مغربی ایشیا میں جنگ کے آثار

0

کے سی تیاگی

7اکتوبر 2023کو حماس کے جنگجو اسرائیل پر زوردار حملہ میں کامیاب ضرور ہوئے، لیکن اس کی کتنی قیمت فلسطینیوں کو چکانی پڑی اس کے اعداد و شمار دل دہلانے والے ہیں۔ 15ماہ سے بھی زیادہ چلی اس جنگ میں بربادی سے اُبھرنے میں تین صدیاں لگیں گی۔ اقوام متحدہ کے ایک سروے کے مطابق ملبہ میں تبدیل ہوچکے فلسطین کی تعمیرنو میں 350سے زیادہ سال لگ سکتے ہیں۔ جنگ کے شروعاتی چار ماہ میں 18.5ارب ڈالر کا نقصان سمجھا جارہا تھا۔ غزہ میں اس وقت تقریباً 69فیصد اسٹرکچر کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا مکمل طور پر تباہ ہوچکے ہیں۔ 5کروڑ ٹن سے زیادہ ملبہ کا ڈھیر اس وقت غزہ میں جمع ہوچکا ہے جسے ہٹانے بھر میں 15سال سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے۔ بمباری اور زمینی مہمات سے فلسطین میں چہارجانب ملبے کے ڈھیر ہی ڈھیر نظر آتے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق مصر میں گیزا کے دیوہیکل پیرامڈ کے سائز سے تقریباً 12گنا ملبہ کا ڈھیر یہاں اکٹھا ہوچکا ہے۔

ایک اندازہ کے مطابق 100سے زیادہ ٹرک مسلسل کام میں لگے رہے تب بھی اس ملبہ کو اٹھانے میں 15سال سے بھی زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔ کیمپ میں پیدا ہوئیں تین نسلوں کو آئندہ طویل عرصہ تک اسے ہی اپنا مستقل مقام بنانا ہوگا۔ چونکہ تعمیرنو کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہوگی اور ایک ایسے غیریقینی میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے کوئی بھی بین الاقوامی تنظیم تیار نہیں ہے۔ جس نے دودہائی سے بھی کم وقت میں پانچ جنگیں دیکھی ہیں۔ سیٹلائٹ ڈاٹا کا استعمال کرکے اقوام متحدہ نے گزشتہ ماہ اندازہ لگایا تھا کہ غزہ میں 70فیصد اسٹرکچر تباہ ہوکر ملبے میں تبدیل ہوچکا ہے جن میں 245000سے زیادہ رہائشی علاقہ اور گھر شامل ہیں۔ ورلڈ بینک نے جنگ کے پہلے 4ماہ میں ہی 18.5ارب ڈالر کے نقصان کا اندازہ لگایا تھا جو 2022میں ویسٹ بینک اور غزہ کی مشترکہ اقتصادی پیداوار کے تقریباً برابر ہے۔ اہم سڑکیں گہرے گڑھوں میں تبدیل ہوچکی ہیں، پانی اور بجلی کا اہم بنیادی ڈھانچہ برباد ہوچکا ہے۔ زیادہ تر اسپتال اب کام نہیںکررہے ہیں چونکہ بمباری کے دوران یہ سبھی نشانے پر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں 50000سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوئی ہیں جن میں 44فیصد بچے ہیں۔ جو بچے زندہ ہیں، وہ بیمار ہیں، تناؤ، نیند کی کمی، ڈپریشن اور خوف نے انہیں قید کرلیا ہے۔ ان معصوم بچوں کو ہر اجنبی انسان سے خوف محسوس ہوتا ہے۔ غزہ کے بچوں میں جینے کی خواہش ہی ختم ہوگئی ہے۔ تباہی کے دوران 96فیصد بچے جینا نہیں چاہتے، انہیں اپنی موت قریب نظر آتی ہے اور 49فیصد بچے چاہتے ہیں کہ ان کی موت ہوجاتی تو اچھا ہوتا۔ ایسا سوچنے والوں میں 72فیصد لڑکے اور 46فیصد لڑکیاں ہیں۔

نیدرلینڈ کی ایک تنظیم ’’وار چائلڈ الائنس‘‘ نے چونکانے اور دل دہلا دینے والے اعداد و شمار جمع کیے ہیں۔ الائنس نے 500سے زیادہ سرپرستوں یا ان کی دیکھ ریکھ کرنے والوں سے یہ معلومات اکٹھا کی ہیں۔ اس میں ان کنبوں کو شامل کیا گیا جن کا ایک بچہ جنگ میں معذور ہوگیا یا کنبہ سے بچھڑ گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ سروے میں شامل 92فیصد بچے جنگ کی حقیقت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ غزہ کے ماحول میں بارود کی بو پھیلی ہوئی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ 79فیصد بچے خواب میں بھی سہم جاتے ہیں وہیں 73فیصد معصوم ان سب سے اتنے عاجزآچکے ہیں کہ ان کا رویہ غصہ والا ہوگیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر نیند میں چیختے ہیں اور کراہنے لگتے ہیں۔ ان بچوں نے اپنا گھر، اسکول ملبہ میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ بچوں کا دل ٹوٹ گیا ہے، معصوم ذہن سمجھ نہیں پارہا کہ انہیں کس بات کی سزا ملی ہے اور ان کا گناہ کیا ہے؟ اسی خوفناک ماحول سے غمزدہ ہوکر فلسطین کے وزیراعظم محمد اشتیہ سمیت پوری حکومت استعفیٰ دے چکی ہے۔ اپنے استعفیٰ میں انہوں نے قبول کیا کہ غزہ پٹی میں فلسطینی بھوک سے تڑپ رہے ہیں اور فوجی آپریشن میں شامل ایک امریکی فضائیہ کے ذریعہ واشنگٹن ڈی سی میں اسرائیلی سفارت خانہ کے باہر خود کو آگ لگانے سے بھی ماحول سنگین ہوچکا ہے۔ ایئرسروس اہلکار مسلسل ’’اب نسل کشی میں شامل نہیں ہوگا‘‘ زور سے چلا رہا تھا۔

اقوام متحدہ کی طرف سے جنگ بندی کی قرارداد پاس ہوچکی ہے جس میں ہندوستان سمیت 158 ممالک کے ذریعہ منظور کیا گیا ہے۔ کئی مواقع پر یو این کی طرف سے میٹنگ میں جنگ بندی کے لیے کئی قراردادیں منظور ہوئیں لیکن سبھی کوششیں ناکام رہیں۔ یہاں تک کہ اسرائیل کو ’’لسٹ آف شیم‘‘ میں بھی شامل کیا گیا۔ ’’لسٹ آف شیم‘‘ مسلح جدوجہد میں بچوں کے حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کو دستاویز کی شکل دی گئی ہے۔ اس میں اسرائیل پر بچوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کا سنگین الزام ہے، اس حوالے سے پورے اسرائیل میں غصہ پایا جاتا ہے۔بین الاقوامی برادری میں اس سے اسرائیل کی امیج کو نقصان پہنچا ہے، یوروپی یونین کے کئی اہم ممالک نے بھی اس حوالہ سے اسرائیل کی تنقید کی ہے۔ حالانکہ ماضی میں ان ممالک کی ہمدردی اسرائیل کے ساتھ رہی ہے۔ معاشی طور پر امریکی مدد کے باوجود اسرائیل کی معیشت چرمرانے لگی ہے۔ گزشتہ ماہ میں جی ڈی پی گروتھ محض 0.7فیصد رہی۔ اسرائیل کی فوج کے ذریعہ 16بلین ڈالر کا مطالبہ کیا گیا جو وہاں کی جی ڈی پی کا تین فیصد ہے۔ جنگ بندی کے بعد بھی فوج ہو ہر سال8بلین ڈالر چاہیے تاکہ نئے سیکورٹی چیلنجز سے مقابلہ کرسکے۔ مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا8فیصد ہوچکا ہے۔ اسرائیل کے لیے تشویشناک وجہ یہ بھی ہے کہ اس کے تجارتی مراکز تل ابیب اور یروشلم تک لڑائی پہنچ چکی ہے۔

جنوری ماہ میں اسرائیل کا قرض جی ڈی پی کا 62فیصد تھا جو کہ زیادہ امیر ممالک والے O.E.C.Dکلب کے اوسط سے کم ہے۔ نامور ریٹنگ ایجنسی جیسے فچ اور موڈیز اس سال ایک بار اسرائیل کی ریٹنگ کم کرچکی ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اسے دہرانے کا امکان ہے۔ گزشتہ سال حماس کے حملہ کے بعد اسرائیل نے 80ہزار فلسطینی ورکرس کے ورک پرمٹ کو رد کردیا گیا تھا، ان کی خالی جگہ پر کسی کو نہیں رکھا گیا ہے، اس میں کنسٹرکشن انڈسٹری 40فیصد تک کم ہوچکی ہے، یہی حال کم و بیش ہائی ٹیک کمپنیوں اور دوسری فرم کا ہے۔ گزشتہ ماہ میں مہنگائی 3.6فیصد کی سالانہ شرح تک پہنچ گئی تھی۔ جنگ اگر کچھ دن مزید جاری رہتی تو اسرائیلی کرنسی شیکل کی قیمت گر سکتی تھی۔ حتیٰ کہ بینکوں کو اپنا ریزرو کا بھی استعمال کرنا پڑسکتا ہے۔

فی الحال جنگ بندی ہوچکی ہے لیکن اسے جنگ ختم ہونا نہیں کہہ سکتے۔ امریکی صدر ٹرمپ کے ذریعہ دیے گئے بیان نے امن کی کوششوں کے سبھی امکانات پر پانی پھیر دیا ہے۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن امریکہ کے دورہ پر تھے۔ صدر کی جانب سے مدعو غیرملکی مہمانان میں انہیں ترجیح دی گئی۔ بنیامن اسرائیل میں کئی طرح کی مخالفت کا سامنا کررہے ہیں۔ خستہ حال معیشت کے علاوہ آئے روز ان کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع بینی گینج اپنی پارٹی کے دیگر ارکان کے ساتھ اپنے عہدے سے استعفیٰ دے کر حکومت کو مشکل میں ڈال چکے ہیں۔

دونوں رہنماؤں نے وہائٹ ہاؤس میں منعقد ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں غزہ کے حوالے سے یہ بیان دے کر پوری دنیا میں ہلچل مچا چکے ہیں کہ امریکہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرے گا اور یہاں پر ایک ریزورٹ سٹی بنائی جائے گی۔ یہ مغربی ایشیا کے لیے روزگار اور سیاحت کا مرکز بنے گا۔ پورے غزہ کو ہموار کیا جائے گا اور یہاں انفرااسٹرکچر ڈیولپ کیا جائے گا۔ غزہ میں مقیم23لاکھ افراد کو مصر اور اردن جیسے ممالک میں آباد کیا جائے گا۔ مصر اور اردن کی حکومتوں نے اسے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ غزہ پر امریکہ کے مکمل قبضے میں بین الاقوامی قوانین اور معاہدے بڑی رکاوٹ ہوں گے۔ اگرچہ ٹرمپ کے منصوبے کے خلاف اہم عرب ممالک آہستہ آہستہ صف آرا ہورہے ہیں۔ سعودی عرب، مصر، اردن، قطر اور ترکیہ کھل کر اس کی مخالفت کرچکے ہیں۔ حماس نے اپنے شدید ردعمل میں اسے نسل کشی سے تشبیہ دی ہے۔ امریکہ کے درجنوں ممبران پارلیمنٹ کے ذریعہ بھی اس کی مخالفت کی گئی ہے، جس میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں شامل ہیں۔ اس سے قبل ٹرمپ اب تک گرین فیلڈ جزیرے پر قبضہ کرنے، پنامہ نہر کے ٹیک اوور اور امریکہ کی51ویں ریاست کے طور پر کینیڈا کو ضم کرنے کے ارادوں کا اظہار کر چکے ہیں۔
اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایسے کئی قوانین بنائے ہیں جن سے فلسطین اور عرب ممالک کے جذبات مشتعل ہوئے ہیں، مثال کے طور پر یہودی ریاست کا بل، اسرائیل کو ایک یہودی ریاست کا درجہ دے کر دوسری کمیونٹیز کو دوسرے درجے کی شہریت تک محدود کرتا ہے۔ پہلے دارالحکومت تل ابیب ہوا کرتا تھا لیکن اب اسے یروشلم منتقل کرنے کو فلسطینیوں کو مشتعل کرنے کی کارروائی سمجھا جارہا ہے۔ شامی سرزمین گولن ہائٹس پر اسرائیل کا قبضہ ہے جو 1967کی جنگ کے بعد سے ہی اسرائیل کے زیر اثر ہے۔ اسی جگہ پر ایک بہت بڑے شہر کی تعمیر شروع ہو چکی ہے جسے ٹرمپ سٹی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

اگلے ماہ رمضان المبارک شروع ہوگا جس میں مشکلات اور پیچیدگیوں میں اضافہ ہوگا۔مسجد اقصیٰ کے حوالہ سے بھی مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں، جب مسلمانوں کے عقیدے پر پابندیاں عائد کی جاتی ہیں۔ فی الحال امن کے بجائے جنگ کے آثار زیادہ نظر آرہے ہیں۔ یو این سے اپنے افسران کو ٹرمپ حکومت کے ذریعہ واپس بلانے کو لے کر بھی عالمی برادری میں تشویش ہے۔

(مضمون نگار سابق ممبر پارلیمنٹ ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS