بھگوا پھریرا لہرانے کی عجلت

0

میدان سے کہسار تک بھگواپھریرالہرانے اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کیلئے بھارتیہ جنتاپارٹی اتنی جلدی میں ہے کہ وہ رائے عامہ ہموار کرنے کی راہ دشوار پر قدم قدم چلنے کے بجائے جست لگاکر یکلخت منزل تک پہنچناچاہتی ہے۔اس کاز کیلئے مقننہ اور انتظامیہ کو پہلے سے ہی موم کی ناک بنارکھا ہے، عدلیہ کو بھی دھیرے دھیرے اس مقام پر لے آئی ہے جہاں من چاہافیصلہ حاصل کرنا اس کیلئے آسان بن چکا ہے۔ بابری مسجد، طلاق ثلاثہ اور دوسرے کئی حساس معاملات میں پی ایم او اور عدلیہ کا ’ من تو شدم تو من شدی ‘کا مکروہ منظرتخلیق کرنے کے کامیاب تجربہ نے اس کے حوصلہ کو اتنا بڑھادیا ہے کہ اب اس کے ’اپنوں‘ کے بھی دامن و گریباں اس سے محفوظ نہیںرہے ہیں۔
شمال مشرق کی ریاست منی پور میں ہندو اکثریت مائتی طبقہ اور مقامی قبائلیوں کے درمیان خوں ریزلڑائی عدالت کے ایسے ہی ایک فیصلے سے شروع ہوئی ہے اورآج پوری ریاست ایک بھڑکتے ہوئے الائو میں تبدیل ہوگئی ہے۔ آگ کی لپٹیں سب کو اپنی زدمیں لے رہی ہیں، نہ وہاں کے قدیم قبائلی باشندے محفوظ ہیں اور نہ مائتی طبقہ جن کے ہاتھوں منی پور کی پہاڑیوں میںبھگواپھریرالہرانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ شورش اور بدامنی کے شکار منی پور میں حالات کو قابو میںرکھنے کیلئے باقاعدہ فوج اتارنی پڑی ہے۔اکثرا ضلاع میں رات کا کرفیو نافذ ہے اور اپنی ہی زمین پر اپنے ہی لوگوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کا وحشیانہ حکم جاری کیاگیا ہے۔ بدامنی کو محدود کرنے کیلئے انٹر نیٹ اور دیگر مواصلاتی ذرائع پا نچ دنوں کیلئے بند کردیے گئے ہیں۔ویسے بھی زبان بندی کا یہ ظالمانہ طریقہ بی جے پی کو بہت محبو ب اورمظاہروں پر قابو پانے کا سب سے آسان ہتھیارلگتا ہے۔
منی پور میں تشدد اور بدامنی کا یہ تازہ واقعہ مائتی طبقہ کو درج فہرست قبائل کا درجہ دیے جانے کے عدالتی فیصلہ کے بعد ہوا ہے۔ ناگا اور کوکی برادریوں کی طرح مائتی بھی منی پور کی ایک بڑی برادری سمجھی جاتی ہے۔ناگااور کوکی کو اس ریاست میں درج فہرست قبائل کا درجہ حاصل ہے اور ان قبائل کی اکثریت عیسائی ہے جب کہ مائتی طبقہ میں ہندو غالب اکثریت ہیں۔مائتی طبقہ کو اب تک غیر قبائلی سمجھا جاتا تھا، لیکن اسی سال مارچ کے مہینہ میں منی پور ہائی کورٹ نے مائتی طبقہ کو درج فہرست قبیلہ کا درجہ دینے کا حکم دیا۔ یہ حکم 19 اپریل کو ہائی کورٹ کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے یہاں عدم اطمینان کی چنگاری سلگنے لگی اور اب اس نے آگ کی شکل اختیار کرلی ہے کیونکہ اب اس عدالتی فیصلہ کے بعدریاست میںقبائلیوں اور غیر قبائلیوں کے درمیان زمین اور دیگر سہولیات کے حق کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔90فیصد پہاڑی اور 10فیصد میدانی علاقہ پر مشتمل منی پور کے ریاستی قانون کے مطابق پہاڑی علاقے میں صرف قبائلی ہی آباد ہو سکتے ہیں، جب کہ 10فیصد میدانی علاقہ غیر قبائلیوں کیلئے ہے اور اگر قبائلی چاہیں تو وہ میدانی علاقوں میں بھی رہ سکتے ہیں۔ اس طرح مائتی طبقہ کی بود وباش کیلئے ریاست کا صرف میدانی علاقہ تھا لیکن اب درج فہرست قبائل کا درجہ ملنے کے بعد پہاڑی علاقہ بھی ان کی رسائی میں آگیا ہے۔اس کے ساتھ ہی ملازمت اور تعلیمی اداروں میں ان کے ریزرویشن کا معاملہ بھی نئی صورت میںتنازع کا سبب بن گیا ہے۔
ویسے بھی منی پور ہندوستان میں اپنے انضمام کے بعد سے شورش کی تجربہ گاہ رہاہے، اس شورش کو اس وقت اور ہوا ملی جب منی پور کو مکمل ریاست کا درجہ دینے میں تاخیر کی گئی۔ 15اکتوبر1949کو ہندوستان میں منی پور کو ضم کرنے کے بعد سے مکمل ریاست کا درجہ دینے میں تقریباًربع صدی لگ گئی۔اس کی وجہ سے وہاں کے لوگوںمیں عدم اطمینان کی لہریں اٹھیں، مطالبات، مظاہروں اور احتجاج سے ہوتے ہوئے عسکریت پسندی کا غلبہ ہوگیا۔کئی عسکریت پسند تنظیمیںوجود میں آئیں جن میں پیپلز لبریشن آرمی(پی ایل اے)، پیپلز ریوولیوشنری پارٹی آف کنگلیپک (پی آر ای پی اے کے)،کنگلیپک کمیونسٹ پارٹی (کے سی پی ) اور کنگلی یاول کنا لوپ (کے وائی کے ایل )شامل ہیں۔ اسی پہاڑی اور قبائلی تنازع کی وجہ سے 1990کی دہائی میںیہاں ناگا-کوکی کا خوں ریز تنازع ہندوستان کی تاریخ کا تاریک باب بناہواہے۔
اگر وہاں کے مقامی قبائلیوں کو اعتماد میں لے کر ان سے بات چیت کی جاتی اوران کے تحفظات کو بھی وزن دیا جاتا تو عین ممکن ہے کہ منی پور میں اس تشدد اور فساد سے بچا جاسکتا تھا۔ لیکن ہندوراشٹر بنانے اور میدان سے کہسار تک بھگواپھریرا لہرانے کی عجلت میں بغیر کسی بات چیت اور مشاورت کے ہندو اکثریت مائتی طبقہ کوا چانک قبائلیوںکا درجہ دے دیاگیا اور انہیں منی پور کے قدیم باشندوںکے مساوی پہاڑوں تک رسائی دے دی گئی جو اب ریاست بھر میں تشدد اور آگ زنی کا سبب بناہوا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS