صومالیہ، یمن اور عراق سے مختلف ہیں شام کے حالات

0

لوگ کبھی دمشق کی گلیوں کو دیکھنے کے لیے شام جایا کرتے تھے، حلب میں تاریخ کے نقوش تلاش کیا کرتے تھے مگر آج شام ویران ہے۔ اس کے کئی محلے انسانوں سے غیر آباد ہیں۔ اس کے کھیتوںسے بارود کی بو آتی ہے۔ اس کی ندیوں کے پانی میں بارود گھل گیا ہے۔ اس کی زمین پر جا بجا انسانوں کے خون کے دھبے ہیں۔ اس کے باوجود سرزمین شام امن سے دور ہے۔ وہ امن سے دور کیوں ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے جاننے کی کوشش یہ کرنی چاہیے کہ کیا دنیا کے اور ممالک کے حالات بھی شام کی طرح ہی خراب ہوئے ہیں۔ بالکل خراب ہوئے ہیں۔ کئی ممالک بڑی طاقتوں کی پراکسی وار کا میدان بنے ہیں۔ 1991 میں سیاد بری کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد صومالیہ تین حصوں میں بٹ گیا۔ اس کا وہ حصہ جو صومالیہ کہلاتا ہے، اس پر قبضے کے لیے بارسوخ لوگوں اور اسلامک کورٹس یونین کے لوگوں کے مابین باضابطہ مسلح جنگ ہوتی رہی۔ بارسوخ لوگوں کو ایتھوپیا کی حمایت تھی اور ایتھوپیا کی پشت پر امریکہ تھا تو اسلامک کورٹس یونین کے لوگوں کو اریٹریا کی حمایت حاصل تھی، اس لیے جنگ صومالیہ کے صرف بارسوخ لوگوں اور اسلامک کورٹس یونین کے لوگوں کے مابین ہی نہیں تھی اور اسی لیے وہاں امن بحال کرنا مشکل تھا، البتہ ایتھوپیا اور اریٹریا کے مابین تعلقات کی استواری کا اثر صومالیہ پر بھی پڑا مگر ایک بار جو ملک تشدد سے متاثرہو جاتا ہے، وہاں امن بحال کرنا آسان نہیں ہوتا۔
یمن کی باگ ڈور کئی دہائیوں تک علی عبداللہ صالح کے ہاتھوں میں رہی۔ وہ عرب ملکوں کے قریبی سمجھے جاتے تھے، اس لیے انہیں ان کی پوری حمایت ملتی رہی۔ دوسری طرف یہ بات کہی جاتی رہی کہ حوثیوں کی پشت پر ایران ہے۔ حوثیوں کی مسلح جدوجہد حکومت کے لیے مسئلہ بنی ہوئی تھی کہ القاعدہ وہاںاپنی موجودگی کا احساس دلانے لگی۔ تیونس سے شروع ہوئے عوامی احتجاج کا اثر یمن پر بھی پڑا، حالات کو دیکھتے ہوئے علی عبداللہ صالح کا ساتھ عرب ملکوںنے چھوڑا تو وہ ایران کی طرف چلے گئے۔ داعش نے بھی یمن میں سر ابھارا۔ حالات بگڑتے ہی چلے گئے مگر سعودی عرب کی جنگ نے حالات اور خراب بنا دیے۔ سمجھا جاتا ہے کہ یمن میں سعودی عرب کے خلاف حوثی نہیں لڑ رہے، بالواسطہ طور پر ایران لڑ رہا ہے۔
صومالیہ اور یمن کی طرح سوڈان کے حالات بھی برسوں سے خراب ہیں، پہلے اس کے جنوبی حصے میں خانہ جنگی چھڑی اور اس کی وجہ سے نیا ملک جنوبی سوڈان وجود میں آیا، اس کے بعد اس کے مغربی حصے میں خانہ جنگی چھڑی۔ اس خانہ جنگی میں بھی بڑی تعداد میں لوگ مارے گئے مگر خانہ جنگی اورجنگ کے باوجود ان سبھی ملکوں کے حالات اتنے خراب نہیں ہوئے جتنے خراب شام کے حالات ہیں۔ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟ یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی کوئی ایک وجہ نہیں ہے۔ شام کا محل وقوع شاندار ہے۔ اپنے محل وقوع کی وجہ سے اس کی اہمیت ہمیشہ سے رہی ہے۔ اسرائیل کے وجود میں آنے کے بعد اس کی اہمیت میں اوراضافہ ہوا ہے۔ ایران میں انقلاب آنے کے بعد اس کے تعلقات عرب ملکوں سے خراب ہوئے تو شام کی اہمیت اور بڑھ گئی، اس میں کچھ اور اضافہ ایران کے ایٹمی تنازع کی وجہ سے ہوا۔ لبنان میں جنگجوؤں کی تنظیم حزب اللہ نے اسرائیل کو طاقت دکھانے میں کامیابی حاصل کی تویہ سمجھا گیا کہ اس کی پشت پر ایران اور شام ہیں۔ فلسطین کی حماس کے بارے میں بھی یہی سمجھا جاتا رہا ہے کہ اس کی پشت پر ایران اور شام ہیں۔ مطلب یہ کہ شام کے بارے میں یہ سمجھا جاتا رہا کہ اس خطے میں وہ ایران کے دائرۂ اوثر کو پھیلانے میں اہم رول ادا کرتا ہے، اس لیے شام سے عرب ملکوں اور اسرائیل کی خصوصی دلچسپی رہی ہے۔ عرب لیڈروں کی یہ کوشش رہی ہے کہ کسی طرح بشار اقتدار کی باگ ڈور چھوڑیں۔
شام کے سربراہ بشارالاسد کے روسی سربراہ ولادیمیر پوتن سے مستحکم تعلقات رہے ہیں، چنانچہ روس کے بھی شام سے اچھے تعلقات رہے ہیں۔ ظاہر ہے، یہ تعلقات امریکہ کو پسند نہیں آسکتے تھے اور شام سے اس کی دلچسپی کا ہونا بھی فطری تھا۔ شام سے ترکی بھی دلچسپی لینے پر مجبور رہا ہے۔ اس کی دو اہم وجہیں ہیں۔ پہلی یہ کہ ترکی ترک علیحدگی پسند کردوں سے پریشان رہا ہے اور اس کے لیے یہ نظرانداز کرنا مشکل رہا ہے کہ شام میں بڑی تعداد میں کرد ہیں، خانہ جنگی کے بہانے ان کردوں کو اگر مسلح کر دیا گیا تو اس سے ترک کردوں کی علیحدگی پسندی کا مسئلہ اور سنگین ہو جائے گا۔ شام سے ترکی کے دلچسپی لینے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ وہاں کے حالات خراب ہونے پر سب سے زیادہ شامی مہاجرین نے ترکی کا ہی رخ کیا، اس سے اس پر مالی بوجھ پڑنے اور اس کے حالات خراب ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا۔ اگر ایک جملے میں شام کے بارے میں کہا جائے تو وہ عالمی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی وار کا میدان بن گیا ہے، اس لیے وہاں امن بحال کرنا بہت مشکل ہے۔ امن اسی صورت میں بحال ہوگا جب لوگ نظریے، مسلک اور نسل پرستی سے اوپر اٹھ کر صرف شامی بن کر اپنے ملک میں امن بحال کرنے کی کوشش کریں گے۔ فی الوقت یہ صورت حال نظر نہیں آتی اور مستقبل قریب میں ایسا لگتا بھی نہیں کہ ایسی صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں عراق کی مثال سامنے ہے۔ امریکہ اور اتحادی فوجیوں نے جب حملہ کیا تھا تو عراق کے خودمختار علاقے کردستان کے بیشتر حصے میں امن تھا، کیونکہ وہاں کے لوگوں نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف لڑنے کے بجائے آزاد کردستان کی کوشش کی تھی۔ باقی کے عراق بڑی حد تک متحد تھے مگر امریکہ کے جنگ ختم کرنے کے بعد وہاں لوگ آپس میں ہی لڑنے لگے اور یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ آج عراق اسی طرح پرامن ہے جیسے صدام حسین کے زمانے میں تھا، اس لیے شام کے سلسلے میں پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہاں خانہ جنگی کب ختم ہوگی اور دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا خانہ جنگی ختم ہو جانے کے بعدمکمل امن بحال کرنا آسان ہوگا۔ فی الوقت ان دونوں کا جواب نہیں ہے۔ دنیا کے بدلتے حالات کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ شام کے حالات اور بدلیں گے مگر امید اس بات کی بھی ہے کہ آنے والے وقت میں شام کے لوگ علاقے کے امن پسند لوگوں کی بے چینی دور کرنے اور عالمی امن کے قیام میں لیے اہم رول ادا کریں گے۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS