ایم اے کنول جعفری
گزشتہ کئی برسوں سے پیار،محبت،دوستی ،بھائی چارے اور قربانی کی مثالیں پیش کرکے دلوں میں قربت پیدا کرنے والی فلموں کے لیے جانی جانے والی انڈسٹری میں کچھ الگ قسم کی مووی بنانے کا کریز بڑھا ہے۔اس سے انسانیت، اخوت، جمہوری نظام اور آپسی بھائی چارے کو متاثر کرنے کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔سیاسی مفاد کے لیے مذہبی جنون کو فروغ دینے، نفرت کے بیج بونے اور دلوں میں دُوریاں پیدا کرنے والی فلمیں جس طرح رفتار پکڑ رہی ہے، اُسے کسی بھی صورت میں ٹھیک نہیں کہا جا سکتا۔مستقبل قریب میں اس کے غلط اثرات مرتب ہونا لازمی ہے۔ زعفرانی جماعتوں کی منصوبہ بندی کے تحت ایسی فلمیں انتخابات سے قبل دکھانے سے بھی یہ واضح ہو تا ہے کہ اَب اقتدار میں رہنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ ’دی کشمیر فائلس‘ اور ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کے بعد ’اجمیر92-‘ اور’-72 حوریں‘ اسی کی زندہ مثالیںہیں۔بی جے پی کے قدآور رہنما لال کرشن اڈوانی کے ذریعہ 25 ستمبر 1990 کو سومنات سے ایودھیا تک نکالی جانے والی رتھ یاترا سے پہلے عام طورسے لوگ مذہبی جنون سے پاک صاف تھے۔ یاترا کے بعدبابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کے مطالبے کی دھمک شہری کوچوںسے نکل کر گاؤں دیہات کی گلیوں تک پہنچ گئی۔آر ایس ایس،بی جے پی،بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی زعفرانی تنظیموں نے سیاسی مفاد کو دیکھتے ہوئے پولرائزیشن کو ترجیح دی۔ اٹل بہاری واجپئی کے دوراقتدار میںخاموش رہنے والے پارٹی رہنما 2014 میں نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد فعال ہو گئے۔دیکھتے ہی دیکھتے مذہب کی اُونچی ہوتی دیوار کے اردگرد ایسا ماحول بنا دیاگیا کہ ہندوستانی کی پہچان’ہندو‘ اور’مسلم‘ کے طور پرکی جانے لگی۔
کبھی مایا نگری میں تاریخ،محبت، مذہب، تفریح، المیہ، غربت، بھوک،زراعت، مزدور، زمیندار، تعلیم، روزگار، ملک کی ترقی اور تحفظ کو مرکز میں رکھ کر فلمیں بنائی جاتی تھیں ، لیکن اَب ایسا نہیںہے۔ وقت کے ساتھ تبدیلیوں کا دور شروع ہواتو فلمیں بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔موجودہ دور کاالمیہ یہ ہے کہ کئی ایسی فلمیں منظرعام پرآئیں یا آنے والی ہیں،جن میں سیاسی مفادکو فوقیت دیتے ہوئے حقائق کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔یہ بات آئینے کی طرح صاف ہے کہ کوئی بھی فلم ایک دم نہیں بن جاتی، اس کے لیے باقاعدہ پلاننگ کرنی پڑتی ہے۔فلم کی کہانی کو اپنی سوچ اور اپنے نظریات کے مطابق لکھوایا جاتا ہے۔ فسادات کے اُو پر فلمیں پہلے بھی بنی ہیں،لیکن ان کی کہانی اس طرح پیش کی جاتی رہی کہ لوگ فسادات سے نفرت کرنے پر مجبور ہوجائیں۔فلموں میں قتل کو ناپسندیدہ عمل قرار دیتے ہوئے امن و امان اور ہم آہنگی کوقائم رکھنے کے لیے دل سے کام کیا گیا۔اس کا مقصد عوام کو یہ پیغام دینا تھا کہ یکجہتی، اتحاد، بھائی چارہ اور رواداری ہماری طاقت ہے۔ یہ گنگا جمنی تہذیب کی بقا اور ہندو-مسلم ہم آہنگی کے لیے انتہائی ضروری ہے، لیکن پراگندہ ذہنیت اسے ناکام بنانے، معاشرے میں زہر گھولنے، نفرت کی کھیتی کرنے اور خاص مذہب کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے جانے دینا نہیں چاہتی۔اگر ایسا نہیں ہے تو ’ دی کشمیر فائلس‘، ’دی کیرالہ اسٹوری‘، ’اجمیر92- ‘ اور ’-72حوریں‘ جیسی پروپیگنڈہ فلمیں کبھی وجود میں نہیں آتیں۔ ہندو-مسلم کرونا لوجی کو سمجھیں،تو معلوم پڑے گا کہ اس طرح کی فلم بنانے اور ریلیز کرنے کا تعلق کسی نہ کسی انتخابات سے ضرور ہے۔ الیکشن سے قبل ووٹوں کے پولرائزیشن کے لیے بھڑکاؤ فلم ریلیز کرنا جمہوری نظام کے لیے کسی بھی صورت میں سودمند نہیں ہے۔
1990میںکشمیر سے پنڈتوں کے انخلا اور نسل کشی پربنی فلم ’دی کشمیر فائلس‘ کا 21فروری 2022کو پروموہوا۔ اُس وقت اترپردیش، گوا، منی پور، پنجاب اور اتراکھنڈ میںاسمبلی الیکشن کی بنا پر ضابطہ اخلاق نافذ تھا۔ ٹریلر آتے ہی وبال مچ گیا۔ بی جے پی کے سابق ایوان بالا رکن سبھاش چندر کے ذی اسٹوڈیوپروڈکشن کے بینر تلے بنی فلم کی بی جے پی کے ذریعہ تشہیر اور وزیراعظم نریندر مودی و وزیر داخلہ امت شاہ کی حمایت سے پارٹی کو فائدہ پہنچا۔ ڈبل انجن والی ریاستوں میں اسے ٹیکس فری کیا گیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ فلم میں دکھائے گئے آدھے سچ کا مقصداکثریتی فرقے کو پولرائزڈ کرنا ہے۔ اسی طرح مارچ 2023میں تریپورہ، میگھالیہ،ناگالینڈ اور کرناٹک میں اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا۔ بی جے پی کے لیے بڑے صوبے کرناٹک میں جیت ضروری تھی۔پہلے حجاب اور پھر بجرنگ بلی کو ایشو بنایا گیا۔ بات نہیں بنی تو 26 اپریل 2023کو پڑوسی ریاست کیرالہ کے ’لوجہاد‘ پر مبنی پروپیگنڈہ فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘کا ٹریلر جاری کرکے 5مئی کو فلم ریلیز کی گئی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ’دی کشمیر فائلس‘ کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کی ذہن سازی کرکے نفرت کا زہر بھرنے میں جو کمی رہ گئی تھی، اُسے ’دی کیرالہ اسٹوری‘ نے پورا کردیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے الیکشن ریلی میں ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کا ذکر کرکے ووٹوں کے پولرائزیشن کی کوشش کی ، لیکن تبدیلی کا من بنا چکے عوام نے بی جے پی کوباہر کا راستہ دکھاتے ہوئے کرناٹک کا اقتدار کانگریس کو سونپ دیا۔ وپل امرت لال شاہ کے سن شائن پروڈکشن کے بینر تلے بنی فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ کا دوسرے صوبوں میں اثر دیکھا گیا۔ 2024 کے عام انتخابات سے قبل اسی برس راجستھان، مدھیہ پردیش،چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں انتخابات ہونے ہیں۔جون2023میں نفرت کو بڑھاوادینے والی ایک دیگر فلم ’اجمیر92-‘ کا ٹریلر جاری کیا جا چکا ہے۔یہ فلم 1992 میں اجمیر کے اسکول کالجوں میں تعلیم حاصل کرنے والی تقریباً 250لڑکیوں کے ساتھ ریپ اور ویڈیو کے ذریعہ بلیک میل کی وارداتوں پر مبنی ہے۔اسے 7جولائی سے دکھایا جائے گا۔انل امبانی کی ریلائنس پروڈکشن کے بینر تلے بنی فلم کا مقصد راجستھان کے انتخابات میں ووٹوں کا پولرائزیشن نہیں تو کیا کہا جائے گا؟ اسی ترتیب میں ایک اور فلم ’-72حوریں‘ بنائی گئی۔حالانکہ اس کا تعلق کسی صوبے، کمیونٹی یا فرقہ وارانہ واردات سے نہیں ہے، لیکن 11ستمبر (9/11) 2001کو امریکہ کے نیویارک میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر اغوا شدہ مسافر بردار طیاروں سے حملہ اور ہندوستان کے شہر ممبئی میں 26نومبر (26/11)2008 میں پاکستانی دہشت گرد تنظیم لشکر طیبہ کا حملہ ،12مار1993کو ممبئی میں یعقوب میمن کی قیادت میں سلسلے وار بم دھماکے، مولانا اظہر مسعود کی قیادت والی تنظیم جیش پر 19اپریل 2000 کو سری نگر، دسمبر 2001 میں دہلی پارلیمنٹ، 2016 میں پٹھان کوٹ ایئر بیس ، کشمیر کے مزار شریف میں انڈین قونصل خانے اور اُڑی میں فوجی ہیڈ کوارٹر پر حملے کے لیے جیش محمد اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو ہندوستان کے خلاف دہشت گردانہ سرگرمیوں کے واقعات کی تصاویر کے ساتھ اُسامہ بن لادین،عامر اجمل قصاب، یعقوب میمن، مسعود اظہر اور حافظ سعید کے فوٹوز دکھاکر یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہزاروں بے گناہوں کی جان لینے والے مذہبی جنون میں مبتلا سبھی دہشت گرد مسلمان ہیں۔ جہاد میں قربانی دینے والے ہر شخص کو جنت میں 72حوریں ملیں گی۔ مسلمانوں کو ٹارگیٹ کرکے بنائی گئی پروپیگنڈہ فلم کاایک ہی مقصدہے، انتخابات! ووٹ!!اور پولرائزیشن!!! قرآن کریم اور احادیث میں حور ملنے کا ذکر ان لوگوں کے لیے ہے،جو ایمان کے ساتھ نیک اور اچھے عمل کرکے جنت میں جائیں گے۔ مسلم ملک میں رہنے اور مسلم کے ذریعہ کسی غیر مسلم یا دوسری کمیونٹی کے شخص کو قتل کرنے والا شخص دہشت گرد ہے۔دہشت گرد کوحور ملنا تو دُور،اُسے جنت کی خوشبو بھی نہیں ملے گی۔ بے وجہ دہشت گرد کو 72حوریں ملنے کا پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے،جبکہ دنیا میں فساد پھیلانے والے شخص کے لیے جنت ہے ہی نہیں۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]