ایم اے کنول جعفری
راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سرکاریہ واہ دتاتریہ ہوس بلے کے تازہ بیان سے یہ بات آئینے کی طرح صاف ہو گئی کہ ایودھیا میں بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے بعد اَب آر ایس ایس کی نگاہیں کاشی کی گیان واپی مسجد اور متھرا کی شاہی عیدگاہ پر مرکوز ہو گئی ہیں۔کاشی و متھرا کی تحریکوں میں آر ایس ایس کے رضاکاروں کی فعال شرکت کے بارے میں ہوس بلے نے جو کچھ کہا،اُس سے یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے۔گزشتہ کچھ عرصے سے ایک تذبذب کی کیفیت چلی آ رہی تھی۔ ایسا لگنے لگا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کے بعد آر ایس ایس اور اس سے منسلک زعفرانی تنظیمیں مطمئن ہو چکی ہیں۔ گویا اُنہوں نے کاشی اور متھرا کے معاملوں کو ترک کردیا ہے اور آزادی کے وقت جو مذہبی عمارات جس حالت میں تھیں،انہیں اُسی حالت میں تسلیم کر لیا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے۔ سنگھ کی کنڑ زبان میں شائع ہونے والی میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں سرکاریہ واہ ہوس بلے نے کہا کہ1984میں وشو ہندو پریشد، سادھوؤں اور سنتوں نے تین مندروں کو آزاد کرانے کی بات کہی تھی۔سنگھ نے ثقافتی نقطہ نظر سے اسے ضروری سمجھتے ہوئے اس کی حمایت کی تھی اور دیگر مساجد سے متعلق تنازعات سے پوری طرح کنارہ کر لیاتھا اور اسے ایک ایسا اقدام قراردیاتھا،جس سے معاشرے میں غصہ اور دشمنی پیدا ہو۔اس صورت میں اگر ان کے رضاکار کاشی اور متھرا کے مندروں کے لیے کام کرنا چاہتے ہیںتو وہ اُن کو روکیں گے نہیں۔مطلب یہ کہ سنگھ سیدھے طور پر تحریک میں شامل ہونے کے بجائے رضاکاروں کو کھلا چھوڑ رہی ہے۔ یاد رہے کہ سنگھ ایک وقت میں ایک ہی مورچہ کھولتی ہے۔ہوس بلے کے بیان سے دونوں مقامات سے متعلق تنازعات اور تحریکوں کو نئی توانائی ملے گی۔
گزشتہ برس آر ایس ایس کے سر سنگھ چالک ڈاکٹر موہن مدھوکر بھاگوت نے واضح کیا تھا کہ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ایک اہم ایشو تھا۔ وہاں شاندار مندر بن جانے کے بعد اب ہر مسجد کے نیچے ’شولنگ‘ ڈھونڈنے کی ضرورت نہیں ہے۔تب لگا تھاکہ مرکزی حکومت کا ریموٹ اپنے ہاتھ میں رکھنے والے سنگھ کے خلاف جانے کی کسی میں جرأت نہیں ہوگی،لیکن اپنی پالی کے آخری پڑاؤ پر کھڑے بھاگوت کے بیان کو ہوس بلے کے بیان نے کافی چھوٹااور بونا ثابت کر دیا۔اُن کا کہنا ہے کہ ’رام مندر تحریک‘ کا تعلق آر ایس ایس سے نہیں تھا۔ملک بھر کے سادھو،سنت، وشو ہندو پریشد اور مٹھوں نے رام مندر پر دعویٰ کرنے اور کاشی وشوناتھ مندر و کرشن جنم بھومی کو آزاد کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے سنگھ سے مدد کے لیے رابطہ کیا تھا۔ہوس بلے نے کہا کہ اگر ہم سبھی مسجدوں کے بارے میں بات کرتے ہیں توکیا ہمیں30,000مساجد کو کھودنا شروع کر دینا اور تاریخ کو محفوط کرنے کی کوشش کرنی چاہیے؟ کیا اس سے معاشرے میں زیادہ دشمنی اورناراضگی پیدا نہیں ہوگی؟ ہم معاشرے کے طور پر آگے بڑھیں یا ماضی میں ہی اٹک کر کھڑے ہوجائیں؟ اگر ہم یہی کرتے رہے تو ہم اہم سماجی تبدیلی پر کب دھیان دیں گے؟ ہم امتیازی سلوک، بھیدبھاؤ، تبدیلیٔ مذہب اورلوجہاد جیسے چیلنجوں پر کب قابو پائیں گے؟ کاشی اور متھرا کا ایشو اُٹھانے کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اسی سال کے آخر میں بہار میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں اور2027کی شروعات میں ملک کے سب سے بڑے اور اہم صوبے اُترپردیش میں ریاستی انتخابات ہوں گے۔ متھرااورکاشی بہار سے متصل صوبے اترپردیش کے دونوں سروں پر واقع ہندوؤں کی دو بڑی اور متبرک عبادت گاہیں ہیں۔
دونوں ریاستوں میں ذات پات پر مبنی مردم شماری اور ریزرویشن کو بڑا انتخابی ایشو بنانے کی کوششیں ہورہی ہیں۔آر ایس ایس کئی دہائیوں سے مذہبی تحریک میں اس کا جواب تلاش کرتا آ رہا ہے۔یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مذہبی تحریک کا سیاسی فائدہ کس جماعت کو پہنچے گا؟ہوس بلے نے ذات پات کی سیاست کو اقتدار حاصل کرنے کا ایک آلہ قرار دیتے ہوئے اسے ملک اور معاشرے کے لیے مہلک بتایا۔ کہا کہ سنگھ ذات پات پر مبنی تنظیموں میں حصہ نہیں لیتی۔ اگر ذات پات خاندانی رواجوں تک محدود رہے تو اس سے معاشرے کو کوئی نقصان نہیں ہوتا،لیکن اگر ذات پات کا استعمال بھیدبھاؤ کرنے یا سیاسی طاقت کے تعین کے لیے کیا جائے تو یہ معاشرے کے لیے ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔حالاں کہ سنگھ کے سر کاریہ واہ نے اسی انٹرویو میں ملک کی سبھی مساجد کو ایشو بنانے کے رجحان کو سماجی تانے بانے کے لیے نقصان دہ بتاکر اسے متوازن کرنے کی کوشش بھی کی۔بہرحال ان دونوں ایشوز کو نئے سرے سے ہوا دینے کی قواعد نے سنگھ کے مخالفین کے سامنے ایک سنگین چیلنج پیش کیا ہے۔خاص طور پر اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ ایودھیا کی اسٹرٹیجک کامیابی نے ’ہندوتو‘ کی سیاست کی بنیاد کو مضبوط کیا ہے۔ کسی بھی دوسری تنظیم کے کارکنوں کی طرح کے رضاکاروں کو بھی اپنے مطالبات کے حق میں پرامن تحریک چلانے یا عدالت کی پناہ لینے کا پورا آئینی حق حاصل ہے،لیکن سنگھ کی اعلیٰ قیادت کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ جب نظم و ضبط والے رضاکاروں سے ہٹ کرعوام میں مذہبی جذبات اُبلنے لگتے ہیں تو وہ کسی کے قابو میں نہیں رہتے۔ مرکزی حکومت نے ملک کو 2047 تک ترقی یافتہ بننے کا ہدف مقرر کیا ہے۔ اس کے لیے زبردست سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یوں بھی کاشی اور متھرا کی صورت حال ایودھیا سے مختلف ہے۔ان دونوں مقامات پر دیوتاؤں کی پوجا کسی عارضی ڈھانچے میں نہیں ہو رہی ہے۔ اس لیے باہمی گفت و شنید یا عدالت کے فیصلے کے ذریعہ مستقل حل تلاش کرنا ہی دانش مندی ہے۔
دوسری جانب یکم اپریل 2025 کو عدالت عظمیٰ نے کہا کہ عبادت گاہوں(خصوصی دفعات) کے ایکٹ1991 کی دفعات کے جواز کے مسائل پر تازہ درخواستوں کو سماعت کے لیے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اسی کے ساتھ سپریم کورٹ نے اس قانون کی کچھ دفعات کے جواز کو چیلنج کرنے والی ایک نئی درخواست کو مسترد کر دیاہے۔عبادت گاہوں کا قانون1991کسی بھی عبادت گاہ کے مذہبی کردار کو تبدیل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔یہ کسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی نوعیت کو اس شکل میں برقرار رکھنے کا بھی بندوبست کرتا ہے، جیسا کہ وہ 15 اگست 1947کوتھی۔حالاں کہ بابری مسجد-رام مندرتنازع کو اس کے دائرے سے باہر رکھاگیا تھا۔ چیف جسٹس آف انڈیا سنجیو کھنہ اور جسٹس سنجے کمار کی دو رکنی بنچ نے قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ایک طالب علم کے اُس مطالبے کو مستردکر دیا،جس میں اُس نے کہا تھا کہ اُس کی درخواست کی سماعت ایکٹ کی دفعات کو چیلنج کرنے والی پہلے سے زیرالتوا درخواستوں کے ساتھ کی جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ وہ آئین کے آرٹیکل32 کے تحت اس معاملے پر مفاد عامہ کی نئی درخواست پر غور کرنے کے خواہش مند نہیں ہیں۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے درخواست گزار کو زیرالتوا درخواستوں میں مداخلت کے لیے درخواست دائر کرنے اور اپنی بات رکھنے کی اجازت دی ہے۔ غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے 12 دسمبر 2024 کو ملک بھر کی عدالتوں کو تب تک کے لیے موجودہ مذہبی ڈھانچوں کے خلاف زیرالتوا مقدمات میں سروے سمیت کوئی بھی موثر عبوری یا حتمی حکم جاری کرنے سے روک دیا تھا،جب تک اس ایکٹ کے تحت دائر درخواست پر سماعت مکمل نہیں ہوجاتی۔اترپردیش کے اہم انتخابات میں2 اورپارلیمانی انتخابات میں4برس کا وقت باقی ہے۔آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کے کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے اتنا عرصہ کافی ہے۔کچھ بھی سہی پر یہ ماننا ہی پڑے گا کہ ہوس بلے کے بیان نے سلگتی چنگاری کو ہوا دے دی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور اَدیب ہیں)
[email protected]