امن کی بحالی کیلئے مسئلۂ فلسطین کا حل لازمی : عبدالماجد نظامی

0

عبدالماجد نظامی

تشدد کی فضاء خواہ کہیں بھی پیدا ہو وہ مسموم ہی ہوتی ہے اور اس کے دھوئیں سے اٹھنے والے سیاہ بادل سے صرف بدامنی و بے چینی اور انتشار و افتراق کی ہی بارش ہوتی ہے۔ گزشتہ ایک ہفتہ سے مشرق وسطیٰ کی فضاء ایسے ہی تعفن آمیز واقعات سے پُر نظر آتی ہے۔ حماس نے7اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کرکے نہ صرف ایک ہزار سے زائد اسرائیلیوں کو قتل کر ڈالا بلکہ سو سے زیادہ اسرائیلیوں اور فوج کے عناصر کو یرغمال بناکر اپنے ساتھ غزہ بھی لے گئے۔ اس واقعہ نے دنیا بھر میں اسرائیل کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے اور خاص طور سے اس کے انٹلیجنس کے نظام کی کمزوری کی پول کھول کر رکھ دی ہے۔ انٹلیجنس کے محاذ پر اسرائیل کی ناکامی کے اثرات بہت طویل مدت تک محسوس کیے جائیں گے اور غزہ پر جاری وحشیانہ بمباری کا سلسلہ جب رکے گا اور اس ناکامی کے لیے ذمہ دار افراد اور اداروں کا محاسبہ ہوگا تو جن لوگوں پر اس کوتاہی کی ذمہ داریاں ثابت ہوں گی، انہیں اس کی بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ لیکن فی الحال اس نئی جنگ کی قیمت سب سے زیادہ فلسطینی معصوم ادا کر رہے ہیں جن پر اسرائیل جنونی بمباری کر رہا ہے اور ان مقامات تک کو بھی اپنے جنگی جنون کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آ رہا ہے جن پر پہلے حملے نہیں کیے جاتے تھے۔ ان مقامات میں غزہ کی مسجدیں، اسکول اور اسپتال شامل ہیں۔ پہلے ان جگہوں پر لوگ پناہ لیتے تھے کیونکہ انہیں یقین ہوتا تھا کہ وہاں وہ حملوں سے محفوظ رہیں گے۔ اس بار نوعیت بالکل مختلف ہے۔ اسرائیل نئے دور کا یزید بن کر ابھرا ہے جس نے علانیہ طور پر یہ کہہ دیا ہے کہ غزہ کو نہ تو پانی نصیب ہوگا اور نہ ہی بجلی و ایندھن، نہ ہی خورد و نوش کی اشیاء کی فراہمی کی جائے گی۔ ویسے بھی گزشتہ ڈیڑھ دہائی سے غزہ پر اسرائیل کا مکمل حصار قائم ہے اور کوئی چیز یا انسان اس کی اجازت کے بغیر نہ وہاں سے نکل سکتا ہے، نہ وہاں داخل ہوسکتا ہے۔ یہ دنیا کی ایک کھلی جیل ہے جہاں بیس لاکھ سے زائد انسان رہتے ہیں لیکن ان کے تمام تر حقوق کو اسرائیل نے اپنے پاؤں تلے روند رکھا ہے۔ اسرائیل کی اس پالیسی کو امریکہ و مغرب کی کھلی حمایت حاصل ہے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ اقوام متحدہ جیسا عالمی ادارہ ہے، انٹر نیشنل کریمنل کورٹ ہے اور جس دور کو علم و ثقافت اور انسانی ترقی کا سب سے بہتر عہد تصور کیا جاتا ہے اور اسرائیل خود کو اس عالمی نظام کا ایک مضبوط ممبر تصور کرتا ہے، ایسے دور میں فلسطینیوں کو غیر انسانی حالات اور ناقابل برداشت پابندیوں کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور تقریباً پوری مغربی دنیا اس پر نہ صرف خاموش تماشائی بنی رہتی ہے بلکہ جب کبھی حماس جیسے حملے پچاس سال میں ایک بار ہوجاتے ہیں تو اچانک انہیں انسانی حقوق کے سارے اصول یاد آ جاتے ہیں اور اس کو بہانہ بناکر فلسطینیوں پر مزید مظالم ڈھائے جانے کو جائز قرار دیتے ہیں اور اسرائیل کو ہر طرح کی مدد اور حمایت کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ کیا فلسطین کے مسئلہ کو انصاف کی روشنی میں حل کرنا عالمی برادری کی ذمہ داری نہیں ہے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک طرف مغرب اپنی اعلیٰ انسانی قدروں کی باتیں کرے اور دوسری طرف انہی قدروں کی پامالی کے واقعات سے پورے طور پر چشم پوشی کرے بلکہ ان کی پامالی میں ساجھے دار اور شریک بن جائے۔ اگر حماس کے حملہ میں مارے گئے لوگوں کے حقوق کا دفاع کیا جانا ضروری ہے تو کیا غزہ اور ویسٹ بینک کے فلسطینیوں کے حقوق کی پامالی پر اتنی ہی سنجیدگی اور قوت کے ساتھ آواز اٹھانا اور ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہر مہذب معاشرہ کی ذمہ داری نہیں ہونی چاہیے؟ اسرائیل نے جتنی بار غزہ پر جنگ تھوپی ہے، ہر بار اس جنگ کا شکار زیادہ تر بچے اور خواتین نہیں ہوئے ہیں؟ ان معصوموں کی تباہ ہورہی زندگیوں کی ذمہ داری کون قبول کرے گا؟ اس سے قبل ایمنسٹی انٹرنیشنل اور اسرائیل کی تنظیم بیت سلیم کی رپورٹیں موجود ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔ آخر اسرائیل پر ان جنگی جرائم کے لیے مقدمہ چلا کر اس کو اپنے کیے کی سزا کیوں نہیں دی جاتی ہے؟ اگر حماس کے حملوں کی مذمت ضروری ہے تو اس بات پر توجہ کیوں نہیں دی جاتی کہ فلسطینیوں کو اپنے علاقوں سے نکلنے کے لیے پانچ سو سے زائد اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اسپتالوں تک مریضوں کو بھی اس وقت تک نہیں پہنچایا جا سکتا جب تک اسرائیل اس کی اجازت فراہم نہ کر دے۔ اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر جو اقتصادی پابندی عائد ہے، اس کی وجہ سے معاش کے سارے دروازے بند ہیں۔ وہاں کی اکثریت کو اقوام متحدہ کی جانب سے جو امداد فراہم کی جاتی ہے، اسی پر ان کا گزارہ ہوتا ہے۔ عرب ایک غیور قوم ہے جس کو ایسی ذلت پر جینے کے لیے گزشتہ75سالوں سے مجبور کیا جا رہا ہے۔ یہ غیور قوم جس نے یہودیوں کو اس وقت بھی پناہ دی تھی جب دنیا بھر میں اور خاص طور سے عیسائی دنیا میں اسے کتوں سے زیادہ ذلیل سمجھا جاتا تھا اور ان کے ساتھ تمام قسم کی بدسلوکیوں کو جائز سمجھا جاتا تھا، آج خود انہی عربوں کے ساتھ ان کا ایسا برتاؤ ہے جس کو کوئی بھی مہذب شخص برداشت نہیں کرسکتا۔ مغربی دنیا کے لیڈران اور وہاں کی صحافت خواہ کتنا ہی اسرائیل کی مظلومیت کا ڈھنڈورہ پیٹے اور فلسطینیوں کے دکھ درد کو اپنے میڈیا سے غائب کرکے ہر طرف صرف اسرائیل کے درد کو پھیلاتا رہے لیکن پھر بھی یہ حقیقت دنیا کے سامنے آشکارہ ہو ہی جاتی ہے کہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی شدت کس قدر زیادہ ہے۔ اس بات کا اندازہ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا جیسے ملکوں میں نکلنے والی فلسطین حامی ان ریلیوں سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جن میں اسرائیلی پالیسیوں کی پول کھول دی جاتی ہے۔ جہاں تک فلسطین معاملہ پر مسلم اور عرب دنیا کا تعلق ہے تو بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں میں بالکل آزاد نہیں ہے اور اسی لیے خواہش کے باوجود فلسطین مسئلہ پر روایتی مذمتی بیانات کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتی ہے۔ عربوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرکے امریکی غلامی کا طوق اپنے گلے سے نکال پھینکیں اور ایک غیور و آزاد قوم کی طرح پوری جوانمردی کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوں اور مسئلۂ فلسطین کو حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کریں۔ اسرائیل کے ساتھ مصالحت کی دوڑ میں شامل ہونا اس مسئلہ کو کبھی حل نہیں کر پائے گا۔ انہیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ جب تک قضیۂ فلسطین کا مبنی بر انصاف حل نہیں نکلتا ہے تب تک ایک پرامن مشرق وسطیٰ کا تصور بھی محال ہے۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS