ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
قدیم تاریخی سر زمین ملک شام جو مختلف تہذیبوں کے عروج و زوال کا مرکز اور گہوارہ رہی ہے اور اسلامی تاریخ کی ابتدائی صدیوں میں جس کو دنیا کی سب سے طاقت ور پایۂ تختِ اسلامی ہونے کا شرف حاصل تھا اس کی اہمیت ہر اعتبار سے مسلم ہے۔ یہ کبھی آشوریوں کی زمین رہی، رومیوں کے زیر اثر یہ ملک رہا اور پھر اسلام کی آغوش میں اس کو عظمت کا ایسا امتیازی نشان عطا ہوا کہ صدیوں اس کی روشنی میں اقوام عالم کو اپنی جہت طے کرنے میں مدد ملی۔ جامع اموی جہاں سے احمد الشرع نے خطاب کیا ہے اس نے علم و فن کو اوج ثریا تک پہنچانے میں جو مثالی کردار ادا کیا ہے اس کا احاطہ کرنا آسان نہیں۔ اس سر زمین سے اتنی بڑی تعداد میں عظیم شخصیات اٹھی ہیں اور منصہ عالم پر گہرا اثر چھوڑنے میں کامیاب ہوئی ہیں کہ انسان حیرت و استعجاب میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کا جغرافیائی محل وقوع بھی اسی قدر اہم ہے جس قدر اس کی تاریخِ علم و تمدن، جہاں بانی و جہاں آرائی اور انقلاب و بغاوت کے بعد تخت و تاج کے بدلنے کی داستان رہی ہے۔ خلفاء راشدین کے بعد ملوکیت کا جب اسلام میں آغاز ہوا تو امیر معاویہ نے اسی سر زمین کو اپنا مرکز بنایا، عباسیوں کے ہاتھوں جب اموی دورِ عظمت کا ستارہ غروب ہوا تو دمشق و حلب نے ہی سب سے پہلے کھلی آنکھوں اس کربناک واقعہ کو دیکھا اور تاریخ میں ان لمحات کو درج کیا۔ خلافت عثمانیہ کو جب عالم عربی میں قدم جمانے کی ضرورت پڑی تو اس کا آغاز بھی ملک شام میں داخلہ سے ہی ہوا۔ دور جدید میں بھی مشرق وسطیٰ کے پٹرول اور گیس جیسے قدرتی ذخائر کو مغرب تک پہنچانے کے لئے اسی سر زمین سے پائپ کو گزارنے کی نوبت پیش آئی۔ چین میں جب اپنے حریری راستوں کو ڈھونڈ کر ان میں تجارت و ثقافت کے نئے نقوش بنانے کا جذبہ پروان چڑھا تو شام کے بغیر اس نقشہ کی تکمیل نہیں ہوسکی۔ ان اشاروں سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ملک کس قدر اہمیت کا حامل ہے، لیکن اس کا سب سے نمایاں امتیاز یہ ہے کہ اس کو جب سے اسلام کی آغوش میں جگہ ملی تب سے لے کر آج تک اس کا قوی رشتہ اسلام سے وابستہ ہے اور اسلامی عظمت کا امین اور گواہ بنا ہوا ہے۔ معرکہ حطین کا ہیرو سلطان صلاح الدین ایوبی جنہوں نے صلیبی جنگوں میں فیصلہ کن فتح نصیب کی تھی ان کا مرکز بھی شام ہی تھا۔ بعد میں جب ان کی اولاد نے مصر میں فاطمیوں کا دور ختم کرکے ایوبی دور حکومت کا آغاز کیا تب بھی مصر کے ساتھ ساتھ شام ان کے ہاتھوں میں رہا۔ اسلام کے ساتھ شام کا اتنا گہرا رشتہ ہونا بالکل فطری بات معلوم ہوتی ہے کیونکہ اس کو ارضِ انبیاء کہا گیا ہے۔ بڑی تعداد میں نبیوں اور رسولوں کی بعثت اس خطہ میں ہوئی ہے۔ ایک روایت کے مطابق قربِ قیامت میں عیسیٰ علیہ السلام کا نزول بھی اسی زمین مقدس میں ہوگا اور جب قیامت برپا ہوگی تو حشر کا میدان بھی ملک شام ہی بنے گا جہاں خالق کائنات کی عدالت قائم ہوگی اور ہر اچھے برے عمل کا حساب و کتاب ہوگا۔ البتہ اس وقت اصل امتحان شام کی نئی قیادت کا ہے کہ وہ اپنے عوام کے سامنے اپنا حساب و کتاب کس طرح پیش کریں گیاور پورے طور پر ٹوٹے ہوئے ملک کو کیسے جوڑیں گے۔ ان کے سامنے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان کے کاندھوں پر جو عظیم ترین اور نہایت مشکل ذمہ داری آ گئی ہے اس کو حسن و خوبی کے ساتھ کیسے انجام دیں۔ نصف صدی سے بھی زیادہ مدت تک الاسد خاندان کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے شام کی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کے دمشق پر قابض ہونے کے بعد وہاں کے جیلوں میں اذیت ناک زندگی گزارنے والے قیدیوں کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ساری تاریخ میں اس درجہ کے ظالموں کی تعداد بہت کم رہی ہے۔ یہ تو ان کی تفصیلات ہیں جو زندہ بچ گئے ہیں۔ جو لوگ اذیت کی تاب نہیں لا سکے یا جنہیں جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بے دردی سے اور شدید تکلیف و تعذیب کے بعد قتل کر دیا گیا ان کی داستان تو کبھی معلوم بھی نہیں ہوسکے گی کیونکہ ان دستاویزوں کو ختم کر دیا گیا ہے جن میں کچھ تفصیلات مل سکتی تھیں۔ الاسد کا خاندان ملک شام کو ایک مافیا کی طرح چلاتا تھا جس کے پاس اپنی قوم کو خوف و دہشت کے علاوہ دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ جیلوں اور تعذیب خانوں سے اس خاندان کو اس قدر لگاؤ تھا کہ ہوائی اڈوں اور یونیورسیٹیوں تک کے نیچے تنگ و خوفناک جیل تیار کئے گئے تھے جہاں ادنی آوازِ احتجاج بلند کرنے والوں کو بھی ٹھونس دیا جاتا تھا یا وہیں انہیں ختم کر دیا جاتا تھا۔ الاسد خاندان اور اس کے ہم نواؤں کے علاوہ باقی لوگوں کے پاس وہاں کچھ نہیں تھا۔ اب جب کہ بشار الاسد ملک کی پونجی لے کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ روس منتقل ہوگیا ہے جہاں وہ پر تکلف اور عیش و عشرت کی زندگی بسر کرے گا اصل مسئلہ شام کے باشندوں کا ہوگا کہ ان کے لئے نئی قیادت امن و امان اور لقمۂ حیات کا انتظام کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتی ہے۔ کیونکہ اس کا پورا امکان ہے کہ بشار الاسد نے ملکی خزانہ میں کچھ نہیں چھوڑا ہوگا۔ اس موقع پر نئی قیادت کو بہت عقل مندی اور ہوش کے ساتھ قدم اٹھانا ہوگا تاکہ ان کا انجام مصر کے صدر مرسی جیسا نہ ہو۔ ان کی ذرا سی بے احتیاطی سے انہیں دہشت گردوں کی فہرست میں ڈال دیا جائے گا اور ھیئۃ تحریر الشام کے ماضی کی بنیاد پر انہیں مسترد کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے لئے انہیں بہت محتاط رہ کر واضح روڈ میپ کے ساتھ کام کرنا ہوگا۔ کیونکہ وہ اس بات سے چشم پوشی نہیں کر سکتے کہ ان کی آمد سے خطہ کے بعض ممالک بھی اسی طرح پریشان ہیں جس طرح مغرب کی وہ طاقتیں جو اسلام کے نام پر کھڑی ہونے والی ہر تحریک اور پارٹی کو ظلم و تعدی کا ذریعہ مان کر انہیں اپنے مسلسل پروپیگنڈوں کے بل پر بے قیمت بنا دیتی ہیں۔ نئی قیادت کو ان دونوں طاقتوں سے الجھنے کے بجائے ان کے ساتھ صبر اور حکمت عملی سے پیش آنا ہوگا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ دونوں کے خوف یا شک کی بنیاد درست نہیں ہے۔ احمد الشرع کی قیادت والی ھیئۃ تحریر الشام کا عمل اب تک قابل ستائش رہا ہے لیکن چیلنجز کا طویل اور مشکل مرحلہ ابھی باقی ہے۔ ایران جیسے پڑوسی ممالک بھی ہیں جن کو بشار الاسد کے جانے سے بڑا نقصان ہوا ہے۔ وہ مستقبل میں برے طریقہ سے شام پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس محاذ پر کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ وہ باہمی مفاہمت اور ماہر ڈپلومیسی کے ذریعہ ان کے خدشات کو دور کریں اور شامی عوام کے مفادات کے لئے ان سے بھی صحتمند تعلقات کی مضبوط بنیاد تیار کریں۔ خطہ کے ممالک کے علاوہ یوروپی یونین اور امریکہ کا مسئلہ آئے گا۔ زیادہ امکان تو یہ ہے کہ شام کے تئیں یوروپ کا موقف جارحانہ نہیں ہوگا کیونکہ عالمی سطح پر اب ان کی وہ قوت باقی نہیں رہ گئی ہے جو کبھی ماضی میں ہوا کرتی تھی۔ البتہ امریکہ کے ساتھ تعلقات کی بنیادوں کو طے کرتے وقت یہ ضرور دیکھا جائے گا انقلاب پسندوں میں کتنی مہارت پائی جاتی ہے۔ شام کے تعلق سے امریکی موقف بہت واضح تو نہیں ہے لیکن کرد مسلح جماعتوں کے ساتھ اس کا اتحاد اندرونی استحکام کے لئے ہمیشہ خطرہ بنا رہے گا۔ اگر اپوزیشن جماعتیں اس اعتبار سے کامیاب ہوجاتی ہیں کہ تمام مسلح جماعتوں کو قومی فوج کا حصہ بنالیں اور ہر طبقہ کی مناسب نمائندگی کو یقینی بنا دیا جائے اور کرد بھی اس سے مستثنیٰ نہ رہیں تو ملک شام کو نئے طریقہ سے بنانا آسان ہوسکتا ہے۔ ماضی کی غلطیوں کے لئے انتقام کا راستہ اختیار نہ کیا جائے۔ ملک کا ایسا دستورلکھا جائے جس میں سب کے حقوق کی حفاظت کا انتظام ہو، انتخابات کے ذریعہ نمائندے منتخب کئے جائیں، عدالت کا مضبوط نظام قائم ہو جہاں مظلوموں کو واضح اصولوں کے مطابق عدالت سے انصاف ملے اور جن کے حقوق تلف ہوئے ہیں انہیں معاوضہ عطا کیا جائے۔ ہر ایک کا ساتھ رہے گا تبھی یہ تباہ شدہ ملک دوبارہ سے نئی قوت کے ساتھ کھڑا ہو پائے گا۔ کیونکہ تعمیر نو کے لئے نئی قیادت کو داخلی طور پر سب کے تعاون کے علاوہ خارجی سطح پر پڑوسی ممالک اور امریکہ و مغرب کی مالی مدد بھی درکار ہوگی۔
نئی قیادت کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے معاملے کیسے حل کرتا ہے کیونکہ صہیونی ریاست اس کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بنے گی۔ اس کا عملی ثبوت اس نے بشار نظام کے زوال کے فوراً بعد ہی دے دیا ہے اور شام کی سیادت کو پامال کیا ہے۔ اسرائیل کو تب تک سکون نہیں آئے گا جب تک وہ شام کو اس حد تک کمزور نہ کردے کہ مستقبل میں اس کے لئے یہ ملک خطرہ نہ بن سکے۔ شام کے تمام بحری بیڑے اور عسکری ٹھکانے مسلسل اسرائیلی حملوں کی زد میں ہیں اور اکثر جنگی ذخائر ختم کر دیئے گئے ہیں اور جبل الشیخ، گولان ہائٹ اور خالی علاقے پر اسرائیل قابض ہوچکا ہے۔ خطہ کے عرب ممالک نے اسرائیل کی اس جارحیت پر روایتی بیانات ضرور دیئے ہیں لیکن حقیقت کی زمین پر ان کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ جب یہ ممالک غزہ کے قتل عام کو روکنے میں سنجیدہ اور متحد نہیں ہوپائے تو ان سے یہ امید رکھنا کہ شامی سیادت کی حفاظت میں ان کا کوئی رول ہوسکتا ہے بالکل غیر منطقی بات ہوگی۔ اس لحاظ سے نئی قیادت کو سخت آزمائش سے گزرنا ہوگا جہاں انہیں ایک طرف اپنی سیادت کو بچانا ہے اور دوسری طرف اپنے عوام کو صہیونی بربریت سے محفوظ رکھ کر ان کی ترقی و بہبودی کا بھی انتظام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ انہیں غزہ کے مظلومین کی امیدوں پر بھی پورا اترنا ہوگا جو بڑی امید کے ساتھ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں اور ان کی کامیابی پر خوش ہیں۔ نئی قیادت یقینا ان تمام چیلنجز سے آگاہ ہوگی۔ ان کا کام بہت مشکل ہے لیکن وہ اس کو اس صورت میں صحیح طور پر انجام دے سکتے ہیں کہ وہ اپنی پلاننگ کے ہر مرحلہ میں شام کے تمام طبقوں کو شریک رکھیں اور ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کریں۔ قوموں کے تجربے بتاتے ہیں کہ جنہوں نے بھی سب کو ملا کر ایک متحد محاذ تیار کیا ہے وہ ضرور کامیاب ہوئے ہیں۔ یہی نسخہ شام کے لئے بھی صبحِ نو کی نوید بن سکتا ہے۔
(مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں)