پڑوس میں نئے ’دشمن‘ کی آہٹ!

0

گزشتہ؍ 15 اپریل کو طالبان کے کمانڈر حاجی حکمت نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ ہم نے جنگ جیت لی ہے اور امریکہ جنگ ہار چکا ہے۔ اور اب چار ماہ بعد حکمت کی کہی یہ بات کافی حد تک صحیح ثابت ہوچکی ہے۔ طالبان نے افغانستان کی بڑی زمین پر کلین سوئپ کرلیا ہے۔ طالبان کا جھنڈا اب افغانستان کے 75فیصد سے زیادہ علاقوں پر لہرا رہا ہے۔ ایک کے بعد ایک صوبوں پر طالبان کا قبضہ ہورہا ہے اور چوطرفہ افراتفری کا ماحول ہے۔ قندھار، ہرات جیسے بڑی شہروں میں مقامی انتظامیہ نے طالبان کے سامنے سرینڈر کردیا ہے۔ دہشت میں گھرے افغانی عوام نے یا تو خود کو گھروں میں قید کرلیا ہے یا محفوظ بچے ملک کے اکیلے بڑے شہر کابل میں پناہ لے رکھی ہے۔ اس سے کابل اب ملک کی راجدھانی کے ساتھ ہی پناہ گزینوں کی راجدھانی بھی بن گیا ہے۔
جمعرات کو افغانستان کی منتخب حکومت نے قطر کی ثالثی میں طالبان سے بات چیت کی اور اسے تشدد چھوڑنے کی شرط پر اقتدار میں حصہ داری کا بھی آفر دیا، لیکن صدر اشرف غنی کی رخصتی پر بضد طالبان نے یہ پیش کش ٹھکرا دی۔ ادھر اشرف غنی نے استعفیٰ دینے سے صاف انکار کردیا ہے اور آخری سانس تک جنگ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔
طالبان نئی جگہوں پر قبضہ جمانے کے ساتھ ہی اپنی فوج میں بھی اضافہ کرتے جارہے ہیں۔ افغانستان سے ایسی خبریں موصول ہورہی ہیں کہ طالبان جن مقامات پر جیت رہے ہیں، وہاں بند قیدیوں کو ہتھیار تھماکر اپنے ساتھ جوڑ رہے ہیں۔ واپس لوٹتے امریکی فوجی اور طالبان کے حملے سے بھاگتی افغانی فوج اپنے پیچھے بڑی تعداد میں ہتھیار چھوڑ رہی ہے، جن پر طالبان قبضہ کررہے ہیں۔ کچھ وقت پہلے تک تو حالت یہ بتائی جارہی تھی کہ طالبان کے پاس جنگجوؤں سے زیادہ ہتھیار ہوگئے تھے۔ لیکن اب طالبان نے اس محاذ پر بھی اپنی پوزیشن مضبوط کرلی ہے۔ پاکستان سے جیش اور لشکر کے علاوہ برطانوی جہادی بھی طالبان کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے افغانستان پہنچ گئے ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ اب کابل کسی بھی وقت طالبان کے قبضہ میں آسکتا ہے۔
افغانستان کی یہ صورت حال ہندوستان کے لحاظ سے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ ملک کی شمالی سرحد پر چین اور پاکستان تو پہلے ہی سے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ اشرف غنی حکومت کے رہتے ہوئے ہندوستان افغانستان سے ملحق سرحد سے متعلق مطمئن رہتا تھا، لیکن طالبان کے آنے سے اب اس علاقہ میں ہند-مخالف ایک تیسرا محاذ بھی کھل سکتا ہے۔ بھلے ہی طالبان کہہ رہے ہوں کہ ہندوستان کو ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان کی حرکتیں کچھ اور ہی اشارہ کررہی ہیں۔ صوبہ ہرات میں سلمیٰ ڈیم پر قبضہ اور وہاں کے ہندحامی گورنر اسمٰعیل خان کو سرینڈر کرنے کے لیے مجبور کرکے اپنے پالے میں لاکر طالبان نے کافی اشارے دے دیے ہیں کہ آنے والے دن کیسے ہوں گے؟ سلمیٰ ڈیم نہ صرف افغان اور ہندوستان حکومت کی دوستی کی ایک بڑی علامت ہے، بلکہ یہ افغانستان میں ہندوستان کا سب سے مہنگا منصوبہ بھی ہے۔ اسے ملاکر ہندوستان نے افغانستان کی تعمیرنو میں 22ہزار کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ افغانستان کے پارلیمنٹ ہاؤس اور شہتوت ڈیم سمیت کل 500چھوٹے-بڑے منصوبوں میں ہندوستان نے سرمایہ کاری کی ہے۔ اقتدار میں طالبان کے آنے کا مطلب ہندوستان کی سرمایہ کاری پر تلوار کے لٹکنے جیسا ہوگا۔ ہندوستان ایران کی چاہ بہار بندرگاہ سے افغانستان کے دیلارم تک کے سڑک منصوبہ پر بھی کام کررہا ہے۔ اگر افغانستان کے راستے ہمارا ایران سے رابطہ منقطع ہوجاتا ہے تو چاہ بہار پورٹ میں سرمایہ کاری ہمارے کسی کام کی نہیں رہے گی اور وسطی یوروپ کے ساتھ کاروبار کے حکومت ہند کے منصوبہ پر بھی پانی پھر سکتا ہے۔
اس سے بھی بڑا خطرہ اسٹرٹیجک اور حکمت عملی کے محاذ پر نظر آسکتا ہے۔ سب سے بڑی تشویش اس بات کی ہے کہ طالبان پاکستان کے اکسانے اور اس کے تعاون سے کشمیر میں ہمارا سردرد بڑھا سکتا ہے۔ طالبان کو اس کے لیے خود پی او کے پار کرکے ہندوستانی سرحد میں داخل ہونے کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ وہ یہ کام کشمیر کی علیحدگی پسند طاقتوں کو سرگرم کروا کر بھی کرسکتا ہے۔

افغانستان کی یہ صورت حال ہندوستان کے لحاظ سے بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ ملک کی شمالی سرحد پر چین اور پاکستان تو پہلے ہی سے گھات لگائے بیٹھے تھے۔ اشرف غنی حکومت کے رہتے ہوئے ہندوستان افغانستان کے تعلق سے مطمئن رہتا تھا، لیکن طالبان کے آنے سے اب اس علاقہ میں ہند-مخالف ایک تیسرا محاذ بھی کھل سکتا ہے۔ بھلے ہی طالبان کہہ رہے ہوں کہ ہندوستان کو ان سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن ان کی حرکتیں کچھ اور ہی اشارہ کررہی ہیں۔

ادھر پاکستان اور چین دنیا کے لیے آفت کی شکل لے رہے اس خطرے میں بھی مواقع تلاش کررہے ہیں۔ پردے کے پیچھے سے پاکستان طالبان کو اس لیے سپورٹ کررہا ہے، تاکہ ’چھینکا ٹوٹنے‘ پر وہ طالبان کو ہندوستان کے خلاف استعمال کرسکے۔ طالبان کے ہتھیاروں پر میڈ ان پاکستان کی مہر کا دعویٰ اس کی سازشوں کا سب سے تازہ انکشاف ہے۔ ادھر چین طالبان سے اس لیے بغل گیر ہونے میں مصروف ہے تاکہ سی پیک پروجیکٹ کو آگے بڑھاکر وہ ہندوستان کے خلاف اسٹرٹیجک سبقت حاصل کرسکے۔ شی نجیانگ میں سرگرم علیحدگی پسند تنظیم اور اویغور مسلمانوں کے تعلق سے وہ طالبان کے ساتھ ایک سمجھوتہ کرنے میں کامیاب بھی ہوا ہے۔
حالاں کہ پاکستان اور چین، دونوں کے لیے طالبان کو بڑھاوا دینا اپنے پیروں پر کلہاڑی مارنے جیسا بھی ہوسکتا ہے۔ بالخصوص پاکستان کے لیے تو سکیورٹی کے ساتھ ساتھ اس کا معاشی پہلو بھی ہے۔ عمران خان کو چیلنج تحریک طالبان سے مل سکتا ہے، جسے پاکستانی طالبان بھی کہا جاتا ہے اور جس کا پاکستان کی فوج سے ٹکراؤ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ تحریک طالبان کا افغانستان سے ملحق سرحدی علاقوں میں خاصا اثر بتایا جاتا ہے۔ افغان طالبان مضبوط ہوں گے تو ٹی ٹی پی کے اثر اور حوصلے دونوں میں اضافہ ہوگا۔ وہ پاکستان میں اڈہ بنائے بیٹھی دہشت گرد تنظیموں کو پاکستان کے خلاف بھی متحرک کرسکتے ہیں۔ اس سے ایک طرف پاکستان کی سکیورٹی خطرے میں پڑے گی، وہیں دوسری طرف گرے لسٹ سے نکلنے کی کوششوں پر جھٹکا لگنے سے پہلے ہی خستہ حال پاکستان مزید کنگال ہوجائے گا۔ ادھر چین کے لیے بھی طالبان کے جنون کو سہلانا مجبوری بن سکتا ہے، کیوں کہ وہ ہمیشہ شی نجیانگ میں استحکام سے متعلق افغانستان میں چین کی بھاری بھرم سرمایہ کاری کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔
ان سب کے دوران افغانستان سے متعلق امریکہ سمیت دہشت گردی کو نیست و نابود کرنے کی ڈینگیں ہانکنے والے کئی ممالک کی لاپروائی حیران کرنے والی ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہوا ہے، اس کے لیے یقینا وہاں کی حکومت تو قصوروار ہے ہی، امریکہ سمیت ناٹو میں شامل ملک بھی کم قصوروار نہیں ہیں۔ فوج کی واپسی سے متعلق طالبان کی طاقت کا اندازہ لگانے میں ان کی انٹلیجنس پوری طرح فیل ہوئی ہے۔ حال ہی میں امریکہ نے ایک خفیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ طالبان تین ماہ کے اندر راجدھانی کابل پر قبضہ کرسکتے ہیں۔ لیکن طالبان نے امریکی سوچ سے کہیں پہلے افغان حکومت کو پست کردیا ہے۔ یہاں تک بھی ٹھیک تھا، لیکن اب طالبان کو کنٹرول کرنے کے بجائے امریکہ نے خود کو سلیکٹڈ ہوائی حملوں تک محدود کرلیا ہے، اور اب وہ کہہ رہا ہے کہ افغانستان میں کچھ بھی کرنے کے لیے بہت دیر ہوچکی ہے۔ الٹے اس نے دوحہ میں طالبان نمائندہ سے غیرملکی مدد کے عوض امریکی سفارتخانہ پر حملہ نہ کرنے کی گارنٹی لے لی ہے۔ جو حالات بن رہے ہیں، اس سے تو یہ بھی لگ رہا ہے کہ طالبان 31اگست تک امریکی فوج کی پوری طرح سے واپسی سے پہلے ہی کابل میں اپنا جھنڈا نصب کردیں گے۔ شاید اسے ہی دیکھتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ نے اپنے سفارت کار کو کابل سے نکالنے کے لیے آناًفاناً میں اپنے 3ہزار فوجی افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ غنی حکومت کی طالبان کو بات چیت کی پیش کش اور امریکہ کی یہ کارروائی اتنا بتانے کے لیے کافی ہیں کہ افغانستان میں اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جارہا ہے۔ ہندوستان کے لیے اب یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اونٹ کی یہ ’کروٹ‘ ملک کے ماتھے پر کتنی نئی ’سلوٹ‘(شکن) لاتی ہے؟
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS