طالبان کے عروج، زوال اور اب دوبارہ عروج کی کہانی

0
image:indiatoday.in

کابل (ایجنسی) :طالبان کا عروج 90 کی دہائی میں ہوا جب سوویت یونین کے فوجی افغانستان سے نکل رہے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان کی تحریک پہلے دینی مدارس میں شروع ہوئی تھی۔اس تحریک میں سنی اسلام کے بنیاد پرست عقائد کی تشہیر کی گئی۔ بعد میں انھوں نے پشتون علاقے میں امن و سلامتی کے قیام کے ساتھ ساتھ شریعت کے بنیادی اصولوں کو نافذ کرنے کا وعدہ کیا۔پروفیسر پنت کا خیال ہے کہ افغانستان میں حکمرانی کے لیے طالبان کے لیے کوئی ماڈل نہیں۔’ان کا اپنا ایک بنیاد پرست نظریہ ہے جسے وہ نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ اب تک ان کا ایجنڈا امریکہ کو افغانستان سے نکالنا تھا جس میں وہ کامیاب رہے ہیں۔ لیکن اس کے بعد بھی ان کے تمام دھڑوں میں اتحاد رہے گا، ابھی یہ کہنا مشکل ہے۔‘
’جب تک افغانستان میں کسی نئے سیاسی عمل کا آغاز نہیں ہوتا اس وقت تک کچھ بھی کہنا مشکل ہے۔ طالبان کی ترجیح وہاں شرعی قانون نافذ کرنا ہو گی نہ کہ اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات قائم کرنا۔ ایسی صورتحال میں انڈیا اور طالبان کے درمیان نظریاتی اختلاف ہوں گے۔‘
طالبان اب پہلے سے بھی زیادہ بڑی تعداد میں موجود ہیں اور نیٹو کے اندازے کے مطابق ان کے لشکر میں اب 85 ہزار جنگجو شامل ہیں۔
طالبان نے 15 اگست تک ملک کے 34 میں سے 25 سے زیادہ صوبوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے اور ملک کا کوئی بھی اہم شہر ایسا نہیں جہاں طالبان کا قبضہ نہ ہو۔ اس مرتبہ کی پیش قدمی میں طالبان کی توجہ شمالی افغانستان کے ان علاقوں پر خاص طور پر رہی ہے جو ان کے گذشتہ دورِ اقتدار میں ان کے زیرِ اثر نہیں آ سکے تھے۔

طالبان کی پیش قدمی اکثر فریقین کی سوچ سے زیادہ تیز بھی رہی ہے۔ جنرل آسٹن ملر جو افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں موجود مشن کے کمانڈر ہیں نے جون میں خبردار کیا تھا کہ ملک میں بدترین خانہ جنگی کا آغاز ہو سکتا ہے جو دنیا بھر کے لیے ’خدشے کا باعث بن سکتا ہے۔‘
امریکی خفیہ اداروں کی جانب سے کیے گئے تجزیے کے مطابق افغان حکومت امریکی افواج کے انخلا کے چھ ماہ بعد ہی گر سکتی تھی تاہم طالبان انخلا کی حتمی تاریخ سے پہلے ہی کابل پہنچ کر اپنی حکومت بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔The rise,

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS