کامیاب ہو گئی ’اتل‘کی جدوجہد

0

ہمارے بچے اور نوجوان اس ملک کا مستقبل ہیں۔ وہ مضبوط ہوں گے تو یہ ملک مضبوط ہوگا،وہ خوش حال ہوں گے تو یہ ملک خوش حال ہوگا، اس لیے باصلاحیت نوجوانوں کو حالات کے سہارے چھوڑا نہیں جانا چاہیے مگر کئی بار خبریں سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیںکہ آخر غریب والدین کے باصلاحیت بچے کیسے آگے بڑھیں گے؟ 18 سالہ اتل کمار کی خبر بھی ایسی ہی تھی۔ ہندی میں ’اَتُل‘ کا مطلب ’بے مثال‘ہوتا ہے۔ باصلاحیت اتل کمار بھی بے مثال ہیں۔ جے ای ای ٹسٹ میں کامیابی حاصل کی، آئی آئی ٹی دھنباد میں الیکٹرانکس انجینئرنگ میں داخلہ لینا چاہا، فیس کی رقم ادا کرنے کے لیے ان کے پاس پیسے نہیں تھے۔ وہ مظفرنگر ضلع کے دیہاڑی مزدور کے بیٹے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، والد 450 روپے دیہاڑی کماتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کے لیے فیس کے لیے 17,500 روپے کا انتظام کرنا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ اتل کمار اور ان کے اہل خانہ نے اپنی دانست میں پوری کوشش کی کہ فیس کی رقم متعینہ وقت پر ادا کر دی جائے، رقم جمع نہ ہوسکی۔ فیس کی رقم ادا کرنے کے لیے گاؤں والوں نے مدد کی لیکن 24 جون کو فیس جمع کرنے کے متعینہ وقت تک رقم جمع نہیں ہو سکی۔ اتل کمار کو آئی آئی ٹی دھنباد میں داخلہ نہیں مل سکا۔ یہ صرف ان کے لیے، ان کے اہل خانہ اور گاؤں کے ان لوگوں کے لیے ہی مایوسی کی بات نہیں تھی جو چاہتے تھے کہ ان کا داخلہ ہو، وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں بلکہ ان کے حالات جیسے حالات میں زندگی کاٹنے اور کچھ بننے کی چاہت میں دل و جان سے دن رات پڑھنے والے طلبا کے لیے بھی مایوسی کی بات تھی مگر سچ یہ بھی ہے کہ جو جدوجہد کرتا ہے، اسے لوگوں کا ساتھ بھی ملتا ہے،مدد بھی ملتی ہے اور دیربدیر کامیابی بھی ضرور ملتی ہے۔ اتل نے ہمت نہیں ہاری۔ پہلے جھارکھنڈہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دی۔ پھر مدراس ہائی کورٹ کے دروازے پر دستک دی۔ وہ قانونی عمل سے مایوس نہیں ہوئے۔آخر میں سپریم کورٹ پہنچے۔ ہندوستان کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی بنچ نے فیصلہ اتل کمارکے حق میں سنایا۔ بنچ نے کہا، ’ہم ایک ایسی نوجوان صلاحیت کو گنوا نہیں سکتے۔‘چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا، ’وہ ایک بہترین طالب علم ہے۔ صرف 17,000 روپے کی کمی کی وجہ سے اسے روکا گیا۔‘ رپورٹ کے مطابق، سپریم کورٹ نے یہ بات نظرانداز نہیں کی کہ 24 جون کو شام کے 5 بجے تک تل کمار کو فیس کی رقم جمع کرنی تھی اور ان کے والد نے 4 بج کر 45 منٹ تک فیس کی رقم یکجا کر لی تھی،البتہ جب آن لائن فیس کی ادائیگی کا عمل شروع ہوا تو پورٹل میں کچھ مسئلہ پیدا ہونے لگا، اسے 5 بجے تک بند کرنا پڑا۔ یہ وہ وقت تھا جب آئی آئی ٹی دھنباد میں داخلے کے لیے اتل کی امید کا دروازہ ایک طرح سے بند ہوگیا تھامگر اس نے یہ سمجھا کہ امید کا دروازہ پوری طرح کبھی بند نہیں ہوتا، بدلتے حالات میں مقاصد کے حصول کے لیے متبادل پر غور کرنا پڑتا ہے، ملک اور سماج کے اچھے لوگوں سے مدد لینی پڑتی ہے، اسی لیے اتل نے داخلے کے لیے عدالتوں کے دروازوں پر دستک دی۔
اتل کمار کے معاملے میں سپریم کورٹ نے آرٹیکل 142 کے تحت فیصلہ سنایا ہے۔ دراصل یہ آرٹیکل سپریم کورٹ کو ملک کے کسی بھی حصے کے معاملے میں مکمل انصاف کے لیے احکامات جاری کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ اتل کمار کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں اگر اس طرح کے معاملے آتے ہیں تو اتل کمار کا معاملہ اس کے قانونی عمل میں ایک نظیر ہوگا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اتل کمار جیسے باصلاحیت نوجوان کو فیس کی رقم یکجا کرنے میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایسا نہیں ہے کہ سماج میں مدد کرنے والوں کی کمی ہے۔ اتل کے گاؤں والوں نے اس کی مدد کی اور ان کی سپریم کورٹ تک کی جدوجہد میں دیگر لوگوں نے ان کا ساتھ دیا اور یہ بات ہندوستان کے لوگ جان سکے کہ باصلاحیت ہونا ہی کافی نہیں ہے، کئی طلبا کے لیے فیس کی رقم یکجا کرنا بھی کم مشکل نہیں ہوتا۔ سوال یہ ہے کہ وہ تنظیمیں جو سماجی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنے کا دعویٰ کرتی ہیں، ان کے سربراہان خبروں میں رہنا چاہتے ہیں، وہ اتل کمار جیسے نوجوانوں سے بے خبر کیسے رہ جاتی ہیں؟ کیا یہ ان کی بھی ذمہ داری نہیں تھی کہ وہ سماج میں اتل کمار جیسے باصلاحیت طلبا کی تلاش کرتیں، ان کی مدد کرتیں؟ اتل کمار کے معاملے نے یہ ثابت کیا ہے کہ اپنے لیے خود جدوجہد کرنی پڑتی ہے تبھی دوسروں کا بھی ساتھ ملتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS