آصف تنویرتیمی
توحید وسنت اسلام کی اساس ، عروج واقبال کا ضامن اور ہر قسم کے شرور وفتن سے بچاؤ کا ذریعہ ہے۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ اور اس کے عروج وزوال کی کہانی اس بات کی گواہ ہے کہ مسلمان جب تک قرآن وحدیث پر عمل پیرا رہے کامیاب وسرخ رو رہے۔ حکومتیں اور سلطنتیں ان کے ہاتھ رہیں۔ قیصر وکسری جیسی طاقتوں کو ان کا لوہا ماننا پڑا۔ اور مسلمان ان کے خزانوں کے مالک بنے۔ لیکن جب مسلمانوں نے توحید وسنت سے انحراف کرنا شروع کیا۔ زوال وانحطاط ان کا مقدر بن گئی۔ عزت ووقار کی جگہ ذلت ورسوائی نے چاروں سمت سے انہیں دبوچ لیا۔ جس کا سامناتاحال انہیں کرنا پڑرہا ہے۔
اس وقت دعوت و اصلاح کے نام پر بہت سارے لوگ میدان عمل میں نظر آتے ہیں۔اسلام اور مسلمانوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ قرآن وحدیث کا انہیں عالم تصور کیا جاتا ہے۔ جہاں پر مسلمانوں کی وکالت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے حکومت کی طرف سے انہیں دعوت دی جاتی ہے۔ میڈیا کی زینت بھی وہی بنتے ہیں۔ لاکھوں لوگ ان کی بات سنتے او رمتاثر ہوتے ہیں۔میرابھی ماننا ہے کہ علماء برادری کو سیاست اور حکومت تک پہنچا چاہئے۔ میڈیا کے ذریعہ اپنی بات عام وخاص تک پہنچانی چاہئے۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف شکوک وشبہات کا مسکت جواب دیا جانا چاہئے۔ لیکن ہر اسلامی اسکالر اس کا اہل قرار پائے، اور وہ مسلمانوں کا ترجمان بن جائے یہ قطعی مناسب نہیں ہے۔ دعوت واصلاح کے کچھ تقاضے اور اصول ہیں جنہیں بروئے کار لانا،اور اس میدان میں قدم رکھنے سے قبل قرآن وحدیث کا گہرا مطالعہ کرنا بہت ضروری ہے، جو آج کے بہت سارے مصلحین اور مبلغین میں نظر نہیں آتا۔جس کی وجہ سے وہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے فائدہ مند کم اور مصیبت زیادہ بنتے ہیں، جس کا مشاہدہ آئے دن ہم ٹیلویزن پر ہونے والے ڈیبیٹ میں کرتے ہیں۔
ذیل کے چند قرآنی نمونے سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ’’ انکار منکر‘‘ بلفظ دیگر اصلاح وسدھار کا مناسب طریقہ کیا ہوسکتا ہے۔ کسی سے بات کرتے وقت، فتوی دیتے وقت، یا فریق مخالف کا رد کرتے وقت ہمیں کیسے حکمت ومصلحت کا مظاہر کرنا چاہئے:
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا:’’جو شخص ایمان لانے کے بعد پھر اللہ کے ساتھ کفر کربیٹھے گا، سوائے اس آدمی کے جسے مجبور کیا گیا ہو، درانحالیکہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو، نہ کہ وہ شخص جس نے کفر کے لئے اپنا سینہ کھول دیا ہو، تو ایسے لوگوں پر اللہ کا غضب نازل ہوگا، اور ان کے لئے بڑا عذاب ہوگا‘‘۔( النحل: ۱۰۶)اس آیت کریمہ صاف طور پر یہ بتلایا گیا ہے کہ مشکل اوقات اور ایسی جگہوں پر جہاں جان جانے کا ڈر ہو ایک مسلمان کیسے اپنی جان ومال کی حفاظت کرتا ہے۔ اس کا ایمان وایقان کتنا مضبوط ہوتا ہے۔ جس دل میں ایمان کی حقیقی چاشنی سرایت کرجائے اسے لاکھ کوشش کے بعد نکالا نہیں جاسکتا۔
آیت کی تفسیر کے ضمن میں مشہور مفسر علامہ ڈاکٹر محمدلقمان السلفی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:’’ چونکہ اوپر کی آیتوں میں اسلام پر ثابت قدم رہنے والوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے، اسی لئے اب ان لوگوں کے لئے وعید شدید بتائی جارہی ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد کسی عارضی تکلیف ومصیبت کی وجہ سے دوبارہ کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس حکم سے ان لوگوں کو مستثنی کردیا گیا ہے جو ظلم وستم سے تنگ آکر جان بچانے کے لئے کفر کا کوئی کلمہ اپنی زبان پر لے آتے ہیں، لیکن دل سے کفر کو قبول نہیں کرتے ہیں‘‘۔( تیسیر الرحمن لبیان القرآن)
قرآن کریم کی سورت طہ میں موسی، ہارون علیہما السلام ،فرعون ،بنی اسرائیل،سامری کا تفصیل سے واقعہ موجود ہے۔ فرعون کی دہشت اور اس کے خوف کی مثالیں آج بھی کسی کی سختی اور جبر کو بتلانے کے لئے دی جاتی ہے۔ ایسے ماحول میں موسی علیہ السلام اور ان کے بھائی ہارون علیہ السلام نے اسلام کی نشر واشاعت کا فریضہ انجام دیا۔ کتاب وسنت کی بالادستی قائم کی۔ حکمت ومصلحت کو اپنی زندگی کا وطیرہ بنایا۔ داعیانہ اوصاف وکمالات پیدا کئے۔ ان ساری چیزوں کی طرف آیتوں میں اشارہ موجود ہے۔ جنہیں ہمیں پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص مذکورہ سورت میں وہ آیتیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں جن میں سامری کی فتنہ پروری کا تذکرہ اور ہارون علیہ السلام کی حکمت وبصیرت کو بتلایا گیا ہے۔سامری کی فتنہ سازی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ ڈاکٹر محمد لقمان السلفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’ فرعون کی ہلاکت کے بعد جب موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو لے کر آگے بڑھے، تو اللہ تعالی نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو لے کر جبل طور پر جائیں، اور وہاں چالیس دن اور رات کا روزہ رکھیں، تاکہ اللہ انہیں تورات عطاکرے۔ موسی علیہ السلام نے اپنے رب سے ہم کلام ہونے کے شوق میں عجلت سے کام لیا اور اکیلے کوہ طور کی طرف روانہ ہوگئے، اور اپنے بھائی ہارون علیہ السلام کو کہا کہ وہ بنی اسرائیل کو لے کر اطمینان سے آئیں۔ ان کی روانگی کے بعد’’ سامری‘‘ نے بنی اسرائیل کو فتنہ میں ڈال دیا۔ اس نے فرعونیوں کے چھوڑے ہوئے زیورات سے ایک بچھڑا بنایا، اور اس میں جبریل علیہ السلام کے گھوڑے کے کھر کے نیچے کی ایک مٹھی ڈال دی جس کی وجہ سے اس سے ایک آواز نکلنے لگی، اور بنی اسرائیل اس سے متاثر ہوکر اس کی عبادت کرنے لگے، اور موسی علیہ السلام کے پاس نہیں گئے۔ جب چالیس دن کی مدت پوری ہوگئی تو اللہ نے موسی علیہ السلام کو بذریعہ وحی بنی اسرائیل کی گمراہی کی خبر دی‘‘۔(تیسیر الرحمن لبیان القرآن،ص ۹۰۴)
موسی علیہ السلام جب کوہ طور سے آئے اور بنی اسرائیل کو بچھڑے کی عبادت کرتے دیکھا تو اپنے بھائی ہارون علیہ السلام پر سخت ناراض ہوئے۔ ان کو اپنے عتاب کا شکار بنایا۔ اللہ کی عبادت سے متعلق ایسی ہی غیرت اور حمیت ہمارے اندر بھی ہونی چاہئے۔ کسی حال میں غیر اللہ کی عبادت پر ہمیں راضی نہیں ہونا چاہئے۔ ان دنوں سیکولرازم کے نام پر ہمارے مسلمان سیاستداں جوکچھ کررہے ہیں انہیں اپنے محاسبہ کرنا چاہئے۔اور توحید وسنت کے چراغ کو ہرگز کفر وشرک کی جھونکوں سے بجھنے نہیں دینا چاہئے۔
موسی علیہ السلام کی ناراضگی پر ہارون علیہ السلام نے جو جواب دیا وہ ہمارے لئے نہایت اہم اور فتنے کے اس زمانے میں ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔قرآن کریم میں ہارون علیہ السلام کے جواب کا تذکرہ کیا ہے، کہا ہارون علیہ السلام نے:’’ اے میری ماں کے بیٹے! تم میری داڑی اور میرا سرنہ پکڑو، مجھے ڈر ہوا، تم کہوگے کہ میں نے بنی اسرائیل ک درمیان تفریق پیدا کردی، اور کہوگے کہ تم نے میرے حکم کا انتظام نہیں کیا‘‘۔( طہ: ۹۴)ہارون علیہ السلام کے اس جواب میں اس بات کا اعلان ہے کہ ایک مصلح اور مبلغ کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی دعوت سے قوم وسماج کو فائدہ زیادہ ہوگا یا نقصان،اگر اس کی کاوش سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونا طے ہو تو ایسی صورت میں اسے معمولی نقصان کو گوارہ کرلینا چاہئے تاکہ اس کی جگہ بڑا فتنہ سرنہ اٹھائے۔قرآن کریم کے اس سنہرے اصول کی لاعلمی کی وجہ سے آج سیاسی سطح پر مسلمانوں کی جو درگت بنی ہوئی ہے۔ اور ہمارے بعض قائدین اپنی تقریروں اور تحریروں سے جو نقصان پہنچا رہے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔
معروف اسلامی اسکالر علامہ ابن قیم الجوزیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’اعلام الموقعین‘‘ میں لکھا ہے:’’انکار منکر کے چار مراحل ہیں:(۱) ایک منکر ختم ہو اور اس کی جگہ دوسرا منکر لے لے(۲) منکر میں کمی واقع ہوجائے مکمل طور پر ختم نہ ہو(۳) پہلے منکر کے مثل دوسرا منکر پیدا ہوجائے(۴) پہلے منکر سے بڑا منکر کا سامنا کرنا پڑے‘‘۔(اعلام الموقعین عن رب العالمین) منکر کے مذکورہ چاروں مرحلوں میں پہلا اور دوسرا مرحلہ مشروع اور جائز ہے، تیسرا مرحلہ آدمی کی بصیرت اور زیرکی سے تعلق رکھتا ہے کہ ایسی صورت میں کیا کرنا بہتر رہے گا اور چوتھا مرحلہ بالکل حرام ہے، ایسی صورت میں آدمی کو صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔
موسی علیہ السلام اور خضر کا واقعہ بھی سورہ کہف میں ہمارے لئے نہایت مفید ہے کہ کیسے حضر نے موسی علیہ السلام کو علم وحکمت کی تعلیم دی۔ اور کیسے بڑے فتنے سے لڑنے کا طریقہ سکھایا۔ حضر نے اللہ کی حکمت کی خاطر جب کشتی میں سوراج کردیا۔ ایک لڑکے کو ذبح کردیا۔ اور گرتی دیوار کو سیدھی کردی تو موسی علیہ السلام سے وعدے کے مطابق صبر نہ ہوسکا، جگہ بہ جگہ استفسار کیا بالآخر موسی علیہ السلام کو حضر سے الگ ہونا پڑا۔ اس کے بعد حضر نے اللہ کی حکمت کو بیان کیا۔ جس سے موسی علیہ السلام غافل تھے۔پورے واقعہ کا مطالعہ ہمیں اس طرف توجہ دلاتا ہے کہ ہم بحیثیت داعی صبر وشکر سے کام لیں۔ بلاوجہ ہلکان اور پریشان ہونے کی کوشش نہ کریں۔جذبات میں آکر کوئی ایسا فیصلہ ہرگز نہ کریں جس سے قوم وسماج کو خطرہ لاحق ہو۔ اللہ کے فیصلہ پر ہر حال میں راضی رہیں۔