عبدالماجد نظامی
صرف ایک دہائی قبل تک کون تصور کرسکتا تھا کہ ہمارا عزیز ملک ہندوستان جو دنیا بھر میں مہاتما گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد اور ستیہ کے لیے جانا جاتا رہا ہے، وہ ایک دن ایسے مقام پر پہنچ جائے گا جہاں تشدد کی آگ پورے ملک کو اپنی چپیٹ میں لے لے گی۔ اور تشدد بھی کس نام پر؟ دھرم کے نام پر، روحانیت کے نام پر اور ایک خاص قوم کو جگانے کے لیے کیا جائے گا۔ جس طریقہ سے ہر سال مسلمانوں کے عبادت خانوں اور خانقاہوں اور ان کی جائیدادوں کو خاص طور سے نشانہ بناکر تباہ کیا جاتا ہے اور ان کے مقدس عقائد و جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے مقصد سے ان کے محلوں میں لاؤڈ اسپیکر سے نازیبا نعرے بلند کیے جاتے ہیں اور ان کی عزت نفس کو چوٹ پہنچائی جاتی ہے، اس سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ جو عناصر اس قسم کی غیرمہذب اور غیر دستوری حرکتوں میں ملوث ہیں، انہیں سرکاری اداروں بطور خاص پولیس کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ جو کچھ کرتے ہیں اس کا ایک خاص سیاسی مقصد ہے۔ ان حرکتوں میں شامل ہونے والے گرچہ بھیڑ کی شکل میں آتے ہیں تاکہ جب ان کی کرتوت کے لیے انہیں سزا دینے کا وقت آئے تو آسانی سے یہ کہا جا سکے کہ وہ گمنام لوگ تھے اور کسی سیاسی پارٹی کا ان سے کوئی ناطہ نہیں ہے اور اس طرح ان کو بچانا آسان ہوجائے اور کوئی ذمہ داری طے نہ کی جائے۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے جب مبینہ ملزموں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے اور اسی لیے جرائم کا سلسلہ لگاتار بڑھتا جا رہا ہے۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں اسٹوڈنٹس پر حملہ کرنے والا بھی اسی قسم کا ایک جھنڈ تھا جو منظم منصوبہ بندی اور خاص سیاسی حمایت کی جلو میں کیمپس میں داخل ہوا تھا اور وہاں کے اسٹوڈنٹس کو پیٹ کر چلا گیا اور کسی بھی شخص کے خلاف کوئی کارروائی آج تک نہیں کی گئی۔ جامعہ میں تو ان تشدد پسندوں کے علاوہ خود پولیس نے بہیمانہ طریقہ سے لائبریری میں پڑھ رہے طلبا و طالبات کو لاٹھی اور ڈنڈوں سے نشانہ بنایا اور جو شخص بندوق لہراتا ہوا آیا اور مظاہرہ کرنے والے اسٹوڈنٹس پر پولیس کے سامنے بندوق تان دی، اس کے ساتھ جس ’انسانیت نوازی‘ کا سلوک پولیس نے کیا تھا، اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس اپنے سیاسی آقاؤں کے اشارے پر کام کرتی ہے اور اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں نہ صرف کوتاہ ثابت ہوتی ہے بلکہ جس قانون کی حفاظت کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے، اس سے پہلو تہی کرکے خود ایک مجرمانہ عمل میں ملوث ہوجاتی ہے۔ شمال مشرقی دہلی میں2020کے اندر بھی جو فسادات ہوئے وہ بھی اسی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ پولیس اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے جی چراتی ہے بلکہ خود فسادیوں کے ساتھ مل کر اقلیتی طبقہ کے لوگوں کو نشانہ بناتی ہے جیساکہ فیضان کے ساتھ کیا گیا تھا۔ اب اس سال رام نومی کے موقع پر جو کچھ دیکھنے کو ملا ہے، اس سے تو تقریباً پورے طور پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ تشدد اور مظالم کا نشانہ مسلم اقلیت کو بنانا ایک بنیادی مقصد ہے جس کا مظاہرہ ملک گیر سطح پر ہوا ہے۔ بہار شریف، مغربی بنگال، جھارکھنڈ، گجرات اور بھوپال ہر جگہ تشدد کا کھلا تماشہ جاری تھا۔ لیکن بہار شریف اور سہسرام میں جس انداز سے اقلیتوں کے عبادت خانے، ان کے مدارس اور خانقاہوں کو نشانہ بنایا گیا اور جس منظم ڈھنگ سے تاریخی مدرسہ عزیزیہ کو نذر آتش کیا گیا، اس سے واضح ہے کہ وہ نہیں چاہتے کہ اس ملک میں مسلمانوں کی کوئی مذہبی اور ثقافتی علامت باقی رہے۔ وہ ہر حال میں مسلمانوں کو دوسرے بلکہ تیسرے درجہ کا شہری بنانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ مغل تاریخ کو مٹاکر آئندہ نسل کے دماغ میں یہ تصور بٹھانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہاں کی تاریخ صرف ہندوؤں کی تاریخ رہی ہے اور اسی لیے ان کے علاوہ کسی دوسری تاریخ کو نہ تو سمجھنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی مسلم تاریخ سے کچھ سیکھنے کی حاجت ہے۔ ایسا کرنا اس لیے بہت خطرناک ہے کیونکہ یہ فکری تشدد کے زمرہ میں آتا ہے۔ جہاں ایک طرف مسلمانوں کی جان و مال، عزت و آبرو اور ان کی تہذیبی علامتوں پر حملے کرکے ختم کیا جا رہا ہے وہیں دوسری طرف فکری جارحیت اور تشدد کے ذریعہ ان کی تاریخ کو مٹایا جا رہا ہے تاکہ مسلمان اقلیت کو ہندو اکثریت کے رحم و کرم پر جینے کے لیے مجبور کیا جائے یا پھر مسلمان اپنی تمام ثقافتی علامتوں سے خود دستبردار ہوجائے تاکہ اس ملک میں ہندو بن کر جینے کو قبول کرلے۔ یہ اشارہ دین دیال اپادھیائے کی تحریر میں موجود ہے۔ C. P. Bhishkar نے دین دیال اپادھیائے پر لکھی اپنی کتابPandit Deendayal Upadhyay- Ideology and Perception- Part 5: Concept of the Rashtra میں ان کے نظریہ کو بیان کرتے ہوئے ان کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اپادھیائے کا کہنا تھا کہ ’’ایسے حالات پیدا کیے جائیں گے جن کے تحت ہندوستان میں اسلام کے سیاسی مقاصد کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔ کیونکہ جب تک ایسا نہیں کیا جائے گا تب تک تہذیبی وحدت کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ اور چونکہ مہاتما گاندھی جیسے لیڈران جو ملک میں اتحاد و یگانگت کا تصور اس طرح پیش کرتے تھے کہ ہر مذہب و ملت کے لوگ مل کر ایک وحدت قائم کریں گے، اس لیے انہیں دشمن مانا گیا اور ان کا قتل کر دیا گیا۔ یہ بھی کتنا عجیب سوء اتفاق ہے کہ مغل تاریخ کو نصاب سے ہٹانے کے ساتھ ساتھ خود گاندھی کے قتل سے متعلق جملہ کو بھی ایسے وقت میں ہٹایا گیا ہے جب بہار شریف میں تشدد کی آگ بھڑکی ہوئی تھی۔ یہ وہی بہار شریف ہے جہاں 1946 میں تقسیم ہند کے وقت جب ہندوؤں نے مسلمانوں کا قتل کرنا شروع کیا تو گاندھی جی نوا کھلی سے وہاں پہنچے اور تشدد کی آگ بجھائی اور جو لوگ اس میں شامل تھے انہوں نے توبہ کی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم رکھنے کا وعدہ کیا۔ آج کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ نفرت اور تشدد کی اس آگ کو بجھانے کے لیے گاندھی جی جیسا کوئی جرأتمند لیڈر نہیں ہے۔ مسلمانوں کا معاملہ یہ ہے کہ بیچارے ان کے لیڈران کبھی بھاگوت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں تو کبھی وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا تاکہ ان کے خلاف جاری اس بہیمیت کا سلسلہ رک جائے لیکن زمین پر اس کا کوئی اثر نظر نہیں آتا۔ اس کے برعکس ان کے خلاف تشدد کا ماحول بڑھتا ہی جاتا ہے۔ اور اندازہ یہ ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہی ہوگا کیونکہ کرناٹک کے بعد دوسری ریاستوں میں بھی انتخابات ہونے والے ہیں اور پھر اس کے بعد 2024 کا عام انتخاب آنے والا ہے۔ اس پوری مدت میں مسلم اقلیت کو نہ صرف نشانہ بنایا جائے گا بلکہ ہر روز انہیں دشنام طرازی کا شکار ہونا پڑے گا۔ ان کے جگر کے ٹکڑے ہوں گے اور انہیں ناکردہ جرائم کی سزا ملتی رہے گی۔ کیونکہ انہیں حاشیہ پر ڈالنے بلکہ انہیں ان کی اوقات میں رکھنے سے ہندوتو کی سیاست کو مزید ترقی نصیب ہوگی۔ اگر ایسا کرنے سے ملک کی روح مجروح ہوتی ہے تو فکر کون کرتا ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]