چاہتے ہیں اور ہندوستان بھی اس میں شامل ہے۔
[email protected]