جب بھی ملک میں انتخابات ہوتے ہیں ، ٹکٹوں کی تقسیم سے پہلے ’آیا رام گیا رام ‘ کی صورت حال ہوتی ہے اورٹکٹوں کی تقسیم کے بعد بغاوت کی۔ جن لیڈروں کو پارٹی کا ٹکٹ نہیں ملتا، ان کی پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ دوسری پارٹی میں شامل ہوکر اس کا ٹکٹ حاصل کریں ۔کچھ اس کوشش میں کامیاب ہوجاتے ہیں، البتہ جو نہیں کامیاب ہوپاتے ہیں، وہ پارٹی سے بغاوت کرکے آزاد امیدوار کے طورپر کاغذات نامزدگی داخل کردیتے ہیں اور پارٹی کی ٹینشن بڑھادیتے ہیں۔مہاراشٹراسمبلی انتخابات میں کچھ اسی طرح کے حالات ہیں ۔بڑی مشکل سے حکمراں مہایوتی اوراپوزیشن مہاوکاس اگھاڑی کی پارٹیوں کے درمیان سیٹوں کیلئے زبردست رسہ کشی اورکئی دور کی بات چیت کے بعد آخری وقت میں ٹکٹوں کی تقسیم کا عمل پورا ہوا اورجب ہرپارٹی نے اپنے اپنے امیدوار وں کا اعلان کیا تو سبھی کو بغاوت کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔پارٹی نے جن لیڈروں کو ٹکٹ نہیں دیا، وہ آزاد یادوسرے الفاظ میں باغی امیدوار کے طور پر کھڑے ہوگئے ہیں ، جس سے پارٹیوں اوراتحاد کی پریشانی کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے، کیونکہ ان کے کھڑے ہونے سے کسی کا کھیل بگڑسکتاہے تو کسی کا بن سکتا ہے۔ ایک تو ویسے ہی ریاست کی 288نشستوں کیلئے 7994امیدواروں کے پرچہ نامزدگی منظور ہوگئے ہیں، جو مقابلہ سخت بناسکتے ہیں اورامیدواروں کی ہارجیت کے فرق کو کم کرسکتے ہیں، دوسری طرف بغاوت یا باغی امیدواروں سے کوئی بھی پارٹی یا اتحاد محفوظ نہیں ہے ۔ لیڈران خواہ کچھ بھی دعوی کریں ،کہا جارہاہے کہ حکمراں مہایوتی میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہاہے۔اس کیلئے بغاوت دردسر بن گئی ہے۔ اس پر قابوپانے کیلئے لیڈروں کو منانے اورمیٹنگوں کا دور چل رہاہے ۔مہاوکاس اگھاڑی کی پریشانی بھی مہایوتی سے کچھ کم نہیں ہے ۔بغاوت کی وجہ سے پارٹیاں انتخابی مہم کیلئے کمر نہیں کس پارہی ہیں، کیونکہ بغاوت ان کیلئے بڑا چیلنج بن کر سامنے آگئی ہے ۔
ایک رپورٹ کے مطابق دونوں اتحاد کے تقریباً 150باغی امیدواروں نے پرچہ نامزدگی داخل کردیا ہے۔باغی امیدواروں کومنانے اورنام واپس لینے کیلئے دبائو ڈالنے کی حکمت عملی تیار کرنے کی غرض سے مہایوتی کی ایک میٹنگ وزیراعلیٰ ایکناتھ شندے کی رہائش گاہ پر ہوچکی ہے ۔باغی امیدواروں کو سمجھانے کی کوشش کی جارہی ہے ،انہیں پارٹی دفتر میں بلایا جارہا ہے اور تادیبی کارروائی کی وارننگ دی جارہی ہے، لیکن وہ ماننے کو تیار نہیں ہیں ۔ظاہرسی بات ہے کہ اگر وہ پارٹی امیدوار کے حق میں نہیں آئے اورالیکشن میں کھڑے رہے، توامیدواروں کے ساتھ ساتھ پارٹی کی بھی پریشانی بڑھ سکتی ہے ۔حالات کچھ اسی رخ پر جاتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔کسی بھی پارٹی نے نہیں سوچاہوگاکہ اتحاد میں ٹکٹوں کی تقسیم سے زیادہ مشکل پارٹی کو متحد رکھنا ہوگا۔دراصل کہاں پہلے ریاست میں 2ہی اتحاد کے درمیان مقابلہ ہوتا تھا۔ ایک طرف بی جے پی -شیوسیناکا اتحاد ہوتاتھا ، تودوسری طرف کانگریس -این سی پی کا اتحاد ہوتاتھا۔ اگرچہ اب بھی مقابلہ 2اتحاد کے درمیان ہی ہوگا، لیکن اتحاد کی نوعیت بدل گئی ہے۔ پہلے دونوں اتحاد میں 2-2پارٹیاں ہوتی تھی اوراب 3-3پارٹیاں ہوگئی ہیں ۔ پہلے شیوسینا بی جے پی کے ساتھ ہوتی تھی ۔ اس بار کانگریس کے ساتھ ہے۔اسی طرح 2-2شیو سینا اور2-2این سی پی ہوگئی ہیں۔دونوں میں سے ایک ایک گروپ بی جے پی اورکانگریس کے ساتھ ہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ پہلی بارنئے اتحاد اورانتخابی منظرنامہ کی وجہ سے کانگریس ، بی جے پی اور شیوسیناپہلے سے کم سیٹوں پر الیکشن لڑرہی ہیں ۔اس کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، کیونکہ اتحاد میں شامل پارٹیاں کم سیٹوں پر الیکشن لڑنے کو تیار نہیں تھیں ، جس کی وجہ سے سبھی کو حالات سے سمجھوتہ کرناپڑا۔
ریاست میں بغاوت نے لوگوں کیلئے مقابلہ کو دلچسپ اورپارٹیوں کیلئے پریشان کن بنادیا ہے ۔ اس سے ووٹوں کی تقسیم کا امکان کافی بڑھ گیا ہے اورکسی بھی الیکشن میں ووٹوں کی تقسیم فیصلہ کن رول اداکرتی ہے ۔اسی سے امیدواروں کی ہارجیت طے ہوتی ہے ۔بڑی تعداد میں ایسی سیٹیںووٹوں کی گنتی میں سامنے آتی ہیں ، جہاں ووٹوں کی تقسیم کی وجہ سے امیدواروں کی ہارجیت کا فرق معمولی ہوتا ہے۔حال ہی میں ہریانہ اسمبلی انتخابات میں یہی دیکھنے کو ملا۔ معمولی معمولی فرق سے کوئی امیدوار جیت گیا توکوئی ہارگیا۔مہاراشٹر میں بھی کچھ ایسا ہی کھیلا ہوسکتا ہے ۔