سنجے رائے
پارلیمنٹ کا مانسون اجلاس11 اگست کو ختم ہو گیا۔ 20 جولائی سے شروع ہوئے اس اجلاس پر تقریباً پورے وقت حکمراں اتحاد اور اپوزیشن اتحاد کی سیاست حاوی رہی۔ اپوزیشن جماعتوں نے منی پور تشدد کا ایشو اٹھاکر کئی دنوں تک پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کی کارروائی میں خلل ڈالا۔ اپوزیشن پارٹیاں منی پور تشدد کے معاملے پر مسلسل وزیر اعظم نریندر مودی کے بیان کا مطالبہ کرتی رہیں۔آخرکار لوک سبھا اسپیکر نے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے کانگریس کے ممبر پارلیمنٹ گورو گوگوئی کے عدم اعتماد کی تحریک قبول کرکے آخری تین دن تک لوک سبھا میں بحث کروائی اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اجلاس کے آخری دن اپنا جواب دیا۔ اپوزیشن نے مودی کی تقریر کا بائیکاٹ کیا اور تحریک عدم اعتماد بغیر ووٹنگ کے ہی صوتی ووٹوں سے مسترد کر دی گئی۔
ملک کی پارلیمانی جمہوریت میں پہلے بھی کئی بار ایوان کے اندر اس طرح کا تعطل دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا۔ جب یو پی اے کی سرکار تھی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کی سربراہی والا اتحاد این ڈی اے اپوزیشن میں تھا تو اس وقت بھی کئی ایشوز پر پارلیمنٹ میں طویل تعطل دیکھنے کو ملا تھا۔ ایسے میں اب اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی اپوزیشن پر پارلیمنٹ نہیں چلنے دینے کا الزام لگانے کا کوئی اخلاقی حق نہیں رکھتی ہے۔ ملک کے جمہوری نظام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ حکومت میں کوئی بھی جماعت رہے، اس کی زبان نہیں بدلتی۔ حکمراں جماعت کے لیڈروں کی زبان اس وقت بالکل ویسی ہی ہے جو کانگریس کی سربراہی والی حکومت کی زبان تھی۔
بہرحال، ہم بات کررہے ہیں مانسون سیشن کی۔ منی پورتشدد پربحث کی مانگ پر اپوزیشن پارٹیوں کے ہنگامے کے باوجود دہلی سروسز بل، ڈیٹا پروٹیکشن بل اور کئی اہم بل اس اجلاس میں پاس ہوئے۔ مجموعی طور پر اس اجلاس میں پیش کیے گئے 25 بلوں میں سے 22 بل پاس کیے گئے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ان 22 بلوں میں سے 10 ایسے تھے جن پر ایک گھنٹے سے بھی کم وقت تک بحث ہوئی۔
پہلے کے اجلاسوں کے تقابل میں مانسون کا اجلاس کم نتیجہ خیز رہا۔ مانسون اجلاس میں پارلیمنٹ نے اپنے متعینہ وقت میں سے صرف 43 فیصد وقت میں کام کیا۔ اس سے کم کام صرف 2021 کے مانسون سیشن اور 2023 کے بجٹ سیشن میں ہوا تھا۔ اس سیشن میں راجیہ سبھا میں لوک سبھا کے تقابل میں قدرے زیادہ وقت کا استعمال ہوا۔ اس کے باوجود متعینہ وقت میں سے صرف 55 فیصد وقت میں کام ہوا۔ یہ بات دلچسپ ہے کہ متعینہ وقت سے آدھے سے بھی کم وقت تک کام کرنے کے باوجود حکومت لوک سبھا میں 22 بلوں کو پاس کرانے میں کامیاب رہی۔ لوک سبھا نے 2019 کے بعد سے صرف دو دیگر اجلاسوں میں زیادہ بل پاس کیے۔ 2019 کے بجٹ سیشن میں 35 بل پاس کیے گئے تھے جبکہ 2020 کے مانسون سیشن میں 25 بل پاس کیے گئے تھے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اجلاس کے دوران پاس کیے گئے بلوں پر ایوان میں بحث کی روایت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت اس سلسلے میں کوئی ٹھوس اقدام کرنے کی قوت ارادی بھی ظاہر نہیں کرتی ہے۔ یہ ہندوستان جیسی دنیا کی سب سے بڑی پارلیمانی جمہوریت کے لیے بہت سنگین بات ہے۔ بغیر بحث کے بل پاس کرنے کی روایت پہلے کی حکومتوں نے شروع کی تھی۔ منموہن سنگھ کے دوسرے دور حکومت میں ایک بار 14 منٹ کے اندر 7 بل پاس ہوئے تھے۔ یہ تمام بل لوک سبھا میں ہنگامے کے درمیان بغیر کسی بحث کے صوتی ووٹ سے پاس کیے گئے تھے۔ اسی روایت کو مودی حکومت بھی آگے بڑھا رہی ہے۔ ایسے میں یہ بات آسانی سے سمجھی جا سکتی ہے کہ یو پی اے حکومت کے وقت پارلیمانی روایات اور ضابطوں میں جو گراوٹ آ رہی تھی، وہ ابھی بھی دھڑلے سے جاری ہے۔ اس کی فکر حکمراں اتحاد اور اپوزیشن اتحاد دونوں ہی کو نہیں ہے۔
راجیہ سبھا نے اس بار 25 بل منظور کیے جو اس پارلیمنٹ کے پہلے اجلاس میں 29 بلوں کے پاس ہونے کے بعد ایوان بالا میں دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ ایوان بالا میں عام طور پر ایوان زیریں کی بہ نسبت کم بل پیش کیے جاتے ہیں۔ 2019 کے بجٹ اجلاس میں اب تک سب سے زیادہ سات بل پیش کیے گئے۔ حالانکہ لوک سبھا نے متنازع دہلی سروسز بل سمیت 22 بلوں کو پاس کر لیا لیکن اس نے قانون سازی پر بحث کرنے کے لیے اپنے 43 گھنٹوں کے کل کام کے اوقات میں سے صرف 14 گھنٹے صرف کیے۔ گورنمنٹ آف نیشنل کیپٹل ٹیریٹری آف دہلی (ترمیمی) بل، 2023 اور نیشنل ریسرچ فاؤنڈیشن بل، 2023 کو چھوڑ کر، باقی تمام بلوں کو ایک گھنٹے سے بھی کم بحث کے بعد منظور کر لیا گیا۔ اوسطاً ہر منظور شدہ بل پر صرف 40 منٹ تک بحث کی گئی۔ اسی طرح اشیا اور خدمات ٹیکس سے متعلق دو بل پیش کیے گئے اور صرف دو منٹ کی بحث کے بعد پاس ہو گئے۔ نیشنل نرسنگ اینڈ ڈینٹل کمیشن سے متعلق بل تین منٹ کی بحث کے بعد پاس کیے گئے۔ دہلی سروسز بل پر سب سے طویل بحث ہوئی۔ اس پر 4 گھنٹے 54 منٹ تک بحث ہوئی جو اس سیشن کے دوران ہوئی کل بحثوں کا ایک تہائی تھا۔n
مانسون اجلاس میں راجیہ سبھا میں بھی، جہاں حکومت کے پاس اکثریت کم ہے، بلوں پر لوک سبھا کے مقابلے دو گنا سے زیادہ وقت تک بحث ہوئی۔ اس حکومت کے دور میں یہ صرف تیسرا موقع ہے جب راجیہ سبھا میں لوک سبھا سے زیادہ طویل بحث ہوئی ہے۔ غور طلب ہے کہ دہلی سروسز بل پر ایوان بالا میں آٹھ گھنٹے سے زیادہ بحث ہوئی۔ ایوان بالا میں منظور 25 بلوں میں سے صرف 10 پر ایک گھنٹے سے بھی کم وقت تک بحث ہوئی۔
کانگریس کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر پی چدمبرم نے حال ہی میں ایک مضمون میں پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے یا پاس ہوئے تین بلوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح ان بلوں کے ذریعے ایسے قوانین بنائے جا رہے ہیں جو قانونی طور پر درست نہیں ہیں۔ مضمون میں چدمبرم نے لکھا ہے کہ جس طرح سے حکومت نے ان بلوں کو پاس کیا اس سے ملک کے وفاقی اور آئینی نظام کے لیے چیلنجز پیدا ہوئے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ چدمبرم جیسے قدآور لیڈر کو ایوان کے اندر اپنی بات رکھنی چاہیے لیکن وہ مضامین لکھ کر حکومت کی کوتاہیوں کو اجاگر کر رہے ہیں۔ کانگریس پارٹی کی قیادت چاہتی تو چدمبرم پارلیمنٹ میں بھی بول سکتے تھے لیکن پتہ نہیں، انہیں کیوں پردے کے پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔
اگر کانگریس کو ان بلوں کو بغیر بحث کے پاس ہونے سے خطرہ نظر آرہا ہے تو اسے یہ کیوں نہیں دکھ رہا ہے کہ اس کے اور اس کی اتحادی اپوزیشن جماعتوں کے ارکان کا بحث میں حصہ نہ لینا بھی اتنا ہی خطرناک ہے۔ اس محاذ پر کانگریس کی غیرفعالیت نے بھی پارلیمنٹ کے وقار کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ کانگریس نے کسی بھی قیمت پر حکومت کی مخالفت کرنے کو اپنا مستقل شعار بنا لیا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کے درمیان تعمیری مخالفت اب نظر آتی ہی نہیں ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت کے پاس جس طرح کی اکثریت ہے، اسے دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں بل کو روک نہیں سکتی ہیں لیکن اگر اپوزیشن جماعتیں بحث میں حصہ لیتیں تو بل کی خامیوں کو سامنے لاتیں۔ اپنی طرف سے ترمیم پیش کرتیں، بے شک وہ ترمیم قابل قبول نہیں ہوتی مگر بل کی خامیوں کا پتہ ملک کو چل جاتا۔ اس کے خطرات بتاتیں اور لوگوں کو آگاہ کرتیں لیکن جب پارلیمنٹ میں بل پاس ہو رہے تھے تو اپوزیشن پارلیمنٹ کے احاطے میں ہی نعرے لگا رہا تھا۔ بل کے پاس ہونے کے بعد اپوزیشن لیڈر آرٹیکل لکھ کر یا ٹوئٹ کر کے احتجاج کر رہے ہیں۔
جب اپوزیشن کمزور ہوتا ہے تو حکومت بے لگام ہو جاتی ہے۔ یہ طاقت کا فطری رجحان ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں حکومت، حکمراں جماعت اور اپوزیشن کی رضامندی سے چلتی ہے۔ مانسون اجلاس کے آخری تین دن تحریک عدم اعتماد پر جو بحث ہوئی، وہ اسی اتفاق کا نتیجہ تھی۔ دونوں طرف تعلیم یافتہ اور تجربہ کار لیڈروں کی بھرمار ہے۔ پارلیمنٹ میں ہنگامہ ہو یا بحث کے بغیر بل پاس کرانے کا بڑھتا رجحان، انہیں دیکھ کر عام آدمی کی سیاست سے نفرت بڑھ جاتی ہے۔ یہ جمہوریت کے لیے کوئی صحتمند علامت نہیں ہے۔ اس کا ازالہ سیاسی جماعتوں کے قائدین کو ہی کرنا ہو گا اور جلد کرنا ہو گا تاکہ جمہوریت سے لوگوں کی امیدیں بڑھیں۔n