مسلمانوں میں تعلیم کی صورت حال

0

مشکور علی

اللّٰہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنانے کے لیے علم کی دولت سے مالا مال کیا اور اسی بنا پر فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ یہی وجہ ہے کہ جن قوموں نے علم کو اپنے لیے منتخب کیا، وہ ترقی کے زینے پر چڑھتی رہیں اور جنہوں نے اس سے چشم پوشی کی، وہ ترقی سے محروم رہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے علم کے میدان میں بڑے بڑے معرکے سر کیے لیکن بد قسمتی سے مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد مسلمانوں نے تعلیم سے کنارہ کشی سی اختیار کر لی جس کی وجہ سے ذلت و رسوائی اور ہر سطح پر پسماندگی ان کے حصے میں آئی۔ ہندوستانی مسلمان تعلیم کے میدان میں کیوں پیچھے رہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ ان میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ آزادی سے پہلے کا دور مغلوں کا رہا ہو یا راجہ مہاراجائوں کا، ہمارے ملک میں باقاعدہ تعلیم کا کوئی نظام نہیں تھا۔ انگریزوں کے زمانے میں بھی تعلیم کو اس لیے فروغ نہیں ملا، کیونکہ ان کے ماتحت نواب اور راجہ کام کرتے تھے۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ عوام تعلیم حاصل کریں۔ انہیں اندازہ تھا کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد عوام اپنے حقوق طلب کرسکتے ہیں، اس لیے تاریخ گواہ ہے کہ آزادی سے پہلے تعلیم کا کوئی خاص نظام نہیں بن سکا جبکہ یوروپ میں کافی اچھی ترقی ہوچکی تھی اور بڑے بڑے تعلیمی ادارے وہاں کام کررہے تھے اور دور دراز کے ملکوں سے لوگ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے یوروپ کی طرف متوجہ ہورہے تھے۔

ایسے مخلص، محنتی علم پسند دوست ہیں جو تعلیمی ادارے قائم کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن وسائل سے محروم ہیں۔ ایسے سب افراد آپسی تال میل سے قوم و ملت کی خدمت اسکول اور کالج قائم کرسکتے ہیں۔ بس ضرورت ہے عوام کو بیدار کرنے کی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا میں سر سید احمد خاں کے یوم پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اگر اس میں کچھ رقم بچا کر بھارت میں اسکولوں کا قیام عمل میں آئے تو یہ سرسید احمد خاں کو خراج عقیدت ہوگا۔

آزادی کے بعد بھارت سرکار نے مختلف ادارے قائم کیے، تعلیمی اداروں کی طرف خاص توجہ دی گئی۔ پچھلے 72 سال میں جو بھی سرکاریں رہیں، سبھی نے تعلیم کے میدان میں اچھاکام کیا ۔ اس کے باوجود جس رفتار سے ناخواندگی کا خاتمہ ہونا چاہیے تھا،نہیں ہوپایا۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ آزادی سے پہلے جب پورا بھارت جنگ آزادی میں لگا ہوا تھا، اس وقت بھی ایسے کئی رہبرتعلیم کے میدان میں آئے جنہوں نے قوم و ملک کو اونچا اٹھانے اور تعلیم کے میدان میں آگے بڑھانے کا کام کیا۔ ایسے رہنمائوں میں پنڈت مدن موہن مالویہ اور سرسیّد احمد خاں کا نام بطور خاص لے سکتے ہیں جنہوں نے بغیر کسی بھید بھائو کے علمی درسگاہیں قائم کیں۔ ایسے ا داروں کا قیام اس دور میں معمولی کام نہیں تھا۔ ان کے علاوہ بھی ایسے سیکڑوں ہندوستانی تھے جنہوں نے چھوٹے چھوٹے تعلیمی ادارے قائم کیے اور ملک و ملت کی خدمت کی۔اسی کے ساتھ مسلم اکابرین نے قوم کی اصلاح اور علم دین کی شمع روشن کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کے نتیجے میں دارالعلوم دیوبند اور ندوۃالعلما،لکھنؤکا قیام عمل میں آیا۔
ایک اندازے کے مطابق 1881 میں بھارت میں 4.5 فیصد لوگ خواندہ تھے جبکہ 1951 میں خواندہ لوگوں کی تعداد بڑھ کر 18.33 فیصد ہو گئی تھی لیکن آزادی کے بعد تعلیمی اداروں کاجال بچھتا چلا گیا۔ انجینئرنگ کالج، میڈیکل کالج، آئی آئی ایم ایس، آئی آئی ٹی وغیرہ جدید تعلیمی ادارے قا ئم ہوئے۔ ان اداروں کے قیام سے نئی روشنی ملی اور ترقی کی رفتار تیز ہوئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج خواندگی کا فیصد بہت بہتر ہوا ہے لیکن اب بھی بہت محنت کی ضرورت ہے۔ 2011 میں خواندگی کا تناسب 74 فیصد تھا اور اگرتعلیمی اعداد و شمار کو مذہبی اقلیتوں کے تناسب میں دیکھا جائے تو ہمارے جین بھائیوں میں خواندگی کی شرح سب سے زیادہ 97 فیصد ہے اور سب سے کم مسلمانوں میں63 فیصد ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ابھی بہت محنت اور کام کی ضرورت ہے۔ دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ ہر دن نئی چیزیں ایجاد ہورہی ہیں۔ کمپیوٹرکی ایجاد کے بعد تعلیم کے رجحانات میں اضافہ ہوا۔ کمپیوٹر ہماری ہروقت کی ضرورت بن گیا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ کمپیوٹرآج کی زبان بن گیا ہے تو بے جا نہ ہوگا لیکن یہ بات بھی بالکل سچی ہے کہ سرسید احمد خاں کے بعد مسلمانوں میں تعلیمی بیداری کا کام بہت سست پڑ گیا۔ جنوبی ہنداور مہاراشٹرمیں کچھ اچھے ادارے قائم کیے گئے ہیں لیکن باقی صوبوں میں تعلیم پر لوگوں کی خاص توجہ نہیں رہی۔ خصوصی طور پر شمالی ہند اس میدان میں سب سے پسماندہ رہا ہے اور اس میں بھی بطور خاص مسلمان بہت پیچھے رہے۔ اتنا ضرور ہے کہ شمالی ہندمیں دینی ادارے خاصے قائم ہوئے اور کسی حد تک مسلم بچے ان اداروں سے فیضیاب ہوئے لیکن اچھے روزگار پانے میں انہیں کامیابی نہیں ملی اور موجودہ ترقی کی دوڑ سے الگ تھلک پڑ گئے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں میں بے روزگاری بڑھتی چلی گئی اور یہ رفتار آگے ہی بڑھ رہی ہے جو ہر اعتبار سے نامناسب اور ملک کے لیے مضر ہے، اس لیے ہمارا فرض ہے کہ ہم سب لوگ مل کر سرکار کی نئی تعلیمی پالیسی سے فائدہ اٹھائیں اور تعلیمی ادارے قائم کریں۔ آج بھی بڑے باثروت و باحیثیت ایسے بہت سے افراد ہیں جن کے پاس وسائل کی کمی نہیں ہے۔ دوسری طرف بہت سے ایسے مخلص، محنتی علم پسند دوست ہیں جو تعلیمی ادارے قائم کرنے کے خواہش مند ہیں لیکن وسائل سے محروم ہیں۔ ایسے سب افراد آپسی تال میل سے قوم و ملت کی خدمت اسکول اور کالج قائم کر سکتے ہیں۔ بس ضرورت ہے عوام کو بیدار کرنے کی۔
ہم دیکھتے ہیں کہ پوری دنیا میں سرسید احمد خاں کے یوم پیدائش پر جشن منایا جاتا ہے۔ کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ اگر اس میں کچھ رقم بچا کر بھارت میں اسکولوں کا قیام عمل میں آئے تو یہ سرسید احمد خاں کو خراج عقیدت ہوگا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا سید ارشد مدنی موجودہ دور میں تعلیم کے فروغ کے لیے بہت اہم کردار نبھا رہے ہیں۔ حضرت کی تحریک سے نہ صرف عوام میں تعلیمی بیداری میں اضافہ ہوا ہے بلکہ تعلیمی ادارے بھی قائم ہو رہے ہیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ حضرت کی تحریک سے متاثر ہوکر جو ادارے لوگوں نے قائم کیے ہیں، وہ عوام کی اچھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ادھر یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ گزشتہ تقریباً دو ڈھائی دہوں سے ہندوستان کے اندر تعلیم کے فروغ کے لیے حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب نے بڑا کام کیا ہے اور لوگوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے کے لیے ایک منصوبہ بند تحریک چلائی ہے ۔ آپ نے اپنے ایک عوامی پیغام میں مسلمانوں سے اپیل کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ پیٹ پر پتھر باندھ کر بچوں کو پڑھائو۔ ہم سب اس بات کا بھی علم رکھتے ہیں کہ آپ کی تحریک پر اور آپ کی رہنمائی میں لوگوں نے بہت سے تعلیمی ادارے قائم کیے ہیں جو بہت اچھے چل رہے ہیں۔ اللہ حضرت کی اس تحریک کو کامیابی عطا کرے۔
مولانا کا ایک بڑا کام مسلم ہونہار بچوں کو تعلیم کی طرف فروغ دینا بھی رہا ہے۔ آپ صرف تعلیمی ادارے قائم ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ مستحق، ذی استعداد، محنتی، ذہین اور ہوشیار طلبا کی حوصلہ افزائی کے لیے جمعیۃ علماء ہند کے توسط سے وظائف بھی دے رہے ہیں۔ یہ بڑا اہم کام ہے۔ چونکہ آج کا ہندستان خاص طور سے مسلمان معاشی اعتبار سے بہت پسماندہ ہیں اور بہت سے بچے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہیں کر پارہے ہیں، ایسے بچوں کو تعلیم کے تئیں سہارادینا نہایت اہم کام ہے جس کے لیے ہزار ہا افراد صدر جمعیۃ اور ان کی تنظیم کو دعائوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ ہمارا اخلاقی فریضہ ہے کہ ہم ہر سطح پر اس مشن میں مولانا ارشد مدنی کے کاندھے سے کاندھا ملا کر چلیں۔ صدر جمعیۃ علماء ہند کی تعلیمی تحریک کو اللہ کامیاب کرے ۔ مولانا کی اس اپیل کے نتیجے میں دیکھا جا رہا ہے کہ وہ مسلمانان ہند جن کے پاس وسائل ہیں، اس طرف توجہ دے رہے ہیں۔ فی الحقیقت اس تحریک کو فروغ دینا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جمعیۃ علماء ہند کو اس سلسلے میں بیداری لانے کے لیے ہر شہر اور ہر قصبہ میں سمینار کا نظام قائم کرنا چاہیے اور ان سمیناروں میں اس علاقے کے ذمہ دار اور تاجر لوگوں کو ضرور شامل کرنا چاہیے تا کہ ملک میں تعلیمی رجحان میں اضافہ ہو اور تعلیم حاصل کرکے بچے ملک و ملت کی خدمت کر سکیں اور ہمارا ملک دن دونی رات چوگنی ترقی کرسکے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS