ایم اے کنول جعفری
امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان ایشو پر جاری سرد جنگ کے ختم ہونے کا امکان فی الحال نظر نہیں آرہا ہے لیکن اس سرد جنگ کی وجہ ایک تائیوان ایشو ہی نہیں، تجارت، ایشیائی اور عالمی معاملات بھی ہیں۔ چین کا دعویٰ ہے کہ تائیوان اس کا حصہ ہے، جبکہ بائیڈن نے صاف الفاظ میں تائیوان کی حمایت کرنے کا اعلان ہی نہیں کیا ہے بلکہ چین کے ذریعے حملہ کرنے کی صورت میں اس کا دفاع کرنے کی بات بھی کہی ہے۔
تائیوان چین کے جنوب مشرقی ساحل سے تقریباً 120 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ بیجنگ جہاں تاریخ کے حوالے سے تائیوان کو چینی صوبہ کہتا ہے وہیں تائپے بھی اسی طرح کے حوالے سے یہ کہتا رہا ہے کہ وہ جدید چینی ریاست کا کبھی بھی حصہ نہیں رہا ہے۔ کئی مغربی ممالک نے چیانگ کے قائم کردہ جمہوریہ چین کی حکومت کو قانونی حکومت تسلیم کیا۔ اقوام متحدہ نے 1971 میں بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لیے۔ اس کے بعد تائیوان کی حکومت کو تسلیم کرنے والے ممالک کی تعداد گھٹ کر 15 رہ گئی۔ اس سب کے باوجود چین کا کہنا ہے کہ مستقبل میں تائیوان دوبارہ چین میں ضم ہو جائے گا۔ ایسا کرنے کے لیے اگر اسے طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑا تو وہ قطعی پیچھے نہیں ہٹے گا۔ دوسری جانب تائیوان خود کو ایک آزاد مملکت کے طور پر دیکھتے ہوئے دعویٰ کرتا ہے کہ وہاں جمہوری حکومت کام کر رہی ہے۔
تائیوان پر دو بڑی طاقتوں کی نظریں مرکوز ہیں۔ دونوں ہی اس سے فیض حاصل کرناچاہتی ہیں۔ واشنگٹن، تائیوان کے بہتر محل وقوع اور بازار ہونے کی وجہ سے بھی تائپے کی حمایت کرتا ہے۔ ستمبر 2021 میں امریکہ نے آسٹریلیا اور برطانیہ کے ساتھ’آکس‘ نامی سہ فریقی اتحاد قائم کیا۔اس کا مقصد آسٹریلیا کو مستحکم بنانا اور مشرقی بحرالکاہل میں چین کے بڑھتے ہوئے عسکری عزائم پر قدغن لگانا بھی ہے۔ ’کواڈ‘ کا مقصد بھی چین مخالف اتحاد کو مضبوط کرنا ہے۔ ادھر کے دنوں میں امریکہ اور چین کے تعلقات مزید خراب ہوئے ہیں۔ چین کا ایک غبارہ امریکہ کی فضائی حدود میں نظر آیا تو اس نے اسے جاسوس غبارہ قرار دیتے ہوئے کارروائی کی۔امریکہ نے 4 فروری، 2023 کی دوپہر 2 بج کر 39 منٹ پر جنوبی کیرولینا میں امریکی ساحل سے قریب 9.65 کلومیٹر کے فاصلے پر بحر اوقیانوس میں چینی غبارے کو مار گرایا۔ امریکی وزارت دفاع کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل پیٹ رائڈر نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن کی ہدایت پر غبارے کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکی فضائیہ کے مطابق ورجینیا کے لینگلے ہوائی اڈے سے اڑان بھرنے والے ایک لڑاکا طیارے نے میزائل داغی، جس سے غبارہ امریکہ کی فضائی حدود میں سمندر میں جا گرا۔ چین نے اگلے روز اس کارروائی پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ نے بغیر پائلٹ کے سویلین طیاروں کے خلاف طاقت کے استعمال سے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔ اسے موسمی تحقیق کے غبارے کو مار گرانے کے لیے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ چین نے الزام لگایا کہ اس طرح کے غبارے امریکہ بھی اس کے علاقے میں بھیجتا رہا ہے۔ اس نے کم سے کم 10 مرتبہ ایسا کیا ہے۔ چین نے گرائے گئے غبارے کا ملبہ لوٹانے کی بات کہی تو امریکہ نے مشتبہ غبارے کے ملبے میں سینسرس، اینٹیا اور دیگر الیکٹرانک آلات پائے جانے کا دعویٰ کیا۔ فضا میں اڑنے والی الگ الگ ساخت کی تین دیگر چیزیں بھی امریکہ نے مار گرائی ہیں۔ ان سبھی کی جانچ کی جا رہی ہے۔ غبارہ مارگرانے اور اس کے ذریعے جاسوسی کرنے کے الزام کے بعد دونوں ملکوں کے خراب رشتے اور زیادہ تلخ ہو گئے۔ رشتے تلخ ہونے سے لڑائی اور ٹکراؤ کا ایک مرکز قائم ہو رہا ہے،جو دونوں بڑی طاقتوں کے لیے ہی نہیں، دنیا کے امن و چین کے لیے بھی بہتر نہیں ہے۔ غور طلب ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنازع کے باوجود امریکی ایوان نمائندگان کی اسپیکر نینسی پلوسی نے 2 اگست، 2022 کو تائیوان کا دورہ کیا تھا۔ اس کے بعد واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان تلخی بڑھ گئی تھی۔ گزشتہ 25 برسوں میں تائیوان کا دورہ کرنے والی وہ پہلی اعلیٰ ترین امریکی اہلکار تھیں۔ پلوسی نے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت تائیوان میں قیام کیا لیکن چین بھڑک گیا۔ اس کی ناراضگی کا اندازہ اسی سے ہو جاتا ہے کہ اس کی جانب سے فوری طور پر آئے ردعمل میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا تھا کہ آگ سے کھیلنے والے جل جائیں گے۔ چین نے پلوسی کے دورے کو اپنی خود مختاری کی سنگین خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے ’ون چائنا ون پالیسی‘ کے اصول کے لیے ایک چیلنج تصور کیا۔ چین نے پلوسی دورے پر ردعمل کے طور پر تائیوان کے آس پاس نہ صرف فوجی مشقوں کا اعلان کیا بلکہ دوران مشق بیلیسٹک میزائلوں کا بھی استعمال کیا۔ اس کے علاوہ تیسری مرتبہ چین کے صدر بننے والے شی جن پنگ نے پیپلز لبریشن آرمی سے کہا کہ وہ اپنی تمام تر توانائیاں جنگ لڑنے پر مرکوز کرتے ہوئے فتح کی صلاحیت پیدا کریں۔ کہا گیا کہ فوج کو جنگ کی تیاری کرنی ہوگی، کیونکہ چین کو ایک غیر مستحکم اور غیر واضح پو زیشن کا سامنا ہے۔ کنگس کالج لندن میں بین الاقوامی امور دفاع اور چین-مغرب تعلقات کے ماہر زینو لیونی نے ’بی بی سی‘ کے ساتھ بات چیت میں یہ کہا تھا کہ ’یہ ایک طرح کی جغرافیائی رکاوٹ ہے جو جنوبی جاپان سے شروع ہوتی ہے اور تائیوان اور فلپائین سے ہوتی ہوئی بحیرۂ جنوبی چین تک جاتی ہے۔ یہ سردجنگ کے دور کا تصور ہے۔‘ ان کے مطابق، چین کا پہلے ہی بحیرۂ جنوبی چین پر بہت زیادہ فوجی اثر ورسوخ ہے لیکن اگر اس کے پاس تائیوان بھی ہو تو اس سے وہ اپنے بحری اثر و رسوخ کو مزید بڑھا سکتا ہے۔ اس سے اسے اس علاقے پر مکمل کنٹرول حاصل ہو سکتا ہے۔ اتنا ہی نہیں، عالمی تجارت پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔ اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ، گھڑیاں اور گیم کنسولز کے علاوہ دنیا بھر میں روزانہ استعمال ہونے والے الیکٹرانک آلات کی زیادہ تر چپس تائیوان کی بنی ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اس صنعت میں تائیوان کی سیمی کنڈکٹر مینو فیکچرنگ کمپنی آدھے عالمی بازار کو کنٹرول کرتی ہے۔ اگر تائیوان کا انضمام چین میں ہو جاتا ہے تو اس کا دنیا کی اہم ترین صنعتوں میں سے ایک پر کنٹرول حاصل ہو جائے گا۔
دراصل امریکہ اور چین ٹیکنالو جی کے شعبے میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ قابل غور ہے کہ اگر الیکٹرانک آلات کی چپس چین کے قبضے میں آجاتی ہیں تو پھرمغربی ممالک تک ان کی رسائی ناممکن ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس صورت میں انہیں اپنی ضروریات کی چپس تو خود تیار کرنی ہی پڑیں گی، ان کی قیمتوں میں بھی یقینی طور پر اضافہ ہو جائے گا۔ اتنے پر ہی بس نہیں ہے۔ یہ رجحان دوسری صنعتوں کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اور چین کے درمیان وقت گزرنے کے ساتھ تعلقات بہتر ہو سکیں گے یا نہیں؟ چین کا بڑی طاقت بن کر ابھرنا امریکہ کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ چین خود کو عسکری، معاشی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں نئے پیشوا کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ چین اب امریکہ کو برتر قوت تسلیم نہیں کرتا اور وہ کسی بھی طرح امریکی دباؤ کو خاطر میں نہیں لائے گا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ امریکہ چین کو ایک اسٹرٹیجک حریف اور ایک چیلنج کے طور پر دیکھتا ہے۔ سپر پاور امریکہ چین کو اپنے عالمی غلبے کے لیے زبردست خطرہ سمجھتا ہے۔ حالانکہ 6نومبر، 2022 کو چینی صدر شی جن پنگ نے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں امریکی صدر جو بائیڈن سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ وہ ہمیشہ کی طرح چین-امریکہ تعلقات میں اسٹرٹیجک امور اوراہم عالمی و علاقائی امور پر ان کے ساتھ صاف دل اور سنجیدگی سے تبادلہ خیال کرنے کے خواہاں ہیں۔ دنیا کے مفاد کے لیے چین اور امریکہ کے تعلقات کو صحتمند اور مستحکم ترقی کی راہ پر لانے کے لیے وہ ایک ساتھ مل کر کام کرنے کے انتظار میں ہیں۔ اس کے جواب میں بائیڈن نے کہا تھا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم امریکہ اور چین کے درمیان فرق سے نمٹنے، مسابقت کو تنازعات میں تبدیل ہونے سے روکنے اور ہنگامی عالمی مسائل پر تعاون کے طریقے تلاش کرنے کی صلاحیت کا مظاہرہ کریں۔ دو بڑی طاقتوں کی حیثیت سے امریکہ اور چین کی ذمہ داری ہے کہ وہ تعمیری تعلقات برقرار رکھیں۔ امریکہ، چین کے نظام کا احترام کرتا ہے۔ اسے تبدیل کرنے یا نئی سرد جنگ کا خواہاں نہیں ہے۔ اس سب کے باوجود فی الحال دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی ختم ہونے کے آثارنظر نہیں آرہے ہیں جبکہ دنیا میں امن و سلامتی اور استحکام کا بڑی حد تک انحصار ان دونوں بڑی طاقتوں کے مابین تعلقات پر بھی ہے۔n
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]