مولانا ندیم واجدی
عبادت بھی ہے اور بے شمار روحانی اورجسمانی فوائد کا وسیلہ بھی، رمضان مسلمانوں کے لیے اللہ رب العزت کا عظیم تحفہ ہے۔ افسوس ہم لوگ اس تحفے کی قدر نہیں کرتے، در اصل ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہے کہ روزہ کتنے عظیم فوائد کا حامل ہے، اگر احساس ہوتا تو ہم اس تحفے کی قدر بھی کرتے اور اس کا حق بھی ادا کرتے، حدیث شریف میں ہے، سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا’’ اگر لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ رمضان کیا ہے تو میری امت یہ تمنا کرے گی کہ سال کے بارہ مہینے رمضان ہی رہے‘‘۔ یہ اللہ کا بڑا انعام ہے کہ اس نے ہمیں جن احکام کا مکلف بنایا ہے ،یا ہم پر جو عبادات فر ض کی ہیں ان میں ہمارے لیے دنیا وآخرت کے فائدے بھی رکھ دئے ہیں۔ وہ چاہتا تو ہمیں ایسی عبادت کا مکلف بھی بناسکتا تھا جن سے نہ ہمیں دنیا میں کوئی فائدہ پہنچتا اور نہ آخرت میں کوئی اجر ملتا، لیکن اللہ اپنے بندوں پر ستر ماؤں سے زیادہ مہر بان ہے اس لیے اس نے عبادت جیسے عمل کو بھی جو خالق کا مخلوق پر حق ہے فائدوں کا حامل بنادیا۔ روزہ دن بھر بھوکا پیاسا رہنے کا نام ہے، ہمارے اس عمل کو عبادت کا نام دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہوتا ہے کہ طلوع صبح سے غروب آفتاب تک بھوکا پیاسا رہنے کے عمل میں بندہ کا کیا فائدہ ہے۔ بہ ظاہر تو اس میں مشقت ہی معلوم ہوتی ہے۔اس لئے روزے کے کچھ فائدوں پر نظر ڈالنامناسب معلوم ہوتاہے۔آغاز روحانی فائدوں سے کرتے ہیں۔
روزہ کا پہلا فائدہ یہ ہے کہ اس عمل سے تقوی حاصل ہوتا ہے۔ اس فائدے کا ذکر قرآن کریم میں ہے کہ’’تاکہ تم متقی بن جاؤ‘‘(البقرۃ: 21)۔اللہ ہم سے صرف یہ نہیں چاہتا کہ ہم صبح سے شام تک بھوکے پیاسے رہیں، یا اپنی نفسانی خواہشات سے رُکے رہیں، بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ ہمارے اندر تقوی کی صفت پیدا ہو، روزہ کی اصل روح تقوی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگاکہ انسان کے اخلاق وکردار کی تعمیر تقوی ہی کی بنیاد پر ہوتی ہے، اسی تقوی کو ہم تعمیر انسانیت کی خشت اول بھی کہہ سکتے ہیں، کھانا پینا چھوڑنا اہم بات نہیں ہے، اہم بات تو یہ ہے کہ آدمی وہ کام کرے جس سے اخلاق سدھریں، جذبات وخواہشات قابو میں آئیں، اسی لیے حدیث شریف میں فرمایا گیا کہ ’’ روزہ کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ روزہ دار لغو اور برے کاموں سے بھی اجتناب کرے‘‘(السنن الکبری للبیہقی: ۴/ ۲۷۰) ۔
’ روزے سے جسم کا دفاعی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے ، دفاعی نظام کا استحکام ہی انسان کو بہت سے امراض سے بچاتا ہے، مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم روزوں کو روزوں کی صورت میں رکھیں، بہت سے لوگ سحری میں اتنا کھالیتے ہیں کہ سارے دن ڈکاریں لیتے پھر تے ہیں، جسم میں تیزابیت کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے، اس کی تکلیف سے بے چین رہتے ہیں، لیکن سارے دن بھوکا رہنے کے خوف سے حلق تک ٹھونس لیتے ہیں۔ پھر افطار پر اس طرح ٹوٹ کر پڑتے ہیں گویا کبھی کھانا نصیب ہی نہیں ہوا تھا، اتنا کھاتے ہیں کہ مغرب کی نماز تو کیا عشاء کی نماز اور تراویح بھی صحیح طورپر ادا نہیں کرپاتے۔‘
روزہ ہمارے دل میں یہ حقیقت راسخ کرتا ہے کہ اصل چیز اللہ کے حکم کی اطاعت ہے، اگر کسی کے دل میں یہ استحضار پیدا ہوجائے تو سمجھ لو کہ وہ تقوی کی حقیقت تک پہنچ گیا ہے، عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ تقوی برائیوں سے اجتناب کا نام ہے، تقویٰ کی یہ ناقص تعریف ہے، علامہ ابن تیمیہؒ نے لکھا ہے کہ تقویٰ محض برائیوں کو ترک کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ اوامر کی تعمیل اور نواہی سے اجتناب کا نام تقویٰ ہے(فتاوی ابن تیمیہ: ۲۰/ ۱۳۲)۔ تقوی ہی پر اعمال کی قبولیت کا مدار ہے، قرآن کریم میں ہے ’’ اللہ تعالیٰ متقیوں ہی کا عمل قبول کرتے ہیں‘‘(المائدۃ: 27)۔ تقوی بڑی اونچی اور اعلیٰ صفت ہے، بلکہ تمام صفات کی روح تقوی ہے، اسے ہم جامع الصفات بھی کہہ سکتے ہیں، جس کو یہ اعلیٰ ترین صفت میسر ہے اس کے لیے دنیا وآخرت کی بے شمار نعمتوں کی خوش خبری سنائی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے ’’بے شک متقیوں کے لیے ان کے رب کے یہاں نعمتوں سے لبریز جنتیں ہیں‘‘(القلم: 34)۔ یہی نہیں بلکہ ان سے دنیا میں بھی آسمان وزمین کی برکتوں کا وعدہ کیا گیا ہے ’’ اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقوی کی روشن اختیار کرتے تو ہم ان پر زمین وآسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ ( الاعراف: 96)۔
روزہ کا دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے دل کو سکون حاصل ہوتا ہے، خواہشات کاطوفان تھم جاتا ہے، نفس امارہ کی تیزی اور تندی ختم ہوجاتی ہے، گناہ کی خواہش کم ہوجاتی ہے، در اصل بھوکا رہنے کی وجہ سے انسان کے ان اعضاء کا عمل سست پڑ جاتا ہے جن کا براہ راست تعلق گناہ کے ارتکاب سے ہے، جیسے آنکھ، کان، ہاتھ، پاؤں، زبان اور شرم گاہ اس حقیقت کو صوفیاء نے بڑے دل نشیں انداز میں سمجھایا ہے کہ جب نفس بھوکا ہوتا ہے تو تمام اعضاء سیر ہوتے ہیں، یعنی انہیں اپنے کام کی رغبت نہیںہوتی، اور جب نفس سیر ہوتا ہے تو تمام اعضاء بھوکے ہوتے ہیں یعنی انھیں اپنے کام کی رغبت ہوتی ہے۔روزہ کا تیسر افائدہ یہ ہے کہ روزہ دار کے دل میں لغویات کی طرف میلان باقی نہیں رہتا، اس کا سینہ کدورتوں سے خالی ہوجاتاہے، کان کوئی لغوبات سننے پرآمادہ نہیں ہوتا، آنکھ محرّمات دیکھنے کی طرف مائل نہیں ہوتی، زبان فضول گوئی اور بد کلامی سے بچی رہتی ہے، یہی تینوں اعضاء ایسے ہیں جو برائیوں کا سبب بنتے ہیں، اور انسان کو گناہوں کی طرف لے جاتے ہیں، روزہ کی حالت میں انسان کے یہ تینوں اعضاء نیکی کی طرف مائل رہتے ہیں، دل گناہ کی آلودگیوں سے محفوظ رہتاہے، اور پورا ماحول نورانی ہوجاتاہے۔
روزہ کا چوتھا فائدہ یہ ہے کہ جب انسان بھوک پیاس کی مشقت برداشت کرتا ہے تو اس کے دل میں خود بہ خود ان غریبوں، ناداروں، محتاجوں، بے کسوں اور یتیموں کے لیے ہمدردی اور غم خواری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جو پورے سال ہی بھوک کی تکلیف اٹھاکر زندگی گزارتے ہیں، ہمدردی کا یہ احساس اس کو ان کی مدد پر آمادہ کرتا ہے، یہ مشاہدہ ہے کہ رمضان کا مہینہ غریبوں اور ناداروں کے لیے بھی برکتوں کا مہینہ بن کر آتا ہے، اس مہینے میں اہل ثروت مسلمان اپنے غریب بھائیوں کی دل کھول کر مدد کرتے ہیں۔
روزے کے جسمانی فائدے بھی کچھ کم نہیں، اطباء اس حقیقت پر متفق نظر آتے ہیں کہ کم کھانے سے بہت سی بیماریاں پیدا ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتی ہیں، آج کل بہت سی بیماریاں بسیار خوری کے باعث پیدا ہورہی ہیں، بسیار خوری سے آدمی کا جسم بڑھتا ہے اور موٹاپے کی وجہ سے زیابطیس اور ہائی بلڈ پریشر جیسے امراض پیدا ہوتے ہیں، روزہ رکھ کر موٹاپے سے محفوظ رہا جاسکتا ہے، اور ان خطرناک بیماریوں پر قابو پایا جاسکتا ہے، مستقل کھانے سے آدمی کے جسم میں کچھ مضر چیزیں پیدا ہوجاتی ہے، جیسے گردے اور مثانے میں پتھری، بسا اوقات چربی کی تہہ موٹی ہوجاتی ہے ، کسی جگہ کا گوشت بڑھ جاتا ہے، بعض اعضاء پر ورم آجاتاہے، روزے سے ان تمام مضرِّ صحت عناصر پر قابو پانا ممکن ہے، عموماً نقرس کا مرض گوشت کے بہت زیادہ استعمال سے پیدا ہوتا ہے، رمضان کے روزے نقرس کے مرض سے محفوظ رکھنے میں بھی مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں، روزے سے جسم میں روغنیات کی مقدار ضروری سطح پر آسکتی ہے، اس وقت کو لسٹرول کی زیادتی مہلک بیماری تصور کی جاتی ہے، کیوں کہ زندگی میں آرام وراحت کی چیزیں زیادہ ہوگئی ہیں، مشقت کی عادت ختم ہوتی جارہی ہے، جسم کے اندر جو زائد چربی پیدا ہوتی ہے وہ بے عملی کے باعث اپنی جگہ بر قرار رہتی ہے، جس سے رگوں میں خون کی گردش میں خلل واقع ہوتا ہے، کولسٹرول کو معمول کی سطح پر لانے کے لیے روزے انتہائی مفید قرار دئے گئے ہیں۔
روزے سے جسم کا دفاعی نظام بھی مضبوط ہوتا ہے ، دفاعی نظام کا استحکام ہی انسان کو بہت سے امراض سے بچاتا ہے، مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم روزوں کو روزوں کی صورت میں رکھیں، بہت سے لوگ سحری میں اتنا کھالیتے ہیں کہ سارے دن ڈکاریں لیتے پھر تے ہیں، جسم میں تیزابیت کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے، اس کی تکلیف سے بے چین رہتے ہیں، لیکن سارے دن بھوکا رہنے کے خوف سے حلق تک ٹھونس لیتے ہیں۔ پھر افطار پر اس طرح ٹوٹ کر پڑتے ہیں گویا کبھی کھانا نصیب ہی نہیں ہوا تھا، اتنا کھاتے ہیں کہ مغرب کی نماز تو کیا عشاء کی نماز اور تراویح بھی صحیح طورپر ادا نہیں کرپاتے۔ اگرہمیں رمضان کے روحانی اورجسمانی فوائد حاصل کرنے ہیں تو کم کھانے کی عادت ڈالنی ہوگی، سحر وافطار میں بسیار خوری سے فرض تو ادا ہوجائے گا لیکن اس سے نہ ہمار ی روح کو کوئی فائدہ پہنچے گا، اور نہ جسم کوئی نفع اٹھا پائے گا۔qlq