پروفیسر عتیق احمدفاروقی
اگلے ماہ کی چار تاریخ کو برطانیہ میں عام انتخابات ہونے جارہے ہیں ۔اگریہ اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق ہوتے تو سال کے آخری مہینوں میں ووٹ ڈالے جاتے مگر ہند نژاد وزیراعظم رشی سنک نے وقت سے پہلے چناؤ میں اترنے کافیصلہ کیاہے ۔دراصل برسراقتدار کنزرویٹیو پارٹی کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گررہاتھا۔ پارٹی کے اندر بھی نااتفاقیاں تھیں۔ بھلے ہی 14سال سے یہ برسر اقتدار ہے لیکن قیادت کے محاذ پر گزشتہ کچھ برسوں میں پارٹی میں کافی اتھل پتھل دیکھی گئی۔ لہٰذا وزیراعظم سنک کاماننا تھاکہ پارٹی کی داخلی نااتفاقیوں کو ختم کرنے اورعوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے چناؤ میں اترنا مناسب ہوگا۔ اقتصادی محاذ پر ملک کو ملے فائدے سے انہیں اپنے اس منصوبے کو پائے تکمیل تک پہنچانے میں مدد ملی۔ بہرحال رشی سنک بھلے ہی اقتدارمیں واپسی کاخواب دیکھ رہے ہیں، پرچناؤ رجحان اس کے برعکس ہے۔ یہ بتارہے ہیںکہ یہ چناؤ نہ صرف برطانی سیاست میں دوررس اثر ڈال سکتے ہیں بلکہ اسے بنیادی طورپر بدل بھی سکتے ہیں۔ کئی میں تو مخالف لیبر پارٹی کی بڑی فتح کے امکان دکھائے جارہے ہیں۔ حامیوں کی نظرمیں یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد پارٹی کی سب سے بڑی جیت ہوسکتی ہے۔ دراصل سال 1997 میں ٹونی بلیر نے لبرپارٹی کو میاناروای راہ پر چلاکر اور ’نیو لبر‘کی وکالت کرکے کنزرویٹیو پارٹی سے اقتدار چھیننا تھا مگر 2010میں ڈیوڈکیمرن کی قیادت میں کنزرویٹیوایم پی دوبارہ حکومت بنانے میں کامیاب رہے۔ یہاں تک کہ برگزٹ کے بعد بھی انہیں کامیابی حاصل ہوئی اورکنزرویٹیو پارٹی کو پارٹی آف ’گورننس‘کہاجانے لگا۔ اب لبر پارٹی بھی میانا روی راہ پر چل رہی ہے۔
ویسے ان انتخابات میں چند چھوٹی پارٹیوں کا بھی اہم کردار ہوسکتاہے مثلاً برگزٹ کے ایک اہم کردار نائزلے فراز کی’ ریفارم یوکے پارٹی‘ کنزرویٹیو کے ووٹ کاٹ سکتی ہے۔بیشک یہ بہت زیادہ نشستیں نہ جیت سکے ، لیکن نئی پارٹی کے طور پر اپنی دھمک کا ضرور مظاہرہ کررہی ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتاہے کہ کنزرویٹیو پارٹی کے تئیں بے رخی کے سبب لوگوں کا اعتماد دوسری پارٹیوں میں بڑھاہے۔ برسراقتدار پارٹی کے تئیں یہ ناراضگی یوں ہی نہیں پنپی ہے ، خصوصاً کووڈ وباکے بعد سے لوگوں کی معیشت بہت نہیں سنبھل سکی ہے۔ یہاں رہائش کا خرچ بڑھ گیاہے اورمہنگائی بھی کم نہیں ہے۔ لہٰذا یہ نظریہ زور پکڑرہاہے کہ حکمرانی کیلئے بنی پارٹی اب ملک سنبھالنے کے اہل نہیں رہی۔ اسی طرح مہاجرین کا مسئلہ بھی ایک بڑا انتخابی ایشو ہے۔ کہاگیاتھاکہ برگزٹ کے بعد برطانیہ کو اس معاملے میں خود مختاری مل جائے گی لیکن اب تک ایسا نہیں ہوسکاہے۔ نیشنل ہیلتھ سروس جیسے سماجی کاموں میں فنڈ کی کمی ، ٹیکس کا بڑھنا وغیرہ مدعے بھی کنزرویٹیو کی سیاسی زمین کمزور کررہے ہیں۔ یہ چناؤ برطانیہ میں رہنے والے قریب بیس لاکھ ہندنژاد شہریوں کیلئے بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کا کردار انتخابات میں مسلسل بڑھ رہاہے۔ وہاں ہندو -مسلم -سکھ سے متعلق مدعے بھی اٹھ رہے ہیں۔’ ہندو فارڈیموکریسی‘نامی گروپ نے ہندو منشور تک جاری کردیاہے ۔ پہلے ہندنژاد شہریوں کا ووٹ لبر پارٹی کو جاتاتھا لیکن جیسے جیسے یہ آبادی خوشحال ہوتی گئی اس کارجحان کنزرویٹیو کی جانب بڑھتاگیا۔ سال 2019کے انتخابات میں دس سے زیادہ ہندوستانیوں کا چنا جانا اسی کی تصدیق کررہاتھا، جن میں رشی سنک ایک بڑا نام تھا۔ یہاں ہندوستانیوں کی شناخت بدل رہی ہے اوروہ قیادت کے کردار میں آنے لگے ہیں۔ نتیجتاً ہندوستان سے جڑے مدعے انتخابات میں مؤثر دکھنے لگے ہیں۔ اس کی جھلک گزشتہ انتخابات میں بھی دکھی تھی، جب ہندوستانی ہائی کمیشن کے سامنے خالصتانیوں کے تشدد آمیز مظاہرہ کی حمایت لبر پارٹی کے چند لیڈران نے کی تھی جس کی مخالفت میں ہندوستانیوں نے کنزرویٹیو کا ساتھ دے کر ان کو اقتدار دلادیا۔ ہندوستانیوں پر کنزرویٹیو کی گرفت اب بھی مضبوط ہے کیونکہ ان کی پالیسی ہندوستان کے مفاد میں رہی ہے۔ اتنا ہی نہیں یہاں ہندوستانیوں کی ایک بڑی آبادی کاروبار میں ملوث ہے اورکنزرویٹیو کو کاروباریوں کی حامی پارٹی ماناجاتاہے۔
ہندوستان سے جڑے مدعے یہاں کے انتخابات میں کس قدر حاوی رہتے ہیں۔ اس کی ایک تازی مثال ہے ، کنزرویٹیو پارٹی کے امیدوار کے ذریعے کشمیر کے مدعہ کواٹھانا ۔ کیونکہ برطانیہ کے چند حلقہ رائے دہندگان میں پاکستان سے آئے مہاجرین کاغلبہ ہے اس لئے یہاں ہند مخالف بیانیہ بھی خوب چلائے جاتے ہیں۔ اس بار بھی کنزرویٹیو کے امیدوار مارکولونگی نے ایک خط لکھ کر رائے دہندگان سے اپیل کی کہ کشمیر کے مدعے کو اگر پارلیمان میں اٹھاناہے تولبر پارٹی کے بجائے ان کو ووٹ دیاجائے ۔ حالانکہ اس کا زبردست ردعمل سامنے آیاہے۔ خودکنزرویٹیو پارٹی کے اندر اس خط کو لیکر سخت مخالفت دیکھی گئی ہے دراصل یہاں ہند نژاد شہریوں کا کردار جس تیزی سے بدلا ہے ،دونوں پارٹیاں خود کو ہند حامی بتانے کی کوشش میں ہیں۔ اسی سبب گزشتہ چند برسوں میں برطانیہ نے ہندوستان کے تئیں اپنی سفارتی پالیسی بھی بدلی ہے۔
بہت پہلے کی بات نہیں ہے جب برطانیہ ہندوستان کے مقابلے پاکستان اورچین کے ساتھ کھڑا دکھتاتھا کیونکہ داخلی سیاست اسے اسلام آباد کے خلاف جانے نہیں دیتی اوربیجنگ کے ساتھ اس کے اہم اقتصادی رشتے تھے۔ مگر ڈیوڈ کیمرن کی مدتِ کار میں یہ حالات بدلے اوردوطرفہ رشتے میں لگاتار اصلاح کی گئی ۔ خصوصاً برگزٹ کے بعد برطانیہ کو نئے بازار اور نئی خارجہ پالیسی کی ضرورت تھی جس کے سبب برطانیہ کے حکمرانوں نے ہند بحرالکاہل پر زوردینا شروع کیا۔ یہاں انہوں نے نئے معاونین تلاش کئے اوراقتدار میں توازن پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چونکہ ہندبحرالکاہل کا ایک بڑا کھلاڑی ہندوستان ہے اس لئے نئی دہلی کے ساتھ لندن نے اپنے اسٹیٹجک اوراقتصادی دونوں تعلقات میں سدھار کئے ۔ توقع کی جانی چاہیے کہ یہ رشتہ برطانیہ میں ممکنہ اقتدار کی تبدیلی کے بعد بھی قائم رہے گا کیونکہ ہندوستان ایک تیزترقی پذیر معیشت ہے ۔اس بات کا بھی بھروسہ ہے کہ اس آزاد تجارتی قرار (فری ٹریڈ ایگری منٹ )پر بھی اب حتمی رضامندی ہوجائے گی جس کے بارے میں کہاجارہاہے کہ قبل ازوقت چناؤ کے سبب اسے ٹال دیاگیاہے۔ اگریہ قرار نافذ ہواتو دونوں ممالک کے رشتہ ایک نئی بلندی پر پہنچ جائیں گے۔
[email protected]