بدل گئے حالات،چھوڑنا پڑا بشار کو شام: محمد عباس دھالیوال

0

محمد عباس دھالیوال

شام ایک بار پھرسرخیوں میں ہے۔ اس کی وجہ دو دہائی سے زیادہ عرصے سے بر سر اقتدار صدر بشار الاسد کا شام سے فرار ہو جانا ہے تو وہیں ان کے خلاف لڑ رہی فورسز حیات تحریر الشام کا شام کے بڑے شہروں پر قابض ہونا ہے۔ شام کی تازہ ترین صورتحال پر بات کریں تو گزشتہ کئی برسوں سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے صدر بشار الاسد کی پوزیشن کمزور ہو گئی تھی جبکہ خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد کے کئی برسوں تک ان کی پوزیشن مستحکم رہی تھی۔ بیشتر عرب ممالک یہ سمجھنے لگے تھے کہ بشارالاسد کو اقتدار سے ہٹانا مشکل ہے۔ اسی وجہ سے ان سے شام کے تعلقات معمول پر آنے لگے تھے لیکن اس وقت نہ یوکرین جنگ جاری تھی، نہ ہی غزہ جنگ۔ بشار حکومت کو روس کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ایران کی بھی اسے مدد حاصل تھی مگر فروری 2022 میں یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد سے روس الجھتا چلا گیا۔ امریکہ اور اس کے یوروپی اتحادی یوکرین کی مدد کرنے لگے۔ ایسی صورت میں روس کے لیے یہ ممکن نہیں رہ گیا تھا کہ وہ پہلے کی طرح شام کی مدد کر پاتا۔ غزہ جنگ اور اسرائیل سے ٹکراؤ کی وجہ سے ایران کے لیے بھی شام کی بشار حکومت کی زیادہ مدد کر پانا مشکل ہو گیا تھا۔ ان حالات میں بشارالاسد کی پوزیشن کمزورہونا کوئی حیرت کی بات نہیں تھی، البتہ شام کے حالات جتنی تیزی سے بدلے،وہ ضرور حیرت کی بات ہے۔ شام میں اپوزیشن اتحاد کی قیادت کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ’عظیم شامی انقلاب جدوجہد کے مرحلے سے آگے بڑھ کر اسد حکومت کو اقتدار سے باہر کر دینے میں کامیابی کے مرحلے تک پہنچ چکا ہے۔ اب اگلا مرحلہ یہ ہو گا کہ مل جل کر ایک ایسے نئے شام کی تعمیر کی جائے جو وہ شام ہوجس کے لیے شامی عوام کی طرف سے قربانیاں دی گئی ہیں۔‘

روس کی شام میں سرگرمی کے بارے میں پتہ نہیں ہے، البتہ بشارالاسد روس گئے ہیں۔ وہیں انہیں پناہ ملی ہے۔ شام سے ایران، ترکیہ اور اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی بھی دلچسپی رہی ہے۔ بشارالاسد کے شام چھوڑنے کے بعد امریکی محکمۂ دفاع پنٹاگن کی طرف سے یہ بیان آیا ہے کہ امریکہ مشرقی شام میں اپنی فوجی موجودگی آئندہ برقرار رکھے گا تاکہ دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کو دوبارہ سر اٹھانے سے روکا جا سکے جبکہ نو منتخب امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ شام کے حالات میں امریکہ کو بہت زیادہ الجھانے کے حق میں نہیں رہے ہیں۔ بشارالاسد کے اقتدار سے ہٹا دیے جانے اور ان کے روس چلے جانے کے بعد بھی ٹرمپ نے اسی موقف کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کو شام کی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے، تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے سامنے اب ایک نیا مشرق وسطیٰ ہے۔ صدر کا حلف لے لینے کے بعد انہیں حالات کی مناسبت سے ہی فیصلے لینے ہوں گے۔ اسرائیل کی شام پر بمباری کو دیکھتے ہوئے یہی لگتا ہے کہ ٹرمپ کے لیے موقف پر قائم رہنا مشکل ہوگا۔

بشارالاسد کی اقتدار سے برطرفی کو ایران کے لیے دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔ برطانیہ کے کنگز کالج سے وابستہ سیکورٹی امور کے ماہر آندریاس کریگ کا کہنا ہے کہ ایران اور’مزاحمت کی محور‘ قوتوں کو اب اپنی’ہوم ٹرف‘ پر توجہ دینی ہوگی، کیونکہ اب یہ اسٹرٹیجک ڈیپتھ کھو سکتے ہیں جبکہ ایران کے پاسداران انقلاب کے کمانڈر حسین سلامی کا کہنا ہے کہ شام میں اس کے اتحادی بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کمزور نہیں ہوا ہے۔ حسین سلامی نے بند کمرے کے اجلاس میں ارکان پارلیمان کو بتایا کہ ’ہم کمزور نہیں ہوئے ہیں اور ایران کی طاقت میں کمی نہیں آئی ہے۔‘

مارچ 2011 میں شام میں لوگوں کے بشارالاسد کو ہٹانے کے لیے مظاہرہ شروع کرنے کے بعد سے ہی ایران اور روس کی طرف سے بشارالاسد کی حکومت کو فوجی مدد ملتی رہی ہے۔ روس کی مدد کی وجہ سے شام کی فضائی طاقت بھی رہی ہے۔ بشار کو مستحکم بنائے رکھنے کے لیے تہران نے پاسداران انقلاب کے فوجیوں کو شام میں تعینات کیا تھا۔ اس تعیناتی کا مقصد یہ بھی تھا کہ اس خطے میں اپنے مفاد کی حفاظت کی جا سکے لیکن سمجھا جاتا ہے کہ بشارالاسد کی معزولی سے تہران کی اس پورے خطے میں ملیشیا گروپوں کے نیٹ ورک کو برقرار رکھنے اور اپنی طاقت کے اظہار کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔ لبنان میں ایران کے حمایت یافتہ حزب اللہ کے کمزورپڑنے کا اندیشہ ہے۔ اس کا اثر غزہ پر بھی پڑے گا، کیونکہ حزب اللہ سے بالواسطہ حماس کے جنگوؤں کو مدد ملتی رہی ہے اور اسرائیل کے لیے ایک ساتھ دو محاذوں پر جنگ لڑنے کی مشکل رہی ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ عراق اور یمن میں ایران کے باقی ماندہ حامی، جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو چیلنج کرتے رہے ہیں، اس صورت حال پر نالاں ہوں گے لیکن وہ حالات بدلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اس ساری صورت حال میں بظاہر ترکیہ کی جیت نظر آرہی ہے جو باغیوں کی حمایت کرتا رہا ہے مگر اس سچائی سے انکار کی گنجائش نہیں ہے کہ ترکیہ باغیوں کی حمایت تو کرتا ہے لیکن انہیں کنٹرول میں رکھنا اس کے بس میں نہیں۔ شام میں قیام امن کا انحصار عبوری حکومت کے فیصلوں اور اس کے ارکان کے اتحاد کے ساتھ اس بات پر ہوگا کہ طاقتور ملکوں کی اسے کس حد تک حمایت ملتی ہے۔ فی الوقت یہ کہنا مشکل ہے کہ شام سے عالمی طاقتوں کی دلچسپی ختم ہوئی ہے اور وہاں قیام امن آسان ہے۔

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS