امریکی امداد کی حقیقت

0

امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں۔ بات چاہے یوکرین جنگ کی ہو یا غزہ جنگ کی، وہ بیان پہلے دیتے ہیں اور پھر اس کی حقیقت سامنے آتی ہے۔ حال ہی میں ٹرمپ نے یہ بات کہی تھی کہ ’غزہ میں امداد پہنچانے کے لیے امریکہ ’’بہت ساری رقم دے رہا ہے‘‘ اور حماس نے اس میں سے بہت کچھ چرا لیا ہے۔‘اس پر یقین کرنا مشکل تھا، کیونکہ وہ اگر بطور امداد بہت ساری رقم دے رہا ہوتا، اہل غزہ تک امریکی امداد پہنچ رہی ہوتی تو ان کے جسم کی ہڈیاں نظر نہ آرہی ہوتیں۔ حماس کی طرف سے امداد چرانے کے الزام کی تردید کر دی گئی تھی۔ ٹرمپ نے یہ بات بھی کہی تھی کہ ’غزہ میں کوئی خاص بھکمری نہیں ہے۔‘مگر بعد میں ان کی طرف سے یہ بیان بھی آیا تھا کہ وہ اسرائیل کے وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی اس یقین دہانی پر قائل نہیں ہیں کہ غزہ میں کوئی بھکمری نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ میں ’حقیقی بھکمری‘ ہے ۔ اب جبکہ ان کی طرف سے یہ بات مان لی گئی تو یہ سوال فطری طور پر اٹھے گا کہ غزہ کے لوگوں کی بھوک مٹانے کے لیے امریکہ کیا کر رہا ہے؟

کیا اسے یہ نظر آرہا ہے کہ غزہ کی آبادی روزانہ کم ہو رہی ہے؟ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے غزہ کے لیے 60 ملین یعنی 6کروڑ ڈالر کی امداد دینے کے دعوے کیے گئے تھے مگر امریکہ کی وزارت خارجہ کی وضاحت سے ان کے بیان کی حقیقت سامنے آگئی ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کے مطابق، امداد کے لیے 30 ملین یعنی 3 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے تھے۔اس رقم میں سے 3 ملین یعنی 30 لاکھ ڈالر ہی خرچ کیے گئے۔یہ رقم ’غزہ ہیومنیٹرین فاؤنڈیشن‘نام کے ادارے کو فراہم کی گئی تھی۔ یہ ادارہ امریکی اور اسرائیلی تعاون سے چلنے والے غذائی تقسیم کے نظام کو دیکھتا ہے۔یہ ادارہ بہت فعال ہوتا تو غزہ کے لوگوں کی بھوک کی وجہ سے ایسی حالت نہ ہوتی۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے مطابق، ’غزہ ہیومنیٹرین فاؤنڈیشن مالی قلت اور اسرائیلی منظوری کے بغیر شمالی غزہ میں مزید مراکز کھولنے سے قاصر ہے۔‘صدر امریکہ غزہ کے لوگوں کے حالات بہتر بنانے کے حق میں ہوتے تو وہ سب سے پہلے وہاں غذاکی سپلائی پر توجہ دیتے۔ پھر اسرائیل اور حماس پر زور دے کر جنگ ختم کرانے کی کوشش کرتے لیکن ایسا لگتا ہے کہ غزہ جنگ ختم کرانے کے اپنے انتخابی وعدے کو ڈونالڈ ٹرمپ نے بھلا دیا ہے، کیونکہ وہ غزہ کو ساحلی تفریح گاہ بنانا چاہتے ہیں۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ گئی ہے کہ غزہ میں حالات کیا ہیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہڈیاں یوں ہی نظر نہیں آرہی ہیں، انہیں دانے دانے کے لیے محتاج کیا گیا ہے، بھوکا رکھا گیا ہے، یہ احساس دلایا گیا ہے کہ ان کی کچھ بھی حیثیت نہیں، انسان ہونا ان کے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ان تصویروں نے یوروپی لیڈروں کو پریشان کر دیا ہے، انسانیت پر ان کی بیان بازیوں کی حقیقت آشکارا ہو گئی ہے، ان کی انسانیت کا بھرم ٹوٹ گیا ہے، انہیں اپنے لوگوں کو جواب دینا مشکل ہو رہا ہے۔ غالباً یہ بھی ایک وجہ ہے کہ یوروپی ممالک کی طرف سے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ وہ فلسطین کو ایک ریاست کے طور پر ماننے کے لیے تیار ہیں جبکہ اس وقت فلسطینیوں کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل یہ بات ہے کہ جنگ ختم ہو، غزہ سے ملبہ ہٹاکر اہل غزہ کی امید بندھائی جائے، اس علاقے کو پھر سے آباد کیا جائے لیکن جنگ تو رک نہیں رہی ہے، روزانہ فلسطینیوں کے مارے جانے کی خبریں آتی ہیں، امداد کے متلاشی فلسطینیوں کے بھی مارے جانے کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اور انہیں ان کی ریاست کا خواب دکھایا جا رہا ہے مگر فلسطینی مجبور ہیں، بدعقل نہیں ہیں کہ وہ خفیہ منصوبوں کو سمجھ نہ سکیں۔ وہ یہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان پر مظالم کا سلسلہ جیسے جیسے دراز ہوتا جائے گا، اسرائیل کے اتحادیوں کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔ اب یہ الگ سوال ہے کہ کیا اس وقت تک غزہ میں کوئی بچے گا؟

اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ غزہ کے تمام لوگوں کا قتل کر دینا اسرائیلی فوج کے بس کی بات نہیں ہے۔ اس کے لیے اگر یہ ممکن ہوتا تو اس کے پاس اس طرح کے ہتھیار تھے کہ وہ ایسا کرسکتی تھی لیکن اس کے ایسا کرنے پر روس کے لیے بھی ایسا کرنا آسان ہو جاتا۔ یہ بات طے سی ہے کہ غزہ جنگ اگر ختم نہیں ہوئی تو یہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے منصوبوں پر بھاری پڑے گی اور وہ وقت تماشہ دیکھنے والے خطے کے لیڈروں کا وقت تو ہرگز نہیں ہوگا۔

edit2sahara@gmail.com

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS