عبیداللّٰہ ناصر
اترپردیش کے مظفرنگر ضلع کے ایک قصبہ کے ایک پرائیویٹ اسکول کی مالکن پرنسپل اور ٹیچر ترپتی تیاگی نے ایک مسلم بچے کے ساتھ جو کیا، اس کو لے کر پورے ملک میں اُبال ہے لیکن اگر گزشتہ ایک دو ہفتوں میں ہی رونما ہونے والے واقعات کو یاد کریں تو یہ کوئی نئی بات نہیں لگتی، اس ملک خاص کر ہندی بیلٹ کے حالات ہی ایسے بنا دیے گئے ہیں جن کو بہت ہی مختصر مگر جامع الفاظ میں راہل گاندھی نے بتا دیا ہے کہ بی جے پی نے پورے ملک میں مٹی کا تیل چھڑک دیا ہے اور ایک چنگاری بھی اس بیلٹ کو خاکستر کر سکتی ہے۔ یاد کیجیے 15؍اگست یوم آزادی جب پورا ملک خوشیوں میں ڈوبا ہوا تھا، لوگ اپنے مسائل، اپنی تکلیفیں، خود پر ہو رہے تمام مظالم کو بھول کر وطن عزیز کی آزادی کی خوشیاں منا رہے تھے، تب گجرات کے مہسانہ ضلع کے ایک سرکاری اسکول میں ٹاپ کرنے والے طلبا کو انعامات سے نوازا جا رہا تھا لیکن اس جشن میں بھی شیطانیت، نفرت، فرقہ پرستی حاوی تھی، ٹاپ کرنے والی مسلم بچی ارزینہ کے بجائے دوسرے نمبر پر آنے والے ہندو بچے کو بلا کر انعام دے دیا گیا اور ارزینہ بیچاری سبک کے رہ گئی، اس کے والدین نے جب اسکول کے پرنسپل سے اس کی شکایت کی تو انہوں نے کہا کہ ہم اس بچی کواپنے دفتر میں بلا کر انعام دیں گے جو ان لوگوں نے لینے سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کی ان کی بیٹی ٹاپر تھی، جلسہ عام میں اسے انعام دیا جاتا تو اس کی حوصلہ افزائی ہوتی لیکن اس کے ساتھ یہ تفرقہ برت کر اس کے معصوم دل کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ اسی سلسلہ میں ایک واقعہ بہار میں پیش آیا، وہاں کے ایک ضلع میں آٹھ دس سال کے ایک مسلم لڑکے کو بجرنگ دل کے کچھ غنڈوں نے گھیر لیا اور اسے پیٹ پیٹ کر ’جے شری رام‘ بلوایا۔ یہ محض گزشتہ کچھ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات ہیں، ورنہ ٹرین میں تین مسلم مسافروں کا قتل بھی شاید اسی مہینہ ہوا ہے اور روز ہی ہندی پٹی خاص کر بی جے پی کی حکمرانی والی ریاستوں میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں، پولیس اور انتظامیہ نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں بلکہ ظالم کے ساتھ ہی کھڑی دکھائی دیتی ہیں۔ اسی اترپردیش کے ایک ضلع میں ایک اسکول کے ماسٹر، ہیڈ ماسٹر اور ایجوکیشن افسر کو نہ صرف معطل کیا گیا تھا بلکہ انہیں گرفتار بھی کر لیا گیا تھا کیونکہ انہوں اپنے اسکول میں علامہ اقبال کی دعا ’’لب پہ آتی ہے۔۔۔‘‘ پڑھوائی تھی۔ مسلمانوں کو لے کر کھلے عام آئین، قانون اور انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں اور ووٹوں کی فصل کاٹی جاتی ہے۔ حالانکہ مظفر نگر پولیس نے عوامی دباؤ کے آگے مجبور ہو کر مذکورہ ٹیچر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے لیکن معمولی قابل ضمانت دفعات لگائیں جبکہ اس کا جرم بہت سنگین ہے اور اس پر سخت دفعات خاص کر فرقہ وارانہ تفریق اور بچوں پر مظالم سے متعلق دفعات لگنی چاہیے تھیں۔ حسب دستور بی جے پی کے لیڈران ٹیچر کی حمایت میں اتر آئے ہیں، مرکزی وزیر سنجیو بالیان نے ٹیچر سے ملاقات کرکے حمایت اور انصاف کا یقین دلایا ہے۔ ماب لنچنگ کرنے والوں، ریپ اور قتل کے مجرموں کی حمایت کرنے والوں سے اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے ؟
مظفر نگر کا فساد ابھی لوگوں کو بھولا نہیں ہے، بی جے پی کو اس فساد کا زبردست سیا سی فائدہ ملا تھا۔ جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان صدیوں سے چلے آ رہے برادرانہ تعلقات دشمنی میں بدل گئے تھے۔ اب یہ زخم مندمل ہونے لگے تھے، شاید اس ٹیچر نے ان ہی زخموں کو پھر سے ہرا کرنے کی کوشش کی تھی، اس کی یہ حرکت کسی بڑی سازش کا حصہ بھی ہو سکتی ہے۔ سوچئے اگر پٹنے والے مسلم بچے کے والدین، رشتہ دار اور پڑوسی اس پیٹنے والے ہندو بچے کے والدین یا اس ٹیچر سے ہی لڑنے پہنچ جاتے توکیا ہوتا، ان کی حمایت میں بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، پورا سنگھ پریوار ہی نہیں پولیس اور انتظامیہ بھی مسلمانوں پر ٹوٹ پڑتے، فساد ہوتا، مسلمان مارے بھی جاتے، مقدموں میں بھی پھنستے، گھروں پر بلڈوزر بھی چلتا اور اس کے بعد بی جے پی ووٹوں کی لہلہاتی ہوئی فصل کاٹتی۔ مبینہ طور سے آر ایس ایس سے وابستہ ترپتی تیاگی نے خطرناک کھیل کھیلا تھا جسے اس مسلم بچے کے والدین اور علاقہ کے مسلمانوں نے صبر و تحمل نیز دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوے ناکام کر دیا۔
حالات کو سنبھالنے میں کسان لیڈر اور جاٹوں کی سب سے بڑی کھاپ کے چودھری نریش ٹکیت اور دوسرے جاٹ بزرگوں نے اہم کردار ادا کیا، وہ لوگ وہاں پہنچے، دونوں بچوں کو گلے ملوایا، گلے شکوے دور کرائے، اس ٹیچر نے بھی اپنی غلطی کا احساس کیا حالانکہ انصاف کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس ٹیچر کو سخت سزا ملے، لیکن حالات کا تقاضہ ہے کہ افہام و تفہیم سے ہی معا ملات حل کر لیے جائیں، آخر دونوں کو اسی گاؤں میں رہنا ہے، مل جل کر ہی رہنا ہوگا، تلخیوں کو بھول کر ہی زندگی گزاری جا سکتی ہے، تلخیوں کو یاد رکھنا اور انہیں کریدتے رہنا ویسی ہی احمقانہ اور شر انگیز حرکت ہے، جیسے آر ایس ایس کرتی رہتی ہے، کوئی بھی ہوشمند، ذی فہم شخص ان احمقانہ حرکتوں اور شر انگیز سوچ سے گریز کرے گا ۔
یہ ایک خوش آئند بات ہے کہ اب ہندو سماج میں ہی آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کی زہریلی مہم کے خلاف آوازیں اٹھنے لگی ہیں، ہریانہ میں جس طرح جاٹ، گوجر اور دیگر طبقوں کے لوگوں نے یہاں تک کہ نائب وزیراعلیٰ دشینت چوٹالہ، مرکزی وزیر راؤ امریندر سنگھ سمیت متعدد اہم لیڈروں نے بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کی شر انگیزی کے خلاف کھل کر مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھائی، کسان لیڈر راکیش ٹکیت نے ان کی ریلی کے جواب میں ٹریکٹر ریلی نکالنے کا اعلان کر کے حکومت ہریانہ کو ان کی یاترا کو اجازت نہ دینے پر مجبور کر دیا، یہ مسلمانوں کے صبر و تحمل کا خدائی انصاف ہے۔ ویسے بھی سماج کا ایک بہت بڑا طبقہ حق پرستی اور حق گوئی میں پیچھے نہیں ہے۔ مسلمانوں کی فہم و فراست کا تقاضہ ہے کہ اسی صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان عناصر کے ہاتھ مضبوط کریں جو آج ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ دھیان رکھیے ’رات چاہے جتنی گہری ا ور اندھیری ہو، صبح ضرور ہوتی ہے۔‘
ملک اس وقت ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہے، ایک راستہ تباہی، بربادی وخانہ جنگی کی طرف جارہاہے، وہ سب کچھ داؤں پر لگا ہے جس کے لیے ہمارے بزرگوں نے قربانیاں دی تھیں اور ایک خوبصورت ہمہ رنگ گلدستے جیسے ہندوستان کا خواب دیکھا تھا۔ زمانے کے سرد و گرم جھیلتے ہوئے ہم اس خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کی جانب رواں دواں تھے، دنیا ہم کو مشعل راہ کے طور پر دیکھ رہی تھی، وہ حیرت زدہ تھی کہ کس طرح اتنا متنوع ملک کثرت میں وحدت کو برقرار رکھے ہوئے ہے اور جمہوریت کی راہوں پر چلتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے اور عالمی امور میں قائدانہ کردار بھی ادا کر رہا ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے صداقت، عدم تشدد، رواداری اور محبت کا جو لافانی درس دیا تھا، وہ صرف ہندوستان کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری عالم انسانیت کے لیے ہے اور یہی انسانیت کی فلاح اور سر بلندی کا راستہ ہے مگر گزشتہ کچھ برسوں سے اس ملک میں سب کچھ الٹا ہو رہا ہے۔ دس برسوں میں ملک کی شکل ہی بدل گئی ہے، بھائی بھائی کا، پڑوسی پڑوسی کا دشمن ہو رہاہے۔ ’مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا۔۔۔‘ بے معنی سا شعر ہوگیا اور لگتا ہے جیسے مذہب صرف نفرت، قتل و غارت گری کا ہی درس دے رہا ہے، اس ماحول کو بدلنے کے لیے ایک جوان نکل پڑا ہے جو نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے کی بات کرتا ہے، اس کے خلاف حکومت کی پوری طاقت، پورا سسٹم لگا ہوا ہے لیکن وہ مخلص ہے، بے لوث ہے، اس لیے کامیابیاں اس کا قدم چوم رہی ہیں، وہ ہندوستان کو اس کے اصل مزاج یعنی ہندوستانیت پر واپس لارہا ہے، اس کے ہاتھوں کو مضبوط کرنا، اس کے پیروں کی طاقت بننا ہمارا قومی، انسانی اور ملی فریضہ ہے۔غالبؔ نے جس آبلہ پا کی دعا کی تھی وہ ہندوستان کو مل گیا ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]