تحریر: فرزانہ تبسم قاضی
ترتیب: عبدالعزیز
اللہ تعالیٰ نے یہ ساری کائنات اور انسان کو ایک نہایت اہم مقصد کی خاطر تخلیق کیا ہے تاکہ اس دنیا پر اللہ کی خلافت و نیابت قائم ہو۔ اللہ ہی کے احکام کے مطابق اس دنیا کا نظام چلے، اللہ ہی کا دین اور اس کے قوانین نافذ ہوں اور تمام انسان اللہ کے دین سے آشنا ہو جائیں۔
نکاح اور اس کے مقاصد :خداوند کریم نے خلافت جیسے عظیم مقصد کی تکمیل کی خاطر انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اور مرد و عورت کے روپ میں پیدا کیا، لیکن انھیں جانوروں کی طرح بے لگام نہیں چھوڑ دیا کہ جس جانور یعنی (اپنی ہی جنس ) سے چاہیں اپنی فطری پیاس بجھائیں بلکہ ان کیلئے ایک ضابطہ حیات مقرر کیا اور ان پر کچھ حدود و قیود اور پابندیاں عائد کرکے انھیں نکاح کے مقدس بندھن میں باندھ دیا، تا کہ اس سے نسل انسانی پروان چڑھے اور خاندان کی تشکیل ہو۔ اس کے ساتھ ہی اپنی اولاد کیلئے ان کے دلوں میں محبت کا بے کراں سمندر رکھ دیا، تاکہ نسل انسانی اپنے والدین اور خاندان کے افراد کی محبتوں کے سائے تلے بہترین کردار کے ساتھ پروان چڑھے۔ مرد و عورت کی جسمانی ساخت اور نفسیاتی ترکیب مقاصد زوجیت کیلئے مناسب بنائی اور دونوں میں ایک دوسرے کیلئے صنفی کشش رکھ دی، تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے پیدا کی گئی کشش کی تکمیل کے ذریعے اپنی محبت سے نسل انسانی کی پیدائش کا ذریعہ بنیں اورپروان چڑھائیں اور اللہ تعالیٰ کے مقصدخاص خلافت کی ذمہ داری اٹھائیں اور مرد و عورت کو کھیت اور کسان سے تشبیہ دی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں ‘‘۔ (البقرہ2:223)
جس طرح کسان کھیت سے پیداوار حاصل کرتا ہے، اسی طرح تم بھی اپنی کھیتیوں یعنی عورتوں کے ذریعے اللہ کی زمین کو آباد رکھنے کیلئے نسل انسانی کو بڑھائو، جس طرح کسان کھیت میں بیج ہی نہیں بوتا ، بلکہ جو فصل تیار ہوتی ہے اس کی رکھوالی بھی کرتا ہے اور جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے اسے مہیا کرتا ہے۔ اسی طرح عورت اور اس سے پیدا ہونے والی نسل بھی مکمل طور سے مرد کی محتاج ہوتی ہے کہ وہ نہایت توجہ اور دھیان سے اس کی نگہبانی کرے اور انھیں پروان چڑھائے۔ مرد و عورت کے تعلق کو حیوانوں کی طرح محض شہوانی غرض و غایت پوری کرنے والا نہیں بنایا، بلکہ مرد و عورت کی زوجیت کا یہ بھی مقصد بتایا کہ ان میں آپس میں صنفی محبت، قلبی لگاؤ اور دلی وابستگی ہو۔ دونوں ایک دوسرے کے شریک راز اور شریک غم ہوں۔
ارشاد خداوندی ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے خود تم ہی میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت رکھ دی‘‘ (الروم 30:21)۔ انھیں ایک دوسرے کا لباس قرار دیا۔ ارشا د ہے: ’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم ان کیلئے لباس ہو‘‘۔(البقرہ2: 187)
یعنی جس طرح لباس اور جسم کے درمیان کوئی پردہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح تمہارا اور تمہاری بیویوں کا تعلق ہے۔ وہ تمہاری شریک رازہیں اورسکون وراحت کا سرمایہ ہیں۔ نکاح کو نبی کی سنت قرار دیا اور حکم دیا کہ کوشش کی جائے کہ کوئی بھی بغیر نکاح کے نہ رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی، غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کر دے گا ، اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے‘‘ (النور24:32)۔ اس ضمن میں اسلامی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ جو لوگ کچھ مسائل کے سبب نکاح نہ کر سکتے ہوں، ان کے نکاح کروا دیں کیونکہ نکاح نہ کیے جانے سے آدمی غلط راہ پر چل پڑتا ہے۔
فطرت سے غداری: خداوند کریم نے نکاح کے علاوہ تمام ذرائع سے جنسی تسکین پورا کرنے کو حرام قرار دیاہے اور سخت سزائیں مقرر کی ہیں اور آخرت میں ذلت کے عذاب کی وعید بھی سنائی ہے۔ باوجود اس کے جو شخص اللہ تعالیٰ کے بتائے گئے نکاح کے طریقے کے بر خلاف غلط طریقے سے اپنی شہوانیت کی تسکین کا سامان کرتا ہے، وہ یا تو زنا کا راستہ اپناتا ہے یا فتنہ ہم جنسی میں ملوث ہے۔ اس طرح وہ فطرت سے غداری بلکہ جنگ کرتا ہے۔ کیونکہ قدرت نے جس مقصد کیلئے اس میں جنسی کشش رکھی تھی اور جو ذمہ داریاں اس کے تحت سونپی تھیں، وہ ان سے رو گردانی کرتا ہے اور خالق کائنات کے منصوبے یعنی نکاح کے ذریعے جو خاندان اور تمدنی ادارے وجود میں آئے تھے، ان میں وہ اپنی قوتوں کو غلط طریقے سے استعمال کر کے نظام خاندان اور اجتماعی تمدن کو تباہ و برباد کرنے اور نسل انسانی کی رکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔ وہ معاشرت کو بے راہ روی اور اخلاقی پستی کی طرف دھکیل دیتا ہے، یعنی بیک وقت وہ کئی جرائم کا ارتکاب کرتا ہے۔ مردوں کی طرح عورتیں بھی اگر زنا یا ہم جنسی میں ملوث ہوتی ہیں تو وہ بھی ان سب جرائم کی مرتکب ہوتی ہیں۔ تشویش تو اس بات کی ہے کہ ہم جنسیت جو کہ نہایت گھناؤنا فعل ہے، نسل انسانی کو روکنے والا عمل ہے اور خاندانی نظام کو تباہ و برباد کرنے والا خلاف فطرت عمل ہے۔ اس کو گہرے سازشی مقاصد کے تحت پھیلایا اور عالمی ضابطوں اور ابلاغی دبائو کے تحت جواز مہیا کیا جارہا ہے۔ اگر اسے قانونی جو از دے د یا جائے تو لوگوں کا رجحان ہی ختم ہونے لگے گاکہ نکاح کی بندش میں بندھ کر نوع انسانی کی پیدائش اور افزائش کی ذمہ داری ادا کریں۔
باہم رضامندی اور فتنہ ہم جنسیت:کہا جاتا ہے کہ ’اگر باہم رضامندی سے دوافراد اس میں ملوث ہوں تو کسی کو کیا پریشانی ہے؟‘ یعنی ایک ہی جنس کے دو افراد ملوث ہوں تو اس کی اجازت انھیں حاصل ہونی چاہیے۔ مسلمانوں کیلئے تو اس سوال کا تصور ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن غیر مسلم معاشرے میں بھی یہ گھناؤنا اور قابل تعزیر جرم ہے۔ یہ اس طرح ہے کہ جیسے رشوت ، سودوغیرہ کے لین دین ہوں یا جہیز وغیرہ کی رسمیں ہوںجو باہم رضامندی سے ہی ہوتی ہیں، لیکن معاشرے میں جرم قرار پاتی ہیں۔ اگر کوئی آدمی رشوت دیتے ہوئے پکڑا جائے تو سخت سزا کا مستحق قرار پاتا ہے۔
اگر اس ہم جنسیت کے فتنہ کو قانونی جواز مل جائے توبہترین انسانی نظام تمدن کے بجائے، حیوانی نظام تمدن وجود میں آئے گا جو اپنے مادی غرض و فائدہ کی خاطر اکٹھے تو ضرور ہوتے ہیں اور جب تک مرضی اور غرض باقی رہے ساتھ رہتے ہیں اور جب چاہیں الگ ہو جاتے ہیں۔ انھیں خاندانی و سماجی نظام تمدن سے کوئی غرض اور سروکا ر نہیں۔ حالانکہ بحیثیت انسان وہ خاندانی اور سماجی نظام ہی کے سبب پیدا ہوئے اور پلے بڑھے ہیں۔ اس کے باوجود حیوانوں کی طرح دنیا میں اپنے پیٹ بھرنے اور شہوانی خواہش پوری کرنے کے علاوہ ان کا کوئی مقصد اور ذمہ داری نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ اس قبیح فعل میں ملوث افراد کسی کام کے نہیں رہتے، نہ ان کا کوئی اخلاق اور کردار ہوتا ہے، نہ ایسے خود غرض اور نفس پرست انسان ملک کے انتظامی امور اور کوئی سماجی خدمت کرنے کے ہی اہل ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں پر مشتمل معاشرہ، حیوانیت کی سطح سے بھی بہت نیچے اسفل السافلین قرار پائے گا۔
اصولوں کا تعیّن:یہ بات تو تقریباً تمام ہی انسان بجز ملحدین کے ، مانتے ہیں کہ یہ کائنات یعنی یہ آسمان، زمین، چاند، تارے، سورج، غرض ہر چیز خالق کائنات یعنی اللہ نے بنائی ہے اور ان کو اصولوں یعنی ایک ضابطے کا پابند بنایا ہے۔ انسانوں یعنی مرد و عورت کو بھی ایک خاص مقصد کیلئے پیدا کیا اور انھیں بھی کچھ حدود و قیود مقرر کر کے اختیارات بھی دیئے۔ سوچنے سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت عطا کی اور کچھ اصول وقوانین ان کیلئے متعین کرکے ایک حد کے اندر آزادی بھی بخشی۔ جب سے دنیا بنی پیغمبروں کے ذریعے ہر دور میں بنی آدم کیلئے بنائے گئے، اصولوں کی یاد دہانی کی جاتی رہی۔ اس کی ہر سانس اللہ کے اذن سے ہے اور اللہ جب تک چاہے انسان کی سانس جاری رکھے اور جب چاہے روک کر موت دے دے۔ غرض انسان کا اپنا جسم اور جان بھی اللہ کی امانت ہے، انسان خود اپنا بھی مالک نہیں۔ وہ نہیں جانتا کہ کون کون سے اصول اس کیلئے مفید ہیں اور کون کون سے مضر ؟ تو پھر یہ بے لگام آزادی کیوں؟ میرا جسم میری مرضی کا یہ نعرہ کیسا؟
ہم جنسیت پر وعیدیں : اس موذی جرم کے سلسلے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:’’عمل قومِ لوط اللہ کی لعنت ہے اس شخص پر جو قومِ لوط کا سا عمل کرے‘‘ (مسند احمد)۔ مزید فرمایا: ’’فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کر دو شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ۔ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایسا کوئی مقدمہ پیش نہیں ہوا، اس لیے قطعی طور پر یہ بات متعین نہ ہوسکی کہ اس کی سزا کس طرح دی جائے؟ حضرت علیؓ کی رائے یہ ہے کہ مجرم کو تلوار سے قتل کیا جائے اور دفن کرنے کی بجائے اس کی لاش جلائی جائے۔ اسی رائے سے حضرت ابو بکرؓ نے اتفاق فرمایا۔ حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کی رائے یہ ہے کہ کسی بوسیدہ عمارت کے نیچے کھڑا کر کے وہ عمارت اس پر ڈھا دی جائے۔
ابن عباسؓ کا فتویٰ یہ ہے کہ ’’بستی کی سب سے اونچی عمارت سے ان کو سر کے بل پھینک دیا جائے اور اوپر سے پتھر برسائے جائیں‘‘۔ امام شافعیؒ کہتے ہیں کہ ’’فاعل و مفعول واجب القتل ہیں، خواہ شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ ‘‘۔ شعبی، زہری، مالک اور احمد رحمہم اللہ کہتے ہیں کہ ’’ان کی سزا رجم ہے‘‘۔
سعید بن مسیب، عطا، حسن بصری، ابراہیم نخعی ،سفیان ثوری اور اوزاعی رحمہم اللہ کی رائے میں ’’اس جرم پر وہی سزادی جائے گی جو زنا کی سزا ہے، یعنی غیر شادی شدہ کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور جلا وطن کر دیا جائے گا اور شادی شدہ کو رجم کیا جائے گا‘‘۔ امام ابو حنیفہؒ کی رائے میں ’’اس پر کوئی حد مقرر نہیں، بلکہ یہ فعل تعزیر کا مستحق ہے جیسے حالات و ضروریات ہوں ان کے لحاظ سے کوئی عبرت ناک سزادی جا سکتی ہے‘‘۔ ایک قول امام شافعیؒ سے بھی اسی کی تائید میں منقول ہے۔ معلوم رہے کہ آدمی کیلئے یہ بات قطعی حرام ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’عورت سے یہ فعل کرنے والا ملعون ہے‘‘ (ابوداؤد)۔ آپؐ نے مزید فرمایا: ’’اللہ اس مرد کی طرف ہرگز رحمت سے نہ دیکھے گا، جو عورت سے اس فعل کا ارتکاب کرے‘‘۔ (ابن ماجہ، مسند احمد)
ترمذی میں آپؐ کا یہ فرمان ہے: ’’جس نے حائضہ عورت سے مجامعت کی یا عورت کے ساتھ عمل قومِ لوط کا ارتکاب کیا یا کاہن کے پاس گیا اور اس کی پیش گوئیوں کی تصدیق کی، اس نے اس تعلیم سے کفر کیا جو محمدؐ پر نازل ہوئی ہے‘‘۔ (تفہیم القرآن، جلد دوم، سورہ اعراف ،حاشیہ 68)
الغرض ہم جنسیت نہایت ، گھناؤنا، قبیح فعل ہے۔ اس کے مرتکب افراد اللہ کے عذاب کو دعوت دیتے ہیں، یہ ایک بھیانک جرم، بدترین گناہ، انسانی تمدن بلکہ فطرت سے جنگ ہے۔
ہم جنسیت اورمہلک امراض: یہ ایک نفسیاتی مرض ہے اور صحت کیلئے سمِ قاتل ہے۔ اس میں ملوث افراد مہلک امراض خبیثہ میں مبتلا ہو کر اور بے انتہا تکلیفیں اٹھاتے ہوئے اپنی جانیں گنوا دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے رابطہ کار افراد کو بھی ان موذی امراض کا شکار بنا جاتے ہیں۔
سائنسی تجربہ سے سامنے آیا ہے کہ ایڈز جیسے مرض کے دوسرے افرادکے مقابلے میں ، کئی گنا زیادہ ہم جنسیت میں ملوث افراد شکار ہوتے ہیں اور اس جرم میں مبتلا افراد میں اس موذی مرض کا شکار ہونے کے واقعات میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ایک لا علاج بیماری ہے اور اب تک لاکھوں افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کے جو لوگ رابطے میں رہتے ہیں، وہ بھی اس موذی مرض کا شکار ہو جاتے ہیں۔ خصوصاً ان ممالک میں اس بیماری کا گراف بہت زیادہ بڑھا ہوا ہے جہاں ہم جنسی میں ملوث افراد کی تعداد زیادہ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ہم جنسی میں مبتلا افراد کی عمر دوسرے عام لوگوں کے مقابلے میں 30 سال کم ہو جاتی ہے۔ ایسے افراد ہر قسم کی مہلک بیما ریوں میں بھی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں جلد شکار ہو جاتے ہیں۔
قوم لوط میں فتنہ ہم جنسیت: قرآن اور اس کی مختلف تفاسیر، خصوصاً تفہیم القرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عراق اور فلسطین کے درمیان ایک علاقہ جسے آج کل شرق اردن کہا جاتا ہے، وہاں ایک قوم رہتی تھی۔ اس علاقے کے صدر مقام کا نام بائبل میں ’سدوم‘ بتایا گیا ہے، جو بحیرۂ مردار کے قریب واقع تھا۔ تلمود میں ہے کہ سدوم کے آس پاس بڑے بڑے شہر تھے اور ان شہروں کے درمیان کا علاقہ میلوں تک بہترین باغ پر مشتمل تھا۔ اس علاقہ میں ایک قوم آباد تھی جوکئی برائیوں میں مبتلا تھی ،لیکن اس کی سب سے گھناؤنی برائی ہم جنسیت میں مبتلا ہونا تھا۔ یہ تو انسانوں کی پرانی روش ہے کہ جب اللہ تعالیٰ خوب نوازتا ہے، بے شمار دولت اور ہر قسم کی نعمتیں عطا فرماتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کے بجائے عیش کوشی اورہر قسم کی برائیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ نعمتیں تو انھیں ہمیشہ حاصل رہیں گی۔اسی طرح قومِ لوط بھی اللہ سے سرکش اور باغی ہو کر لوٹ کھسوٹ، ظلم و نا انصافی، مسافروں کو قتل کرنا وغیرہ کئی برائیوں میں ملوث تھی، لیکن اسی قوم کی سب سے گھناؤنی برائی ہم جنسیت میں مبتلا ہونا تھا، جسے وہ قوم کھلم کھلا سب کے سامنے اختیار کرتی تھا۔ ظاہر ہے کہ جب پوری قوم اس میں مبتلا تھی تو شرم وحیا کس سے؟ اس قوم کی اصلاح کیلئے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم ؑ کے بھتیجے حضرت لوطؑ کو اس علاقے میں بھیجا تاکہ قوم کو اللہ کی طرف بلائیں اور ان سے برائیوں کو دور کریں۔ حضرت لوطؑ نے اس قوم کی اصلاح کیلئے عرصہ تک تمام تر جدوجہد کی لیکن سوائے حضرت لوطؑ کے گھر کے، کسی نے بھی ان کی نصیحتوں اور تنبیہات کو قبول نہیں کیا بلکہ حضرت لوطؑ ہی کو شہر بدر کرنے کی دھمکی دے دی ، حتیٰ کہ حضرت لوطؑ کی بیوی بھی ایمان نہ لائی اور اپنی
قوم کے ساتھ رہی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور لوط کو ہم نے پیغمبر بنا کر بھیجا ، پھر یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا: کیا تم ایسے بے حیا ہوگئے ہو کہ وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا میں کسی نے نہیں کیا ؟… حقیقت یہ ہے کہ تم بالکل ہی حد سے گزر جانے والے لوگ ہو،مگر اس کی قوم کا جواب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ ’’نکالو ان لوگوں کو اپنی بستیوں سے ، بڑے پاکباز بنتے ہیں یہ‘‘۔ (اعراف7:80-82 )
اسی طرح سورہ شعراء (160 سے 173) میں اس قوم کا ذکر ہے۔ سورہ عنکبوت میں بھی فرمایا گیا کہ ’’تم وہ فحش کام کرتے ہو جو تم سے پہلے دنیا والوں میں سے کسی نے نہیں کیا ؟ کیا تمھارا حال یہ ہے کہ مردوں کے پاس جاتے ہو، اور رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں برے کام کرتے ہو؟‘‘ (العنکبوت29: 28-29)
حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کو بار بار ان برائیوں کے ارتکاب پر تنبیہ کی، جس میں وہ ملوث تھے، برے انجام سے ڈرایا، لیکن اتنی تنبیہات کا اس قوم نے کوئی اثر قبول نہ کیا، نہ اپنی حرکتوں سے تائب ہوئے۔ بالآخر اللہ کا غضب نازل ہوگیا اور وہ قوم ملیا میٹ کر دی گئی۔
ارشادِ خداوندی ہے : ’’آخرکار پو پھٹتے ہی اْن کو ایک زبردست دھماکے نے آ لیا۔ اور ہم نے اْس بستی کوالٹ پلٹ کر رکھ دیا اور ان پر پکی ہوئی مٹی کے پتھروں کی بارش برسا دی‘‘۔ (الحجر15:73-74)
سورہ ہود میں ارشاد خداوندی ہے: ’’پھر جب ہمارے فیصلے کا وقت آپہنچا تو ہم نے اس بستی کوالٹ پلٹ کررکھ دیا اور اس پر پکی ہوئی مٹی کے پتھر تا بڑ توڑ برسائے، جن میں سے ہر پتھر تیرے ربّ کے یہاں نشان زدہ تھا۔ اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دْور نہیں ہے ‘‘۔(ھود 11:82-83)
مولانا مودودیؒ اس ضمن میں لکھتے ہیں: ’’غالباً یہ عذاب سخت زلزلے اور آتش فشانی انفجار کی شکل میں آیاتھا۔ زلزلے نے ان کی بستیوں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور آتش فشاں کے پھٹنے سے ان کے اوپر زور کا پتھراؤ ہوا۔ بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں اس انفجار کے آثار ہر طرف نمایاں ہیں۔ ’اور ظالموں سے یہ سزا کچھ دور نہیں‘ سے مراد آج بھی جو لوگ ظلم کی اس روش پر چل رہے ہیں وہ بھی عذاب کو اپنے سے دور نہ سمجھیں۔ عذاب اگر قومِ لوط پر آسکتا تھا تو ان پر بھی آسکتا ہے۔ خدا کو نہ لوطؑ کی قوم عاجز کرسکی تھی، نہ یہ کر سکتے ہیں۔ (تفہیم القرآن، دوم، سورہ ہود، حاشیہ 91،93) (جاری)