مسلم خواتین کا بچوں کی تعلیم و تربیت میں رول: خواجہ عبدالمنتقم

0

خواجہ عبدالمنتقم

اسلام نے عورت کو تاریکی کے غار سے نکال کر ایک روشن مستقبل کی طرف گامزن کیا تھا اور ترقی کے اس عمل میں عورت کو برابر کے حقوق دیے۔ اس حدیث کی کہ علم حاصل کرو چاہے چین(یعنی دوردراز علاقہ) ہی کیوں نہ جانا پڑے،معنویت تاہنوز باقی ہے اور ہمیشہ رہے گی۔ یہاں تعلیم سے مراد صرف مذہبی تعلیم ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی تعلیم بشمول دینی تعلیم مراد ہے مگر اس کے باوجود کچھ جنونی لوگ مسلم بچیوں اور خواتین کو صرف گھر کی چہار دیواری میں محدود کر کے تعلیم سے محروم کرنا چاہتے ہیں تو ان کی مرضی،شاید وہ مسلمانوں کو پھر عہد جاہلیت میں لے جانا چاہتے ہیں۔ ہر کامیاب انسان کے پیچھے ایک عورت ہوتی ہے۔ اگر اس مقولے کو صحیح مان لیا جائے تو یہ عورت ماں بھی تو ہوسکتی ہے۔علی برادران کی ماں اماں بی اس کی ایک انتہائی معتبر مثال ہیں۔ جس طرح charity begins from home یعنی صدقہ گھر سے شروع ہوتا ہے، اسی طرح ایک بچہ کی تربیت کا آغاز بھی گھر سے ہوتا ہے اور اسی لیے گھر کو بچے کی تربیت کی پہلی منزل کہا جاتا ہے۔
ماں کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلائے اور تادیبی و اخلاقی زیور تعلیم سے آراستہ کرائے۔ اب یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ مسلم خواتین،خواہ بنا پڑھی لکھی ہی کیوں نہ ہوں اور دیہاتوں میں رہتی ہوں،تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے لگی ہیں اور اقتصادی پسماندگی اور کبھی کبھی سماجی مخالفت کے باوجود اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم دلانے کے لیے آگے آرہی ہیں۔اب یہ قیاس کہ جدید تعلیم حاصل کرنے کا مطلب شر م و حیا کو بالائے طاق رکھنے کے مترادف ہے محض دماغی اختراع ہے۔ آج کی بچیاں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ حیا ہی انسان کو معصیت، گناہ، نافرمانی اور کسی بھی برے کام سے روکتی ہے۔ جہاں ذاتِ گرامی قدر حضرت رسالت مآبؐ میں دوسرے اوصاف حمیدہ بدرجہ اتم موجود تھے، وہاں آپؐ شرم وحیا کی صفت میں بھی ممتاز ومنفرد تھے۔

در اصل ماں اور بچے کے مابین ایک اٹوٹ رشتہ ہے اور ماں بچے کو بچپن سے جو کچھ سکھاتی ہے، اس کا اثر تاحیات باقی رہتا ہے۔ اگرماں اپنے بچے کو بروقت برے کام سے دور رہنے کی نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے نصیحت کرتی رہے گی تو وہ یقینی طور پر ایک اچھا انسان بنے گا۔خواتین کا ہر شعبۂ حیات میں الگ الگ رول ہوتاہے جیسے بطور ماں، بطور استانی، بطور بیوی، بطور سیاست داں، بطور سماجی کارکن، بطور ایڈمنسٹریٹر اوربطور سفارت کار وغیرہ مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ہر شعبۂ حیات میں نمایاں کرداروبہتر رول تبھی ادا کرسکتی ہے جب وہ تعلیم یافتہ ہو یا اسے علمی ماحول ملے۔
والدین آج کی نوجوان نسل میں بڑھتی بے راہ روی سے پریشان ہیںمگروہ لوگ جو اپنے بچوں کی بے راہ روی کی شکایت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کبھی کبھی وہ خود بھی کسی حد تک اس کے ذمہ دار ہوتے ہیںچونکہ بچوں کی بے راہ روی ان کی بچو ں کے تئیں عدم توجہ کا نتیجہ ہوتی ہے۔ بچے ہمارے کل کے رہنما، ہمارے ملک و قوم کے مستقبل کے امین اور موجودہ نسل کے جانشین ہوتے ہیں۔ اگر ہم نے بروقت ان کی صحیح تربیت نہیں کی تووہ کیا رہنمائی کر پائیںگے؟ ماں باپ کی ہمیشہ یہ خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد ان سے بہتر ہو۔ اسی طرح ہر موجودہ نسل یہ چاہتی ہے کہ آنے والی نسل موجودہ نسل سے بہتر ہو اور اپنے ملک اور قوم کا نام روشن کرے۔ بچے بلاشبہ اس درخت کی مانند ہوتے ہیں جو ایک چھوٹے سے پودے کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی جڑیں مضبوط ہوتی رہتی ہیں اور جب اس کی جڑیں مکمل طور پر مضبوط ہوجاتی ہیں، تبھی یہ بات کہی جاتی ہے کہ وہ ایک مکمل درخت بن چکا ہے۔ اسی طرح ایک بچہ جس کی نشوونما صحیح طریقے سے کی جائے اور جس کی بنیاد مضبوط ہو، وہ یقینا کل کا اچھا شہری بنے گا اور وہ نہ صرف اپنے ملک کے لیے بلکہ پوری عالمی برادری کے لیے ایک بہترین سرمایہ ہوگا۔

تمام ممالک اور دنیا کے تمام لوگ اس بات کو محسوس کرتے ہیں کہ بچوں کی اچھی نشوونما ہونی چاہیے۔ ان کی اچھی نشوونما کے لیے والدین کو ان کی بہتر تعلیم کے ساتھ ساتھ درج ذیل باتوں پر بھی دھیان دینا ہوگا:
٭بچوں کے دوستوں اور بچیوں کی سہیلیوں پر خاص نظر رکھیںچونکہ پرانی کہاوت ہے کہ انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے اور فہم عامہ کی رو سے بھی یہ صحیح قیاس ہے۔

٭آج کل ہم بچوں کو الگ کمرہ، کمپیوٹر اور موبائل جیسی سہولیات دے کر ان کی طرف سے غافل ہو جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ان میں کیا دیکھ رہے ہیں۔بچوں پر نظر رکھنا سخت ضروری ہے لیکن ان کے ساتھ سختی سے پیش نہ آئیں بلکہ محبت سے اور پیار سے کام لیںاور ہوسکے تو خود ان کے ساتھ بیٹھ جائیں مگر انہیں یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ کوئی زبردستی ہو رہی ہے۔
٭بچہ اچھی یا بری ہر قسم کی چیز کا اثر فوراً قبول کرتا ہے، اس لیے اس کی دلچسپی دیکھتے ہوئے اسے کسی صحت مند مشغلہ میں مصروف رکھیں۔ٹی وی وغیرہ میں انہیں معلوماتی پروگرام اور صاف ستھرے سیریل وغیرہ دیکھنے اور ویڈیو گیمز کھیلنے سے نہ روکیں لیکن اعتدال سے کام لیں۔ زیادہ سختی کرنے سے بھی بچہ کی نفسیات پر منفی اثر پڑتا ہے اور وہ باغی بھی ہو سکتا ہے۔

٭ایسے کھیل جن میں جسمانی مشقت زیادہ ہو، وہ بچوں کے لیے بہترین ہوتے ہیںتاکہ بچے کھیل کود میں خوب تھکیں اور اچھی،گہری نیند سوئیں مگر کھیل کے وقت کھیل اور کام کے وقت کام یعنی پڑھائی کے وقت پڑھائی کے اصول کو نظرمیں رکھیں۔
٭ لڑکے اور لڑکی کو برابر سمجھیں اور ان کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیاز نہ برتیں۔ یہ والدین کی نہ صرف اخلاقی بلکہ قانونی ذمہ داری بھی ہے۔
٭والدین بچوں کے سامنے ایک دوسرے سے بے تکلفی کے معاملے میں احتیاط برتیں ورنہ بچے وقت سے پہلے ان باتوں کے متعلق با شعور ہو جائیں گے جن سے ایک مناسب عمر میں جا کر ہی آگاہی مناسب ہوتی ہے۔

٭ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کو بتائیں کہ اس دنیا میں سب انسان برابر پیدا ہوتے ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ کوئی کسی مالدار گھر میں پیدا ہوتا ہے کوئی کسی غریب گھر میں لیکن انسان، انسانیت اور انسانی حقوق کی رو سے ہروہ شخص برابر ہے جو اس دنیا میں آیا ہے۔ نہ کوئی چھوٹا ہے اور نہ کوئی بڑا۔ ویسے بھی انسان بڑا یا چھوٹا اپنے کام سے ہی بنتا ہے۔ حقیر اور کمتر وہ ہے جوکم ظرفی کا مظاہرہ کرے، دوسروں کو حقیر سمجھے اور خود کو دوسروں سے اعلیٰ تر۔ قانونی، اخلاقی،دینی اور دنیوی اعتبار سے ہم تمام انسان برابر ہیں اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کو نفرت کی نگاہ سے دیکھے یا اس کے ساتھ غلط سلوک کرے۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS