تعلیم جو کسی قوم کے روشن مستقبل کی واحد امید ہوتی ہے، آج مغربی بنگال میں سیاست، کرپشن، غفلت اور بدنیتی کا شکار ہو چکی ہے۔ ممتابنرجی کی قیادت والی حکومت نے تعلیمی ڈھانچے کو جس منصوبہ بندی کے ساتھ زمین بوس کیا ہے،وہ محض بدانتظامی کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا سیاسی منصوبہ ہے،جس کا مقصد عوام کو تعلیم سے محروم رکھ کر انہیں ناعاقبت اندیش ووٹ بینک میں تبدیل کرنا ہے۔ یہ محض ایک الزام نہیں بلکہ زمینی حقائق پر مبنی ایک سچ ہے، جس کی تصدیق آئے دن سامنے آنے والی رپورٹیں،تاخیر زدہ فیصلے،کالجوں میں داخلوں کی معطلی اور اساتذہ کی خالی اسامیاں کرتی ہیں۔
تعلیم ایک مسلسل بہائو ہے،کلاس سے کلاس اور ادارے سے ادارے تک،مگر یہاں معاملہ بالکل الٹ ہے۔ ہائر سیکنڈری امتحانات کے نتائج جون میں جاری ہوچکے، مگر انڈر گریجویٹ کالجوں میں داخلے اب تک التوا کا شکار ہیں۔ وجہ ایک تکنیکی بہانہ یعنی او بی سی سرٹیفکیٹ کی پیچیدگیوں کو بنایاگیاہے۔ حالانکہ سپریم کورٹ واضح کرچکا ہے کہ اس بنیاد پر داخلہ کا عمل نہیں روکا جا سکتا، لیکن حکومت نے ضد میں آ کر تعلیمی سال کو قربان کردیا۔ مرکزی داخلہ پورٹل تاخیر سے شروع ہوا اور اب بھی داخلے نہیں ہو رہے۔ شرداتسو(درگاپوجا) قریب ہے،کالج بند ہونے کو ہیںاور سمسٹر کے امتحانات بغیر تدریسی عمل کے منعقد کیے جانے کی تیاری ہے۔ انجینئرنگ کالج خالی پڑے ہیں،تین مہینے سے مشترکہ امتحانات (جے ای ای) کے نتائج کا پتہ نہیں۔ طلبا کا مستقبل بلیک ہول میں ڈال دیا گیا ہے۔ متوسط اور غریب گھرانوں کے بچے پڑھائی چھوڑ کر فیکٹریوں،دکانوں اور تعمیراتی مقامات پر مزدوری کر رہے ہیں۔ لاکھوں نوجوان خواب چھوڑ کر پتھر توڑنے نکل پڑے ہیں۔ ممتا حکومت کو اس پر کوئی شرم نہیں،کوئی فکر نہیں۔
اب ذرا دوسری تصویر دیکھئے درگا پوجا کے نام پر پیسہ بہایا جا رہا ہے جیسے ریاست میں سب کچھ ٹھیک ہے۔ گزشتہ سال 85 ہزار کی گرانٹ دی،اس سال ایک لاکھ 10 ہزار کر دی۔ اعلان بھی بڑے شان سے کیا گیا۔جمعرات،25 جولائی 2024 کو کولکاتا کے نیتا جی انڈور اسٹیڈیم میں ریاست بھر سے آئی ہوئی پوجا کمیٹیوں کے نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے ممتا بنرجی نے خود اعلان کیا کہ درگا پوجا کیلئے اس بار ایک لاکھ 10 ہزار روپے دیے جائیں گے۔ یعنی عوام کے بچوں کو تعلیم نہ دو،مگر مورتی کے نیچے لاکھوں روپے بہا دو۔
صرف یہی نہیں،بجلی پر80 فیصد سبسڈی، پولیس، ٹریفک، صحت، سی سی ٹی وی، ڈرون، کارنیوال، روشنی، اسٹیج، ایمبولینس گویا پوجا نہیں،سیاسی تماشہ ہو رہا ہے۔ کیا تعلیم اتنی بے وقعت ہے کہ اس پر ایک پیسہ خرچ نہ ہو اور پوجا پر کروڑوں بہا دیے جائیں؟ اصل میں ممتابنرجی نے ریاست کو ایک پاپولسٹ سرکس بنا دیا ہے جہاں پوجا،جلسے اور کارنیوال ہوں گے،لیکن اسکولوں میں نہ کتاب ہو گی،نہ استاد۔ یہ صرف ووٹ بینک کی سیاست نہیں،ایک فکری نسل کشی ہے۔گزشتہ سال جن پوجا کمیٹیوں نے چندہ لینے سے انکار کیا، ممتا نے کھلے عام دھمکی دی کہ انہیں فنڈ نہیں دیا جائے گا۔ مطلب یہ کہ چندہ بھی رشوت ہے، وفاداری خریدنے کا ہتھیار۔ اگر تم ترنمول کے ہو، تو پیسہ ملے گا، چاہے اسکول جل جائیں۔ اگر تم سوال اٹھائو،تو نکال دیے جائو گے۔
اپوزیشن چیخ رہا ہے،لیکن آواز گونگی دیواروں سے ٹکرا رہی ہے۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پہلے سرکاری ملازمین کا ڈی اے دو، نوکریاں دو، تب پوجا کرو۔ مگر حکومت کو اس سے مطلب نہیں۔ اسے صرف ووٹ سے مطلب ہے۔ تعلیم ووٹ نہیں دیتی، جذبات دیتے ہیں،مورتی دیتی ہے،لائوڈ اسپیکر دیتا ہے،ہجوم دیتا ہے۔ اور یہی ہتھیار ہیں ممتا کی سیاست کے۔
یقینا،درگا پوجا بنگال کی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ مگر جب بچوں کے ہاتھ میں کتاب کی جگہ چندہ رسید اور مستقبل کی جگہ بے روزگاری کا سرٹیفکیٹ ہو،تو جان لیجیے کہ تہذیب نہیں بچی،صرف ہجوم بچا ہے اور اس ہجوم کو تعلیم سے دور رکھنا ہی ممتا سرکار کا سب سے کامیاب منصوبہ ہے۔
سوال یہ نہیں کہ درگا پوجا منائی جائے یا نہیں،سوال یہ ہے کہ کیا ریاستی وسائل کا استعمال محض تہواروں اور مخصوص مذہبی جذبات کو بھنانے میں لگا دیا جائے؟ اور وہ بھی ایسے وقت میں جب تعلیم کا شعبہ سسک رہا ہو، سرکاری اسکول ویران ہوں،نوجوان بے روزگاری کے سبب خودکشی کی دہلیز پر ہوں!
ایسا لگتا ہے جیسے ریاست کی تعلیمی پالیسی کا مرکزی نکتہ ہی یہ بن گیا ہے کہ عوام کو تعلیم سے محروم رکھو تاکہ وہ سوال نہ کریں، مزاحمت نہ کریںاور ہر تہوار میں نعرے لگاتے ہوئے ووٹ دینے کیلئے تیار رہیں۔ یہ صرف تعلیم کا زوال نہیں،یہ ایک نسل کی فکری خودکشی ہے اور اس جرم کی ذمہ داری براہ راست اس حکومت پر عائد ہوتی ہے جو تعلیم کے نام پر سیاسی مفاد کی دیوی کو چڑھاوا چڑھا رہی ہے۔
edit2sahara@gmail.com