چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے بہت ہی اہم نکتہ اٹھایا ہے ، ان کا کہناہے کہ عدالتوں میں آج بھی غلامی کے دور کا انگریزی نظام برقرار ہے ، جس کا بھارتیہ کرن کرنا وقت کی ضرورت ہے ۔دراصل چیف جسٹس آف انڈیا بنگلورو کے ایک پروگرام میں عدلیہ کی خامیوں اورعدالتی کارروائی کے بارے میں عام آدمی کے احساسات و پریشانیوں کوبیان کررہے تھے۔ ان کاکہنا ہے کہ تاریخ پرتاریخ اوردلیلوں میں لوگ الجھ جاتے ہیں اورنظام کچھ ایسا ہے کہ جو انصاف کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے ۔سی جے آئی نے گائوں کے لوگوں کاذکر کرتے ہوئے کہا کہ دیہی علاقوں کے لوگ عدالتوں میں پیش کی جانے والی دلیلوں اورکارروائی کونہیں سمجھ پاتے ، کیونکہ وہ زیادہ تر انگریزی میں ہوتی ہیں۔ایسے میں انہیں کورٹ کی کارروائی کو سمجھنے کیلئے زیادہ پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔انہوں نے نہ صرف اس بات پرزور دیاکہ عدالتی کارروائی کو شفاف، سہل اورجوابدہ بنایاجائے ، جج اوروکیل مل کر ایساماحول تیار کریں جو عام لوگوں کے لئے آرام دہ ہو،بلکہ یہ بات بھی کہی کہ عدالتوں کی پیچیدگیاں ہندوستانی روایات کے برعکس ہیں۔موجودہ نظام برطانوی راج کے دور کا ہے جو ہمارے لوگوں کیلئے صحیح نہیں ہے۔ اسے ہندوستان کے رنگ میں ڈھالنے اورمقامی ضروریات کے حساب سے بنانے کی ضرورت ہے۔
ملک کے عدالتی نظام کی خامیاں کسی سے مخفی نہیں ہیں ، عام آدمی سے لے کر دانشور ، ماہرین قوانین ، جج صاحبان ، سیاسی لیڈران حتی کہ حکومت میں بیٹھے لوگ بھی اس بابت اظہار خیال کرتے اور اعتراف کرتے ہیں کہ نظام کچھ ایساہے کہ عام آدمی کیلئے انصاف حصول مشکل ہے۔ عدالتی کارروائی طویل ہوتی ہے اور تاریخ پر تاریخ اس قدرملتی ہے کہ برسوں مقدمات چلتے ہیں اوروقت پرانصاف نہیں مل پاتا۔کبھی کبھی اتنی تاخیر ہوجاتی ہے کہ عدالتی فیصلہ بے معنی ہوجاتا ہے۔انصاف کاحصول اس قدر خرچیلا ہوگیا ہے کہ عام آدمی کورٹ کے چکر لگانے کی ہمت نہیں کرپاتا ۔ وہ اپنی قسمت پر روتا رہتا ہے ۔کسی نہ کسی بہانے وکلا تاخیری حربے استعمال کرکے تاریخ پر تاریخ مانگتے رہتے ہیں ، جس سے کیس آگے نہیں بڑھتا اورانصاف میں تاخیر ہوتی ہے ۔سب سے زیادہ مشکل حالات اس وقت ہوتے ہیں جب کوئی بے قصور محض الزام کی بنیاد پر ناکردہ گناہوں کی سزا دس دس پندرہ پندرہ سال جیل میں کاٹ کر باعزت بری ہوکر باہر آتوجاتا ہے لیکن اس کی عمر اورجیل میں گزارے زندگی کے بیش قیمتی اوقات واپس نہیں آتے ۔باہر آکر بھی وہ کسی لائق نہیں رہتا ، کیونکہ ایک تو اس پر لگے بدنما داغ چین سے نہیں رہنے دیتے ، دوسرے ترقی اورآگے بڑھنے کی عمر ختم ہونے کے بعد اسے نہ کوئی ملازمت دیتا ہے اورنہ وہ خودمعاشی طور پر اس قابل رہتا ہے کہ کچھ کرسکے ۔
اس میں کوئی دورائے نہیں جیساکہ چیف جسٹس آف انڈیا نے کہا ہے کہ عدالتی نظام کچھ ایسا ہے کہ اس میں عام آدمی پھنس جاتا ہے ، اسے وہ سمجھ نہیں پاتا جس کی وجہ سے انصاف کیلئے عدالتوں کے چکر کاٹتارہتاہے ۔ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ دور میں عام آدمی کیلئے کورٹ کادروازہ کھٹکھٹانا کتنامشکل ہے ۔کیس لڑنا اتنا خرچیلا ہوگیاہے کہ لوگ اس جال میں پھنس کر برباد ہوجاتے ہیں ۔ نچلی عدالت سے سپریم کورٹ تک بہت مرحلے ہوتے ہیں اورہر مرحلہ پہلے سے زیادہ مہنگا اورخرچیلا ہوتا ہے ۔عدالتی کارروائی کو شفاف ، سہل اورجوابدہ بنانے کی بات ہمیشہ کی جاتی ہے تاکہ عوام کی رسائی اور انصاف کا حصول آسان ہو۔لیکن اظہار خیال سے آگے یہ بات نہیں بڑھتی۔عدالتی نظام میں اصلاح کے معاملہ پر صرف باتیں ہوتی ہیں ۔عملی اقدامات بہت کم کئے جاتے ہیں ۔عدالتوں میں مقدمات کا انبار ہے اورججوں کی تعداد بہت کم ہے ۔ایسی بات نہیں ہے کہ ججوں کی تقرری نہیں کی جاتی، لیکن جتنی تقرری کی جاتی ہے ، اتنے ریٹائر بھی ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح ججوں کی کمی برقرار رہتی ہے ۔دوسری بات یہ ہے کہ عدالتوں میں جس قدر مقدمات پہنچتے ہیں، اس حساب سے ججوں کی تعداد نہیں بڑھائی جاتی ۔جب تک ضرورت کے مطابق ججوں کی تعداد نہیں بڑھائی جاتی اورعدالتی نظام کو مقامی ضرورت کے حساب سے نہیں بنایا جاتا ، مسائل پیدا ہوتے رہیں گے اورلوگوں کو پریشانیاں ہوتی رہیں گی ۔موجودہ چیف جسٹس آف انڈیا بھی یہی چاہتے ہیں کہ ملک کا نظام عدل وانصاف ملک اورلوگوں کی ضرورت کے مطابق بنایا جائے۔
[email protected]
چیف جسٹس آف انڈیا کے احساسات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS