فلسطین ہی نہیں بلکہ اسرائیل بھی اس وقت بدترین بحران سے دوچار ہے۔ اسرائیل کی نومولود حکومت کئی محاذوںپر جنگ لڑ رہی ہے۔ پورا مغربی ایشیا اس وقت بارود کے ڈھیر پر ہے۔ شام، عراق، اردن اورلبنان اس وقت اسرائیلی جارحیت اور اندرونی خلفشار سے دوچار ہیں۔ اسرائیل کے اندر اگرچہ فلسطینیوں کی مخالفت میں ایک سخت محاذ والی حکومت اپنی مرضی کے مطابق تمام اصولوں اور قواعد کو بالائے طاق رکھ کر کام کر رہی ہے۔ لیکن اس دوران اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو کی قیادت والے محاذ کے اندر آپسی انتشار کی خبریں بھی آنی شروع ہوگئی ہیں۔ نیتن یاہو اندرونی اور بیرونی دبائو کو برداشت کرتے ہوئے اب کافی حد تک کمزور نظرآرہے ہیں۔ حماس کے ذریعہ 7؍اکتوبر کو کئے گئے حملے کے بعد سے اب تک ان کی راتوںکی نینداڑی ہوئی ہے۔ ان کا منصوبہ یہ تھا کہ وہ اپنے خلاف قانونی چارہ جوئی کو نام نہاد عدالتی اصلاحات کے ذریعہ قابو کرنے کی کوشش کریںگے اوراقتدار میں آنے کے ایک مہینے کے اندرہی انہوںنے اسرائیل کے انتظامی اور عدالتی ڈھانچے کو بدلنے کے لئے بڑے پیمانے پر قانونی ترمیموں کو متعارف کرانا شروع کردیا۔ اسرائیل کے اندر ان نام نہاد اصلاحات کی مخالفت جم کر ہورہی ہے اور شروع دن سے ہی ہورہی ہے۔ ا
سرائیلیوںکو اس بات کا اندیشہ ہے کہ ان اصلاحات کے ذریعہ نیتن یاہو ایسے قانونی التزامات نافذ کرانے میں کامیاب ہوجائیںگے جن کے ذریعہ ان کی حکومت کو کوئی بھی ہٹا نہیں پائے گا۔ نیتن یاہو کے تاحیات وزیراعظم بننے کے غیرمعمولی ہدف کے پیچھے سب سے بڑی رکاوٹ ان کے خلاف عائد کرپشن کے سنگین الزامات ہیں، لیکن 7؍اکتوبر کے حملے نے ان کی انتظامی صلاحیتوں اور قائدانہ فضیلتوں کی پول کھول دی۔ دنیا کی سب سے اعلیٰ تربیت یافتہ فوج اور خفیہ ایجنسی موساد کے باوجود ان کی حکومت 7؍اکتوبر کے سانحہ کو روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکی اور اب نیتن یاہو اس ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لئے اپنی فوج کے تمام تر وسائل اور طاقت کو جھونکے ہوئے ہیں۔ اس جنگ سے اگرچہ وہ اپنے خلاف اٹھنے والی اندرون خانہ آوازوںکو دبانے میں فی الحال کامیاب ہیں، مگر یہ آوازیں کب تک دبی رہیںگی اس کے بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ ان کو یہ لگ رہا تھا کہ جب تک جنگ چلے گی وہ ان آوازوںکو دبا ئے رکھنے میں کامیاب رہیںگے۔ مگرحماس نے ابھی بھی 132 اسرائیلیوںکو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اور دن رات کی بم باری غیرمعمولی جانی ومالی نقصان، پوری دنیا میں اسرائیل اور اس کی قیادت کو نکتہ چینی کے باوجود نیتن یاہو ان 132 لوگوںکو رہاکرانے میں ناکام رہے ہیں۔ دراصل حماس ان 132 افرادکے ذریعہ اسرائیل پر جنگ بندی کے لئے دبائو ڈال رہا ہے۔ اگرچہ نیتن یاہو اس دبائو کو قبول نہیں کررہے ہیں، مگر جوڈیشیل اصلاحات کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں اب وہ لوگ بھی شامل ہوگئے ہیں جو ان 132اسرائیلیوںکے رشتے دار ہیں۔ ہر ہفتہ کے آخری ایام میں یہ مظاہرے زیادہ منظم اور مربوط ہوتے جارہے ہیں اوراسرائیل کی حکومت ان مظاہروںکو دبانے کے لئے ہر ممکن ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔ پچھلے دنوں یہ مظاہرے اس قدرشدید ہوگئے تھے کہ مظاہرین اسرائیلی پارلیمنٹ کے اندر داخل ہوکر وہاں موجود ممبران پارلیمنٹ اور پارلیمانی افسران سے بھی بھڑ گئے تھے۔ یہ صورت حال غیرمعمولی ہے۔ اب حکومت میں شامل ایک اور سخت گیر پارٹی کے لیڈر جیوئش پاورپارٹی (جے پی پی) کے لیڈر ایمتن بین گوویر نے اعلان کیا ہے کہ اگر قطر اور مصر کی مصالحت سے 132 افراد کی رہائی کے بدلے میں جنگ بندی کا کوئی بڑا فیصلہ ہوتا ہے تو وہ اس کی مخالفت کریںگے۔ یہ بیان غیرمعمولی ہے اور نیتن یاہو کو بدترین سیاسی صورت حال سے دوچار کر سکتا ہے۔ یاد رہے کہ جیوئش پاور پارٹی کی صرف 6ہی نشستیں ہیں اور وہ نیتن یاہو کی قیادت والے محاذ میں جوکہ 64 پارلیمانی نشستوں پر مشتمل ہے اس لئے اہم ہوجاتی ہے کیونکہ نیتن یاہو کے پاس کوئی ورکنگ میجرٹی نہیں ہے اور وہ ایک دو ممبران پارلیمنٹ کی عدم اتفاق کے باوجود اقلیت میں آسکتے ہیں۔ یہ صورت حال پورے سیاسی استحکام کو متاثرکرسکتی ہے۔ تقریباً 13ماہ قبل 120پارلیمانی نشستوں کے لئے انتخابات ہوئے تھے جس میں کسی بھی ایک پارٹی کو اکثریت حاصل نہیںہوئی تھی لہٰذا دائیں بازو کی نظریات والی سیاسی جماعتیں متحد ہوگئیں اور انہوںنے نیتن یاہوکی قیادت میں حکومت بنائی ہے۔
موجودہ حکومت پچھلے 6سال میں بننے والی چھٹی حکومت ہے، اس سے قبل جتنی بھی حکومتیں بنیں وہ پارلیمنٹ میں مطلوب سیٹیں نہ ہونے کی وجہ سے گرتی رہیں۔ اس طرح اسرائیل میں سیاسی عدم استحکام کا دور رہا ، مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سیاسی عدم استحکام اور بے چینی میں بھی اسرائیل کے ارباب اقتدار چاہے کسی بھی پارٹی کے رہے ہوں ان سب کی فلسطینیوںکے تئیں حکمت عملی اسی طرح ظالمانہ اورجابرانہ رہی ہے، مگر کیونکہ نیتن یاہو شدت پسند سیاسی نظریات والے لیڈروںکی قیادت کر رہے ہیں، ان کا یہ رویہ حد سے زیادہ ظالمانہ اور بدبختانہ ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ نیتن یاہو کے دوراقتدار میں فلسطینیوںکو اس طرح کے مسائل سے دوچار ہونا پڑے۔ نیتن یاہو کی پالیسیاںانتہائی سخت رہی ہیں، لیکن آج نیتن یاہو اپنی ہی شدت پسندی کے نرغے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ چند روز قبل اسرائیل کی ایک ممبرپارلیمنٹ نے کہا ہے کہ اسرائیل صرف موجودہ غرب اردن یا غزہ پر اپنی گرفت مضبوط کرے بلکہ اس کو وسیع تر اسرائیل کے قیام اور توسیع پر توجہ دینی ہوگی۔ خیال رہے کہ یہ نظریہ اسرائیل کے انتہائی شدت پسندوں کا رہا ہے۔ جس میں وہ عراق، لبنان، شام مصر، ترکی اوریہاں تک کہ سعودی عرب کے کچھ علاقوںکو بھی اسرائیل کی مملکت میں شامل کرانا چاہتے ہیں۔ اسرائیل کی حکومت جن خطوط اور بنیادوں پر رکھی ہوئی ہے صیہونی نظریات جوبنیادی طورپر نسل پرستانہ اصولوںپر مبنی ہے یہی وہ نظریات اورآئیڈیالوجی ہے جس نے اس پورے خطے کو سیاسی عدم استحکام اور اقتصادی بحران پر دھکیل رکھا ہے۔ پچھلے دنوں اسرائیل کے وزیر برائے سلامتی ایتمار بن گوبئر نے غزہ میں اسرائیل کی جارحیت پر ایک غیرمعمولی بیان دیا تھا جس کے تحت انہوںنے کہا تھا کہ اسرائیل کو غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس پورے علاقے کو اسرائیلی نوآبادیات کے لئے کھول دینا چاہئے۔ اس نظریے کو وسیع تر تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ جس طریقے سے یروشلم اور مغربی کنارے پر یہودی بستیاں بسائی جارہی ہیں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرایا جارہا ہے اسی طرح غزہ میں بھی یہودیوںکو یہ اجازت ملنی چاہئے کہ وہ غزہ کے مختلف علاقوں میں اپنی رہائشی کالونیاں تعمیر کریں۔ یاد رہے کہ مغربی کنارے پر یہودی نوآبادکار مختلف ملکوں سے بلاکر بسائے جارہے ہیں۔ یہ عمارتیں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے یا ان کو وہاں سے نکال کر آباد کرائی جارہی ہیں۔2005میں اسرائیل نے غزہ سے مکمل انخلا کردیا تھا اوریہ پورا علاقہ فلسطینیوں کی حکمرانی کے لئے چھوڑ دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اسرائیل کی پالیسی میں یہ لچک 1992-93 کے اوسلو معاہدہ کے بعد پیدا ہوئی تھی۔ اب آج کے بدلے ہوئے حالات میںایسا نہیں لگتا کہ اسرائیل کی حکومت واپس دوبارہ غزہ میں مغربی کنارے کی طرح کا کوئی نظام قائم کرلے۔ امریکہ اس کی سخت مخالفت کر رہا ہے جبکہ نیتن یاہو اوران کی کابینہ اسی طرح کے ورکنگ فارمولے پر غورکر رہے ہیں۔ عالمی برادری اسرائیل کی توسیع پسندانہ اقدام سے نالاں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں کس طرح نیتن یاہو اس صورت حال کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ان کے سامنے نہ صرف غزہ میں جنگ کو کسی فیصلہ کن مقام پر پہنچانے کے علاوہ 132مغویہ افراد کی رہائی اور اپنی حکومت کو بچانا بھی شامل ہے۔
٭٭٭
بنجامن نیتن یاہو کے گِرد تنگ ہوتا محاصرہ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS