محمد حنیف خان
آزادی کا خواہاں وہی ہوتا ہے جس کی آزادی سلب کرلی گئی ہو، جس کی زندگی کو آزادی کی شبیہ میں زنداں کی نذر کر دیا گیا ہو جبکہ نوبادآکاری کا تصور اس میں ہوتا ہے جس میں اپنی عظمت و سطوت کو وسعت دینے کا جذبہ ہوتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب اس کے زیر نگیں اور ماتحت جغرافیائی علاقہ ہو جس میں وہ اپنے اعتبار سے کچھ بھی کرنے کی طاقت و صلاحیت کا خواہاں ہو۔ دونوں طرف سے جب عمل ہوتا ہے تو ایک کشمکش کی صورت پیدا ہوتی ہے جسے انسانی زندگی کا المیہ قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ اس المیہ میں زندگیاں تہہ و بالا ہوجاتی ہیں، تاریخ بدل جاتی ہے، مستقبل کا منظرنامہ ایک نئی شکل اختیار کر لیتا ہے، انسان کی زندگی یادو ں میں سمٹ کر رہ جاتی ہے اور پھر یہاں سے شروع ہوتی ہے وہ جد وجہد جو نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے مابین کشمکش کی یہی صورتحال ہے۔ ایک طرف نو آباد کار ہیں اور دوسری جانب آزادی کے خواہاں۔ نوآبادکاروں کی خواہش ہے کہ وہ ایک وسیع و عریض خطۂ ارض پر قبضہ کرکے اس پر اپنی بستیاں آباد کریں اور اس خطے کے اصل مالکان کو بے دخل کر کے تاریخ کو نیا رخ دیں جس میں ان کی شجاعت اور دلیری، ان کی طاقت وسطوت کو زریں حروف سے لکھا جائے جبکہ دوسری جانب وہ فلسطینی ہیں جو اپنی زندگی کو بچانے کے لیے گولہ و بارود کے سامنے سینہ سپر نظر آتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے بچے اپنے بچپن سے دور ہوچکے ہیں، جن کے ہاتھوں میں تتلیوں کو اپنا رنگ چھوڑنا چاہیے تھا ، جن کی خواہش میں ان تتلیوں کے پیچھے انہیں دوڑنا چاہیے تھا، آج ان کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ہیں، ان کے ہاتھ تتلیوں کے بجائے ان کے اپنے ہی خون سے رنگ دیے گئے ہیں۔ یہ ظلم و جبر کوئی ڈھکا چھپا نہیں ہے بلکہ دنیا کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے مگر سب خاموش ہیں۔ کسی بھی طرح کی جذباتی باتوں سے احتراز کرتے ہوئے فلسطین اور اسرائیل کے قانونی اور عملی پہلوؤں پر اگر غور کیا جائے تو انسانی عدم مساوات کا ایک لامتناہی سلسلہ نظر آئے گا، جس سے ایک انسانی کمیونٹی کے تفوق اور دوسرے کے تنزل کو نہ صرف محسوس کیا جا سکتا ہے بلکہ اس نابرابری کو اس طور دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح طاقت اور اجتماعیت نے انسان کو قعر مذلت میں پہنچا دیا ہے۔
29 نومبر 1947 کو اقوام متحدہ نے قرارداد 181 پاس کر کے دو ریاست کے تصور کو عملی جامہ پہنایا۔ ایک یہودی ریاست اور دوسری فلسطینی ریاست۔ اس کا مقصد مزعومہ ہولوکاسٹ کا شکار یہودیوں کی تالیف قلب تھی۔ اہم بات یہ ہے کہ اس تالیف قلب کا فائدہ انہوں نے اٹھایا جو اس کے شکار بھی نہیں ہوئے تھے ۔ اسی لیے دنیا کے ہر کونے سے یہودیوں کو لا لاکر ارض فلسطین میں بسا یا گیا۔جس دن سے یہودی ریاست وجود میں آئی اسی دن سے ایک نہ ختم ہونے والی کشمکش کے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ یہودی ریاست کے وجود میں آنے سے قبل تین لاکھ فلسطینیوں کو غیر قانونی طور پر بے گھر کیا جا چکا تھا اور اس قرار داد نے اسے قانونی حیثیت دے دی۔ اقوام متحدہ کا دو ریاستی حل 75 برس گزر جانے کے باوجود کیا عملی صورت اختیار کر سکا ہے ؟ اس کا سیدھا سا جواب نفی میں ہے۔ اس نفی کے جواب کے بھی متعدداسباب ہیں ۔ اگر یہودیوں سے اس کے اسباب معلوم کیے جائیں تو وہ کچھ اور بتائیں گے اور فلسطینیوں سے معلوم کیا جائے تو جواب الگ ہوگا لیکن حقیقت کیا ہے، وہ سب کے سامنے ہے، حقیقت کے علم کے لیے کسی بھی سوال کی ضرورت نہیںہے۔
1948 میں عرب-اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے مغربی ممالک کی پشت پناہی اور مدد سے عرب ممالک کو شکست سے دوچار کردیا تھا۔ اس وقت وہ غزہ اور مغربی کنارے پر قبضہ نہیں کر سکا تھا، جہاں آج فلسطینی اتھارٹی کی حکومت ہے لیکن تب سے لے کر آج تک اسرائیل مسلسل آگے بڑھ رہا ہے اور وہ جغرافیائی اعتبار سے اسرائیل کو وسعت دے رہا ہے۔ اس کی توسیعی کارروائیاں کبھی رکتی نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دو ریاستی حل کا منصوبہ عملی جامہ تک نہیں پہنچ پا رہا ہے، کیونکہ جب ایک آگے بڑھتا رہے گا اور دوسرے کو پیچھے دھکیلتا رہے گا تو ایسی صورت میں یہ کہاں ممکن ہے کہ دو ریاستیں قائم ہو جائیں۔ اس کشمکش میں ہمیشہ فلسطینیوں کا جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور مسلسل ہوتا چلا آ رہا ہے۔ اسرائیل انسانی تاریخ کو مسلسل المیے سے دوچار کر رہا ہے، کیونکہ اس کے نزدیک انسانی اقدار کا کوئی مطلب نہیں ہے، جمہوریت کے کوئی معنی نہیں ہیں، وہ صرف ایک ریاست کے منصوبے پر عمل پیرا ہے جسے گریٹر اسرائیل کہا جاتا ہے اور یہی اس کا خواب ہے۔
انسانی تاریخ کے اس المیے کو ختم کرنے کے لیے متعدد بار کوششیں ہوئی ہیں، معاہدے ہوئے ہیں، دنیا کے سیاست دانوں نے سر جوڑ کر اس کو حل کرنا چاہا ہے لیکن اس طرح کی نشستیں اور معاہدے کاغذ کے پلندے سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکے ہیں، جس کے دو بڑے اسباب ہیں- اول یہ کوششیں صرف دکھاوے کے لیے کی گئیں تاکہ دنیا کی آنکھ میں دھول جھونکا جا سکے، کبھی کسی بھی عالمی سیاستداں نے سنجیدگی سے اس کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ امریکی صدور اور برطانوی وزرائے اعظم کا اس میں کلیدی کر دار رہا ہے۔ یہ اسٹیج پر انسانی اقدار کی باتیں کرتے ہیں اور دستاویزی سطح پر اس کی حرمت کے پاس و لحاظ کا ڈھونگ رچتے ہیں مگر عملی سطح پر کچھ نہیں ہوتا۔ ہاں! بس فرق اتنا آتا ہے کہ کسی کے دور میں اسرائیل کی کارروائیوں میں کمی آجاتی ہے یا پھر ڈھکے چھپے انداز میں کام ہوتا ہے اور کسی کے دور میں بالکل کھل کر اسرائیل اپنے کاز کی بات صرف زبانی سطح پر نہیں بلکہ عملی سطح پر کرتا ہے۔ مثلاً: ٹرمپ کے دور میں اسرائیل نے خود کو بہت پھیلایا لیکن اوباما کے دور میں یہی کارروائیاں در پردہ رہیں۔ یہ جواب طلب سوال ہے کہ کیا اسی لیے انہیں نوبل پرائز سے نوازا گیا؟
راجرس منصوبہ 1969سے لے کر اوسلو معاہدہ اور جان کیری کے امن منصوبے کے باوجود اسرائیل ان خطوط پر چل رہا ہے جن میں انسان دوستی کے بجائے مذہبی تشدد و تفوق ہے، جس نے انسانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے، اس کے ذہن میں سوائے گریٹر اسرائیل کے کچھ نہیں ہے۔ اسی لیے وہ مسلسل نوآبادیاتی منصوبے پر عمل پیرا ہے۔ وہ مقبوضہ فلسطین میں یہ کارروائیاں تو کر ہی رہا ہے، اس کے ساتھ ہی وہ غیر مقبوضہ فلسطین پر بھی شب خون جاری رکھتا ہے۔ اسرائیل کا جیونیشن اسٹیٹ لا 2018 ان کارروائیوں کو یقینی بناتا ہے جو پہلے درپردہ کی جاتی تھیں مگر اب ان ہی کو وہ کھلے عام دنیا کی آنکھوں کے سامنے کر رہا ہے۔ اسی قانون کے تحت یہودی آبادکاری کو اسرائیل یقینی بناتا ہے، جس کے اصل معنی فلسطینیوں کی زمین پر اسرائیل کا نو آبادیاتی کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ یہ قانون نہ صرف اس غیر قانونی عمل کو قومی اہمیت کا عمل قرار دیتا ہے بلکہ اس سے عدالتی نظام کی پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔ اسرائیل اپنے نو آبادکاری عمل کو مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس نے فلسطینی گاؤںام الحیران کو 2018 میں مسمار کر کے یہودی بستی ’حیران ‘ کے لیے راستہ بنایا تھا۔ یہاں کے عرب بدوؤں کو زبردستی نکال دیا گیا اور ان کے گھر مسمار کر دیے گئے۔ اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس کے شمال میں واقع قلندیہ پناہ گزیں کیمپ کے قریب واقع متروک املاک کی اراضی پر بیت المقدس بین الاقوامی ہوائی اڈے کی زمینوں پر یہودی آباد کاری کے محلے کے قیام کے منصوبے پر زور دیا ہے۔ اس منصوبے میں 9,000 سیٹلمنٹ ہاؤسنگ یونٹس شامل ہوں گے، جن میں سے زیادہ ترحریدی کے آباد کاروں کے لیے مختص کیے جائیں گے۔ نئی یہودی کالونی ’ 1,243 دونم ‘پرقائم ہوگی جو فلسطینی اراضی پر قابض حکام کے زیر کنٹرول ہے اور نام نہاد ’اسرائیل لینڈ فنڈ‘ کے زیراہتمام ہے۔ اس میں سیاحتی اور کمرشیل اپارٹسمنٹس بھی شامل ہیں۔ قابض ریاست کا یہ منصوبہ تقریباً تین دہائیوں کے بعد سامنے آیا ہے جس کے دوران اسرائیلی حکومتوں نے 1967 کی سرحدوں کے اندر بستیوں کی منصوبہ بندی اور ترقی سے گریز کیا تھا۔ موجودہ اسرائیلی حکومت یہودی آباد کاری کے منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ اس آباد کاری کے منصوبے کا مقصد یروشلم میں فلسطینی آبادی کو اقلیت میں تبدیل کرنا اور یہودی آباد کاری کو توسیع دینا ہے۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ رام اللہ سے بیت المقدس تک فلسطینیوں کے زمینی رابطے متاثرہوں گے۔ آباد کاری کا یہ منصوبہ یروشلم میں فلسطینی تنصیبات کی مسماری میں اضافے کے ساتھ سامنے آیا ہے، جہاں گزشتہ سال قابض افواج نے مقبوضہ شہر میں (306) مسماری اور بلڈوزنگ آپریشن کیے اور مسماری کے 220 سے زائد فیصلے اور نوٹس بھیجے۔ گزشتہ برسوں کے دوران قابض میونسپلٹی کے عملے نے آباد کاروں کے فائدے کے لیے بتن الھوا محلے میں 53 رہائشی عمارتوں اور دیگر محلوں میں 6,817 مکانات کی عدالت سے مسماری کے احکامات جاری کیے۔ سلوان قصبہ مسجد اقصیٰ اور اس کے محراب کا جنوبی علاقہ ہے، جہاں قابض فوج لوٹ مار یا گھروں کو مسمار کرکے زمینوں پر قبضے اور اس کے قبرستانوں کو نشانہ بنا کر آبادی کو اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ 7 فروری کو اسرائیلی سپریم کورٹ نے مقبوضہ بیت المقدس کے مشرق میں واقع خان الاحمر گاؤں سے بے دخلی اور فلسطینی آبادی کو بے گھرکیے جانے پر برہمی کا اظہار کیا۔ اس نے 5 ستمبر 2018 کے حکم کو نافذ کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔ جسٹس سولبرگ کے فیصلے کے مطابق التوا کی درخواستوں میں ’ریاست کا طریقہ کار‘ناقابل قبول ہے۔
غرب اردن کے جنوبی شہر بیت لحم میں اسرائیلی فوج کی طرف سے نوٹس جاری کیے گئے ہیں جن میں کہاگیا کہ ان کی سیکڑوں ایکڑ زرعی اراضی پر قبضے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ انہیں مذکورہ اراضی خالی کرنا ہوگا۔ بیت لحم میں اسرائیلی حکام نے نعلین قصبے اور الجبہ گاؤں سے 490 دونم اراضی ضبط کرنے کے نوٹس جاری کیے ہیں، کیونکہ فلسطینیوں کی زمینوں پر تعمیر کردہ ’گوش عتزیون‘ سیٹلمنٹ کمپلیکس کے اندر ’ایلون شوٹ‘ اور ’گیواوٹ‘کی بستیوں کی توسیع کے لیے مزید اراضی پرقبضے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اسرائیل کے عمل اور اس کے منصوبوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قرار داد 181اقوام متحدہ کی سب سے بڑی غلطی تھی جسے اقوام متحدہ کو اب تسلیم کرکے اسے رد کر دینا چاہیے، کیونکہ یہودی ریاست اور صہیونی ریاست دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ آج یہودی ریاست کے بجائے اسرائیل صہیونی ریاست کی شکل اختیار کر چکا ہے جس کا خواب گریٹر اسرائیل ہے۔ کیا مغربی سیاستداں اور اقوام متحدہ یہ بتا سکتے ہیں کہ وہ وقت کب آئے گا جب اسرائیل فلسطینیوں کے ساتھ مساوات کا برتاؤ کرے گا؟ اس کا جواب نہ انہوں نے کبھی دیا اور نہ ہی دے سکیں گے، کیونکہ خود ان کو بھی اس کی نفسیات اور اصلیت معلوم ہے۔ اس مسئلے کا حل یقینا اب صرف دو ریاستی حل ہے لیکن اس کو زمین پراتارنے کے لیے عربوں سے کہیں زیادہ مغربی سیاستدانوں کو سنجیدگی سے غورکرنا ہوگا۔n
(مضمون نگار ویمنس کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں
اسسٹنٹ پروفیسر ہیں)
[email protected]