یہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ کثیر جہت ہندوستان جنت نشان کو ایک ہندو ریاست بنانا ہی حکمراں بھارتیہ جنتاپارٹی اور اس کی سرپرست اعلیٰ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا اصل سیاسی ہدف ہے۔ گزشتہ 8-9برسوں کی مودی حکومت کا ہر قدم اسی ہدف کی تکمیل کی طرف جارہاہے۔اقلیتوں کے خلاف مسلسل نفرت انگیزی کی مہم ہو یا جمہوریت مخالف کارروائیاں، اظہار رائے اور مذہب کی آزادی پرحملے ہوں یا آئین کی تبدیلی کے مسلسل واقعات ہوں، ان سب کا مقصد صرف ایک ہے اور وہ ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانا ہے۔
اب خبر ہے کہ اگلے سال بسنت پنجمی کے دن سے ہندوستان کی نئی تاریخ بھی طلبا کو پڑھائی جائے گی۔ مرکزی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے اعلان کیا ہے کہ26جنوری 2023جو کہ حسن اتفاق سے بسنت پنجمی کا دن بھی ہے،سے ملک بھر کے طلبا کو ہندوستان کی ’صحیح اور درست ‘تاریخ پڑھائی جائے گی۔تاریخ کا یہ نصاب نئی قومی تعلیمی پالیسی کاحصہ ہے، جسے حکومت نے 2020میں منظور کیاتھا۔ وزیرتعلیم نے انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (آئی سی ایچ آر) اور آر ایس ایس سے وابستہ ’اکھل بھارتیہ اتیہاس سنکلن یوجنا ‘کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقدہ قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نیاتعلیمی نصاب انگریزی پر مبنی طریقہ تعلیم کے بجائے مادری زبان کو فروغ دے گا۔ تاریخ کی 75پرانی کتابوں کو آل انڈیا ہسٹری کمپلیشن اسکیم کے ذریعے نئی کمپوزیشن کے ساتھ دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔ اس کی اشاعت سے طلبا ہندوستان کی ’ صحیح اور درست تاریخ‘ سے واقف ہوسکیںگے۔ وزیرموصوف نے کہا کہ ہندوستان ’عالمی رہنما ‘ دنیا میں جمہوریت کا پیشوا ا ور 500کروڑ عالمی شہریوں کا مرکز بھی ہے۔ ہندوستان کی شاندارتاریخ اورتعلیم اس کا سب سے بڑا اثاثہ ہے ہمیں اس اثاثہ کی حفاظت کے ساتھ ساتھ دنیا کو اس سے متاثر بھی کرنا ہے۔ ہمیں 21ویں صدی میں ہندوستان کی قدیم ثقافت اور تہذیب کو ایک نیا عالمی تناظر دینا چاہیے۔
تاریخ کی ان کتابوں کا مواد کیا ہے، ان میں کن حقائق پر زور دیاگیا ہے،کسے چھپانے کی کوشش کی گئی ہے اور کن لغوو بے معی باتوں کو تاریخی بناکر پیش کیاگیا، اس کا پتہ تو کتابیں بازار میں آنے کے بعد ہی چلے گا لیکن تاریخ کے موجودہ نصاب پر جس انداز میں بی جے پی اوراس کی ہم نوا تنظیمیں لعنت ملامت کرتی رہی ہیں، اس سے یہ اندازہ ضرور لگایاجاسکتا ہے کہ طلبا کو بالکل ہی نئی تاریخ پڑھنے کو ملے گی۔ایک ایسی تاریخ جس میںصرف ایک مخصوص فرقہ کے سورمائوں کی بہادری کی داستانیں ہوں گی، بلبل پر بیٹھ کر دنیا جہاں کی سیرکرلیے جانے کا احوال ہوگا۔منطق اور دلیل کے بجائے عقیدت اور توہم پرستی سے بھری ہوئی ایک ایسی تاریخ ہوگی جسے تاریخ کے بجائے داستان کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔یہ بدگمانی نہیں بلکہ بی جے پی اور آرایس ایس کا یہ پرانادعویٰ ہے کہ تاریخ کی کتابیں بائیں بازو کے مورخین نے لکھی ہیں جنہوں نے ہندو بادشاہوں اور سلطنتوں کے تعاون کویکسر نظر انداز کیاہے۔ ہندو مذہب کے واقعات کو تاریخ میں کوئی جگہ نہیںدی ہے۔بی جے پی اور سنگھ کے رہنما تو جدید تاریخ پر بھی اکثر سوال اٹھاتے رہے ہیں،کبھی 1857 کے انقلاب تو کبھی بھگت سنگھ کی پھانسی کو موضوع بحث بناتے ہیں تو کبھی ساورکراور گرو گولوالکر کو تاریخ میں مقام نہ ملنے کاشکوہ کرتے ہیں۔وزیراعظم نریندر مودی اور وزیرداخلہ امت شاہ تک یہ کہتے آرہے ہیں کہ ہمارے طلبا جو تاریخ پڑھ رہے ہیں وہ نوآبادیاتی دور میں سازش کے تحت لکھی گئی ہے۔ ہندوستان کی تاریخ غلامی کی تاریخ نہیں ہے لیکن 1947سے ہمیں غلامی کی ہی تاریخ پڑھائی جارہی ہے۔وزیرداخلہ تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ہمیں مسخ شدہ تاریخ پڑھائی جاتی ہے، ہم اس مسخ تاریخ کو درست کریں گے۔ہمیں تاریخ کو دوبارہ لکھنے سے کون روک سکتا ہے۔ہم تاریخ کو دوبارہ لکھیں گے۔ایک بار اگر کافی کچھ لکھ دیاگیا تو لوگوں کے ذہن میں یہ خیال بھی باقی نہیں رہے گا کہ جھوٹے بیانیہ کو فروغ دیاجارہاہے۔اس طرح ہم آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرسکتے ہیں۔
اب وزیرتعلیم دھرمیندر پردھان نے نئی تاریخ لکھوالی ہے جو ظاہر ہے وہی ہوگی جس کے بارے میں بی جے پی، آر ایس ایس، مودی اور امت شاہ کہتے آرہے ہیں لیکن کیا 21ویں صدی کے اس جدید دور میںجہاں ہر قول و فعل کو منطق و سائنس کی کسوٹی پر پرکھاجارہاہے،دیو مالائی داستان کو دنیا قبول کرپائے گی؟ جیل کی کھڑکی سے اڑ کر بلبل کے پر پر بیٹھنا اور پورے ملک کی سیر کرکے راتوں رات واپس جیل میں آجانے کی داستان کو اگر تاریخ بناکر پیش کیاگیا تو عالمی رہنمائی اور پیشوائی کا تاج تو دور کی بات ہے ہندوستان کی عالمی رسوائی کا سامان ضرور ہوسکتا ہے۔
[email protected]