جنین کے حصار سے ’فلسطینی اتھارٹی‘کی ساکھ مجروح ہوگی: ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

0

ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ

ویسٹ بینک میں واقع جنین شہر ہمیشہ اسرائیل کے خلاف اپنی شدید مزاحمت کے لئے معروف رہا ہے۔ اتفاق سے یہی وہ شہر بھی ہے جہاں ’الجزیرہ‘ کی صحافیہ شیرین ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوج نے اس وقت گولی مار کر ختم کر دیا تھا جب وہ اپنی صحافتی ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں۔ شیریں ابو عاقلہ فلسطینی نژاد ایک امریکی شہری بھی تھیں لیکن اس کے باوجود امریکہ نے اسرائیل سے اس کا حساب کتاب نہیں کیا۔ اسرائیل کے ہاتھوں پر فلسطینیوں کے ساتھ جو غیر انسانی برتاؤ ہوتا چلا آ رہا ہے وہ اب اس قدر واضح ہے کہ اس کے لئے کسی دلیل کی بھی حاجت باقی نہیں رہ جاتی ہے کیونکہ گزشتہ ایک برس سے کچھ زائد مدت میں عالمی اور انسانی قوانین و اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ کر غزہ میں جن جرائم کا ارتکاب اسرائیل کر رہا ہے اس کی روداد تقریباً روزانہ دنیا کے سامنے آ رہی ہے۔ ان جرائم کا ارتکاب صہیونیوں کے ذریعہ ہو تو زیادہ تعجب کی بات اس لئے نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کا قیام ہی جن اصولوں پر عمل میں آیا ہے ان کی روشنی میں کسی مہذب اور انسانی برتاؤ کی توقع صہیونی ریاست سے فضول ہے۔ لیکن اگر ’فلسطینی اتھارٹی‘کی جانب سے بھی ایسے ہی جرائم کی تفصیلات سامنے آنے لگ جائیں تو ان پر حیرت و استعجاب کا پیدا ہونا بالکل فطری بات ہے۔ گزشتہ تقریبا ایک مہینہ سے جنین شہر پر’فلسطینی اتھارٹی‘ نے جو حصار قائم کر رکھا ہے اس کے سایہ میں وہاں لگ بھگ اسی قسم کے جرائم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے جو اسرائیل کا طرۂ امتیاز رہا ہے۔ گزشتہ مہینہ کی 28 تاریخ کو ایک 21 سالہ صحافت کی طالبہ کا قتل ’فلسطینی اتھارٹی‘ کے ایک اسنائپر نے عین اس وقت کر دیا جب وہ اپنی والدہ اور اپنی بہن کے دو چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ گھر سے باہر نکل رہی تھی۔ گولی سر میں لگی اور موقع پر ہی اس کی موت ہوگئی۔

اس طالبہ کا قتل بالکل اسی طرح سے کیا گیا جس طرح ’الجزیرہ‘ کی صحافیہ شیرین ابو عاقلہ کا قتل اسرائیل کے نشانہ باز قاتل نے اسی جنین شہر میں کیا تھا۔ اسرائیل اور ’فلسطینی اتھارٹی‘کے درمیان طرز عمل کی یہ مماثلت چونکا دینے والی ضرور ہوسکتی ہے لیکن یہ کوئی نیا معاملہ بالکل نہیں ہے۔ اسرائیل کے ساتھ سیکورٹی اور انٹلیجنس کے معاملے پر تنسیق اور کوآرڈینیشن برسوں سے جاری ہے۔ گزشتہ ایک مہینہ سے فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی فورسیز نے جنین رفیوجی کیمپ کا جو محاصرہ کر رکھا ہے اس پر بھی اسرائیل کی چھاپ صاف نظر آ رہی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی یہ کام اسرائیل کے ساتھ مل جل کر انجام دے رہی ہے تاکہ ویسٹ بینک کے شمالی حصہ میں اسرائیل کے خلاف مسلح مزاحمت کی جو کوششیں جاری ہیں ان کو ختم کیا جا سکے۔ فلسطینی اتھارٹی پر یہ الزام بارہا لگایا جاتا رہا ہے کہ اس نے مظالم اور دھمکیوں کا استعمال کرکے اسرائیل کے خلاف چلنے والی مزاحمتوں کو ویسٹ بینک کے کئی دوسرے حصوں میں پہلے بھی کمزور کیا ہے لیکن ویسٹ بینک کا شمالی حصہ مختلف ہے۔ یہاں ابھی بھی کچھ ایسے علاقے باقی ہیں جہاں سے صہیونیوں کے خلاف جاری مزاحمت کو ختم یا کمزور کرنے میں فلسطینی اتھارٹی کو کامیابی نہیں ملی ہے۔ جنین ایسا ہی ایک حصہ ہے جہاں سے مزاحمت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی ان مزاحمت کاروں کو قانون کا باغی قرار دے کر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا دعویٰ کر رہی ہے لیکن زمینی سطح تک مزاحمت کاروں کو عام لوگوں اور قبائل کے شیوخ کی حمایت حاصل ہے۔ جنین کی آبادی تقریباً 15ہزار لوگوں پر مشتمل ہے اور مزاحمت کی مضبوط علامت کے طور پر اس کیمپ کو دیکھا جاتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے لئے یہ کسی درد سر سے کم نہیں ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی بنیادی دقت یہ ہے کہ اسرائیل کی نظر میں اس کے وجود کا جواز ہی اس بات پر قائم ہے کہ جن علاقوں میں ان کا موہوم سا کنٹرول ہے وہاں سے اسرائیل کے خلاف اٹھنے والی مزاحمت کی قوتوں کو ختم کرے۔

یہی وجہ ہے کہ سیکورٹی کے تمام معاملوں میں اس کا کوآرڈینیشن اسرائیلی فوج کے ساتھ رہتا ہے اور تقریباً انہی طریقوں اور وسائل کا استعمال مزاحمت کاروں کے خلاف روا رکھا جاتا ہے جن کے استعمال کے لئے اسرائیل مشہور ہے۔ ایک فلسطینی تجزیہ نگار نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے آلاتِ مظالم میں اس قدر مماثلت پائی جاتی ہے کہ اگر فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی فورسیز کے جسم پر ان کا یونیفارم نہ ہو تو ان کے اور اسرائیلی فوج کی بربریت کے درمیان فرق کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اس الزام کو پورے طور پر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس میں حقیقت کا اثر نظر بھی آ رہا ہے۔ آخرکار جنین کے خلاف جاری فلسطینی اتھارٹی کے اس حصار کو بھلا اور کس طرح سے سمجھا سکتا ہے؟ وہ بھی ایسے وقت میں جبکہ اسرائیل نے حالیہ دنوں میں غزہ کے اندر قتل عام اور نسل کشی کے جرائم کے ارتکاب میں مزید شدت اور تیزی پیدا کر دی ہے۔ ایسی حالت میں فلسطینی اتھارٹی کی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ فلسطینیوں کے حقوق کی بازیابی کے لئے کوشاں ہوتی اور قیمتی زندگیوں کے تحفظ کا انتظام کرتی۔ اس کے برعکس اس نے جنین کا محاصرہ کرکے ان مزاحمت کاروں کو ٹھکانے لگانا ضروری سمجھا جو اسرائیل کے مظالم کے خلاف سینہ سپر ہوکرکھڑے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی نے جنین کا جو محاصرہ کیا ہے اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس رفیوجی کیمپ کو بجلی اور پانی کی سہولتوں سے محروم کر دیا گیا ہے اور بنیادی ضرورتوں سے متعلق اشیاء تک کی سپلائی کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔

گھروں کے اوپر بندوق بردار اسنائپرز موجود ہیں۔ سڑکوں پر تفتیشی نقاط قائم کئے گئے ہیں تاکہ مزاحمت کاروں کی نقل و حرکت کو محدود کیا جا سکے۔ لوگوں کو گرفتار کرنے، انہیں پیٹنے اور ٹارچر کرنے تک کے واقعات سامنے آرہے ہیں۔ فلسطینی ہلال احمر کی ٹیم نے اس بات کی گواہی دی ہے کہ انہیں دو دن سے زیادہ مدت تک قید میں رکھ کر اذیت دی گئی۔ ان کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ محصور لوگوں تک دوائیاں پہنچانے کی اپنی ذمہ داری نبھا رہے تھے۔ جو لوگ فلسطینی اتھارٹی کے سر براہ محمود عباس کی تنقید کرتے ہیں یا جنین محاصرہ کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں انہیں گرفتار کرکے ان کو اذیت پہنچائی جاتی ہے اور ابو مازن کی خدائی کا اعتراف تک ان سے کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسا کہ بعض ویڈیوز سے اندازہ ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ محمود عباس کے ہمنواؤں میں اسی قسم کی طبیعت پائی جاتی ہے جس کا مشاہدہ شام میں بشار الاسد کے حامیوں اور وفاداروں میں پائی جاتی تھی۔ جنین کے شیوخ اور عام لوگوں نے اس حصار کے خلاف سڑکوں پر اتر کر اپنا احتجاج بھی درج کروایا ہے اور فلسطینی اتھارٹی سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ اس حصار کو ختم کیا جائے لیکن اس اپیل کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے سیکورٹی فورسیز کا اصرار ہے کہ مزاحمت کار یا تو ہتھیار ڈال دیں یا جنین کو چھوڑ کر چلے جائیں۔ لیکن مزاحمت کاروں نے ان دونوں مطالبوں کو رد کر دیا ہے اور آخری دم تک مزاحمت کا اعلان کیا ہے۔ دونوں طرف سے جس موقف کا اظہار ہو رہا ہے اس سے معاملہ کی پیچیدگی میں اضافہ ہی ہوگا اور عام فلسطینی کی جانیں قربان ہوں گی۔ در اصل اس حصار کے پیچھے فلسطینی اتھارٹی کا مقصد ہی کچھ اور ہے۔

اس کے پیش نظر یہ بات ہے کہ جب غزہ میں جنگ بندی کا معاہدہ ہوجائے گا تو اس پر کنٹرول کا موقع اس کو ملے گا۔ جنین حصار کے ذریعہ فلسطینی اتھارٹی اپنے اسرائیلی و امریکی پشت پناہوں کو یہ اشارہ دینا چاہتی ہے کہ ان میں اسرائیل مخالف مزاحمت کو ختم کرنے کی پوری صلاحیت پائی جاتی ہے۔ اس کے بدلہ فلسطینی اتھارٹی کو غزہ پر حکمرانی کے لئے مطلوب معاونت حاصل ہوجائے گی۔ حالانکہ یہ چال کتنی کامیاب ہوگی اس کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کیونکہ امریکی صدر بائیڈن نے اگرچہ اس کا عندیہ دیا ہے کہ وہ غزہ کو فلسطینی اتھارٹی کے حوالہ کرنے کے حق میں ہے لیکن اسرائیل نے اب تک اس پر اپنا موقف واضح نہیں کیا ہے۔ اس کے باوجود فلسطینی اتھارٹی خود کو اسرائیل کے سامنے ثابت کرنے کی کوشش سے دور نہیں رکھنا چاہتی ہے تاکہ مستقبل میں اس کا امکان ہی پیدا نہ ہو۔ فلسطینی اتھارٹی کے برتاؤ سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پیش نظر فلسطینی عوام کے مفادات کے تحفظ سے زیادہ ان کے ذاتی مفاد زیادہ اہمیت کے حامل ہیں اور اس کی حفاظت کے لئے وہ تمام سرخ خطوط کو بھی پار کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس کا مظاہرہ ’الجزیرہ‘ پر پابندی عائد کرکے انہوں نے کر دیا ہے۔ بھلا ’الجزیرہ‘ کا قصور اس کے سوا اور کیا تھا کہ اس نے پیشہ ورانہ ڈھنگ سے جنین حصار کے مسئلہ کو دنیا کے سامنے اسی طرح پیش کیا جس طرح اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی کے معاملوں کو بے نقاب کیا ہے۔ اسرائیل نے اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے ’الجزیرہ‘کو اسرائیل میں کام کرنے کی اجازت نہیں دی اور اس کے آفس کو بند کر دیا۔

یہی برتاؤ فلسطینی اتھارٹی نے بھی ’الجزیرہ‘کے ساتھ کیا ہے۔ ایسے اقدامات سے فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل کی نظر میں تو کچھ اہمیت مل سکتی ہے لیکن کیا فلسطینی عوام کی نظر میں وہ اپنا وقار اور ساکھ برقرار رکھ پائے گی؟ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی حیثیت فلسطینی عوام کے سامنے نہایت گھٹ چکی ہے اور وہ سخت بحران کا شکار ہے؟ وقت اور حالات کا تقاضہ تو یہ تھا کہ فلسطینی اتھارٹی اپنی قائدانہ کمزوریوں کو دور کرتی اور ان ناگفتہ بہ حالات میں فلسطینیوں کے زخم پر مرہم رکھنے کا کام کرتی۔ اس کے برعکس اس نے زخموں سے چور فلسطینیوں کو مزید زخمی کرنے بلکہ ان کے قتل میں ملوث ہونے کا کام شروع کر دیا ہے۔ یہ داخلی انتشار فلسطین کے کاز کو سخت نقصان پہنچا رہا ہے اور مستقبل میں یہ عمل خود فلسطینی اتھارٹی کے لئے جواز اور بقاء کا مسئلہ پیدا کر دے گا۔ فلسطینی عوام کو ایک متحد اور مضبوط قیادت کی ضرورت ہے۔ اس انقسام و انتشار کی فضاء سے فائدہ صرف صہیونی ریاست کا ہے جس کے ہاتھوں فلسطینیوں کا خون روزانہ بہایا جا رہا ہے۔ اگر فلسطینی اتھارٹی کو اپنی ساکھ اور ذمہ داریوں کا ذرا بھی احساس ہے تو اس کو چاہئے کہ جنین کا حصار ختم کرے اور عوام کے مسائل حل کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرے۔

(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS