بی جے پی کیلئے عام انتخابات کی راہ آسان ہو گئی

0

راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان کیا جا چکا ہے۔ یہ نتائج چونکانے والے ہیں اور یہ احساس دلانے والے بھی کہ کئی بارانتخابی فضا کی تبدیلی کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوتا۔ جو نتائج آئے، وہ کیوں آئے؟ اس پر سینئر جرنلسٹ قربان علی کی آرا جاننا ضروری ہوگا، کیونکہ وہ بے باکی سے بولتے ہیں اور حقائق کے مطابق بولتے ہیں۔ قربان علی کے مطابق، ’حالیہ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شاندار کامیابی کے لیے کریڈٹ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو دینا ہوگا۔ یہ ان کی محنت اور حالات کو سمجھنے کی وجہ سے ممکن ہوا کہ مدھیہ پردیش میں بی جے پی اپنی حکومت بچانے میں کامیاب رہی۔ چھتیس گڑھ اور راجستھان میں حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ تلنگانہ میں بھی اس کی سیٹوں اور ووٹوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہیے کہ ان اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے انتخابی تشہیر کے دوران جس طرح اکثریتی طبقے کے کمیونل ایجنڈے کو بڑھاوا دیا یا اس کے متوقع وزیراعلیٰ کے امیدوار جو بیانات دے رہے ہیں، وہ ملک کے لیے خوش آئند نہیں ہے۔‘
قربان علی کے مطابق، ’کرناٹک میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد کانگریس کو یہ اطمینان سا ہو گیا تھا کہ مدھیہ پردیش میں حکومت اسی کی بنے گی۔ اسے یہ بھی اطمینان تھا کہ چھتیس گڑھ میں اس کی پوزیشن بہت اچھی ہے۔ وہاں اس کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ راجستھان میں ایک طرف فلاحی اسکیموں کی وجہ سے اور دوسری طرف بی جے پی کی اندرونی رسہ کشی کی وجہ سے، خاص کر وسندھرا راجے کی ناراضگی کی وجہ سے کانگریس کو یہ امید تھی کہ راجستھان میں ایک بار ایک پارٹی، دوسری بار دوسری پارٹی کو موقع دینے کی روایت کو وہ توڑنے میں کامیاب رہے گی لیکن وہ یہ سمجھنے سے قاصر رہی کہ خوداس کے اندر رسی کشی چل رہی ہے۔ سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت کے رشتے مسلسل خراب رہے۔ اس کا اثر گوجر ووٹرس پر پڑا۔ پچھلی بار 2018 میں گوجروں نے اس امید میں کانگریس کی جیت میں اہم رول ادا کیا تھا کہ وزیراعلیٰ سچن پائلٹ کو بنایا جائے گا۔ ایسا نہیں ہوا۔ ادھر بی جے پی وسندھرا راجے کو منانے میں کامیاب رہی۔ ان کے لوگوںکو ٹکٹ دے دیا اور جنگی پیمانے پر انتخابی تشہیر کی جس کی وجہ سے راجستھان کے علاوہ چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش میں بھی اسے بڑی کامیابی ملی۔‘
قربان علی کے مطابق، ’انتخابی نتائج کانگریس کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ اس کے لیڈران خوش فہمی میں کیوں رہتے ہیں۔ راجستھان،مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ میں شکست کے لیے کانگریس اعلیٰ کمان بھی ذمہ دار ہے۔راجستھان میں سچن پائلٹ اور اشوک گہلوت، مدھیہ پردیش میں کمل ناتھ اور دگ وجے سنگھ، چھتیس گڑھ میں بھوپیش بگھیل اور ٹی ایس سنگھ دیئو کے رشتوں کو بروقت سمجھ نہیں سکی، یہ اندازہ نہیں لگا سکی کہ اس کے اثرات انتخابی نتائج پر کیسے پڑیں گے۔ چھتیس گڑھ میں وزیراعلیٰ کی دعویداری کرنے والے نائب وزیر اعلیٰ ٹی ایس سنگھ دیئو 94 ووٹوں سے ہار گئے۔ رہی بات بھوپیش بگھیل کی تو چھتیس گڑھ میں جیت کے سلسلے میں کانگریس کو حد سے زیادہ پراعتماد بنانے میں انہیں کا رول تھا جبکہ ’’دی انڈین ایکسپریس‘‘ کے ایک پروگرام میں وہ دہلی آئے تھے اور میں نے ان سے کہا تھا کہ آپ کی ریاست میں عیسائی اور مسلم اقلیتوں کے ساتھ بڑا ظلم ہو رہا ہے اورآپ کی سرکار اس معاملے میں بی جے پی سرکار سے بہتر نہیں تو وہ چپ رہے تھے۔ ان کے پاس جواب نہیں تھا۔ انہیں لگتا تھا کہ وہ سیاہ کریں، سفید کریں، سافٹ ہندوتو کا کارڈ کھیلیں، سرکارانہیں کی بنے گی لیکن بی جے پی نے کرناٹک کی انتخابی شکست کے بعد گاؤں گاؤں، محلے محلے جاکر کام کیا۔ چھتیس گڑھ میں 15 سال اس کی حکومت رہی تھی، رمن سنگھ کا کیا ہوا کام تھا یعنی زمین تھی بی جے پی کے پاس، اسے بس کام کرنا تھا اور اس نے کیا۔ اس کا اسے رزلٹ ملا۔‘
قربان علی کے مطابق، ’مدھیہ پردیش میں کانگریس کی جیت کے بڑے امکانات تھے لیکن کمل ناتھ نے شیو راج سنگھ حکومت کے خلاف انٹی اِنکمبینسی فیکٹرپر کچھ زیادہ ہی اعتماد کرلیا۔ وہ کانگریس کی سیکولرزم کی بنیادی آئیڈیا لوجی کوبالائے طاق رکھ کر ہندو کارڈ کھیلنے لگے۔ کہنے لگے، ہم 82 فیصد ہیں، یہ ہندو راشٹر ہی ہے۔ یہ کہا کہ رام مندربنوانے کی راہ راجیوگاندھی نے ہی آسان کی۔ وہ ایک سادھو کو ہیلی کاپٹر میں لے کر گھومتے رہے۔ دوسری طرف شیوراج سنگھ چوہان نے بڑے سلیقے سے کام کیا۔ ’’مکھیہ منتری لاڈلی بہنا یوجنا‘‘ متعارف کرایا۔ اس کی وجہ سے بی جے پی کو عورتوں کا کافی ووٹ ملا۔ اس کے علاوہ ہرحال میں جیتنے کے لیے بی جے پی نے مرکزی وزرا اور ارکان پارلیمان تک کو انتخابی میدان میں اتارا۔ یہی کام اس نے راجستھان میں بھی کیا تھا۔ اس کا بی جے پی کو فائدہ ملا۔‘
قربان علی کا کہنا ہے کہ ’ایک حد سے زیادہ پراعتماد ہونا جیسے کانگریس کو چھتیس گڑھ میں بھاری پڑا اسی طرح ایک حد سے زیادہ پراعتماد ہونا بی آر ایس کو تلنگانہ میں بھاری پڑا۔ اس میں دو رائے نہیں ہے کہ تلنگانہ میں کے چندرشیکھر راؤ نے کام کیا ہے، تلنگانہ کی تشکیل کے لیے بڑی جدوجہد کی تھی، جان کی بازی لگا دی تھی لیکن تلنگانہ میں کانگریس کے لیڈر ریونت ریڈی بڑی اچھی طرح بی آر ایس پر بدعنوانی کا الزام چسپاں کرنے میں کامیاب رہے۔ کے چندرشیکھر راؤ اس الزام کے دائرے سے اسی طرح باہر نہیں نکل پائے جیسے 1989 میں راجیو گاندھی بوفورس معاملے میں وی پی سنگھ کے 64 کروڑ کی بدعنوانی کے الزام سے نجات نہیں پا سکے تھے اور ان کی پارٹی ہا ر گئی تھی جبکہ راجیو پر جو الزام عائد کیا گیا تھا،کبھی ثابت ہی نہیں ہوسکا۔ خیر، بات ہو رہی تھی تلنگانہ کی۔ وہاں آخری کے دس دنوں میں حالات زیادہ بدلے۔ دراصل کے چندرشیکھر راؤ جس طرح کے بیانات دے رہے تھے، اس سے کہیں یہ میسیج چلا گیا کہ بی آر ایس اور بی جے پی میں اندرون خانہ کوئی بات طے ہو گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا یکمشت ووٹ کانگریس کو ملا اور کئی سالوں بعد تلنگانہ میں وہ حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ راجستھان، مدھیہ پردیش اور چھتیس گڑھ میں بی جے پی اگر ہار جاتی تو 2024 کے عام انتخابات میں اس کی پوزیشن کمزور ہوتی، یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ پی ایم مودی کمزور پڑ گئے ہیں لیکن ان ریاستوں میں جیت نے بی جے پی کے لیے 2024 کے عام انتخابات کی راہ ہموار کر دی ہے، وزیراعظم نریندر مودی کی پوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی ہے۔ دوسری جانب ان ریاستی انتخابات کے بعد، جو عام انتخابات کے سیمی فائنل کہے جا رہے تھے، اپوزیشن اتحاد ’’انڈیا‘‘کمزور ہوا ہے۔ اس کی وجہ صاف ہے۔ کانگریس اتنے ’’اَہنکار‘‘ میں تھی کہ اس نے اتحادی پارٹیوں کو ساتھ لینا مناسب نہیں سمجھا جبکہ سماجوادی پارٹی، بھارت آدیواسی پارٹی یا باپ (BAP)، گونڈوانا گَن تنتر پارٹی وغیرہ پارٹیوںکو کچھ سیٹیں دے دیتی تو اس کے حق میں ایک ماحول بنتا۔ تھوڑا ہی سہی لیکن اس کے ووٹ فیصد میں اضافہ ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایک ریاست میں جیت اور بقیہ ریاستوں میں شکست کے بعد کانگریس نے ’’انڈیا‘‘ کا اجلاس بلانے کے لیے کہا تھا لیکن ممتا بنرجی نے منع کر دیا ہے۔ نتیش کمار کے رخ میں بھی سردمہری نظر آرہی ہے۔ اکھلیش یادو توکانگریس پر تنقید کر ہی رہے ہیں۔ ان سب کے باوجود راہل گاندھی کہہ رہے ہیں کہ بی جے پی کو ہرا دیں گے لیکن جنوری میں رام مندر کا افتتاح ہونا ہے اور امکان اس بات کا ہے کہ اس کے بعد عام انتخابات قبل از وقت کرا دیے جائیں گے، چنانچہ ان ریاستوں کے انتخابی نتائج کی بڑی اہمیت ہے۔‘n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS