ڈاکٹر سیّد احمد قادری
کسی بھی ملک کی جمہوریت کے چار ستون ہوتے ہیں ۔ عدلیہ ، پارلیمنٹ ، انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ۔ ان میں سے ہمارے ملک کے تین ستون پارلیمنٹ ، انتظامیہ اور ذرائع ابلاغ کا جو حال ہے وہ روز روشن کی طرح اتنے عیاں ہیں کہ ان کی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے ۔اس لئے چار میں سے تین ستون کے جمہوری تقاضوں کے منافی طرز عمل کی تفصیل میں نہ جاکر میں سیدھے عدلیہ کی جانب آتا ہوں ۔جو ان دنوں ہر سنجیدہ طبقہ میں موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی ، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی آئین کے ڈھانچے کی بنیاد ہیں ۔ عدالت عظمیٰ اور عدالت عالیہ کے پاس از خود مقدمات کی سماعت (سوموٹو) کا اختیار ہوتا ہے۔ جن میں آئین یا عدالت کی توہین سے متعلق معاملات بھی شامل ہیں ۔عدالت عظمیٰ کا بنیادی مقصد آئینی تنازعات کا فیصلہ کرنا ہے ۔ا س کے علاوہ جہاں آئین کا بنیادی دھانچہ مقننہ یا انتظامیہ کی وجہ سے خطرہ میں نظر آئے، ایسے حالات میںعدلیہ کو از خود سماعت کا اختیار حاصل ہے۔اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ملک کی جمہوریت کی بقا کے لئے عدلیہ ایک اہم ستون ہے ۔ لیکن بڑے افسوس کی بات ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے ملک کے عدلیہ پر سوال کھڑے ہونے لگے ہیں۔ گزشتہ 12 ؍ جنوری 2018 ء کو سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس چاملیشور ، جسٹس رنجن گوگوئی ،جسٹس مدن بی لوکور اور جسٹس کورین جوسف نے ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالت عظمیٰ پر ایک پریس کانفرنس کرکے ایسے ایسے سنگیں الزامات لگائے تھے کہ ملک میں بھونچال آ گیا تھا اور جو باتیں لوگ دبی زبان سے کہہ رہے تھے انھیں ان ججوں نے زبان دے دی تھی۔
ان ججوں نے یہاں تک کہا تھا کہ وہ عدلیہ میں ہونے والی بدعنوانیوں کا اجاگر کرنا چاہتے ہیں لیکن مجبوری ہے ۔ اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان لوگوں نے یہاں تک کہا تھا کہ اگر سپریم کورٹ کو ان بڑھتی برائیوں سے نہیں بچایا گیا تو ملک سے جمہوریت ختم ہو جائے گی ۔ سپریم کورٹ کی کارکردگی سے اپنی بے اطمینانی کا اظہار کرتے ہوئے ان ججوں نے بڑی دور اندیشانہ ایک بات یہ کہی تھی کہ ’ ہم ملک کو یہ باتیں اس لئے بتا رہے ہیں تاکہ بیس برس بعد کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ ہم نے اپنی روح گروی رکھ دی تھی ‘۔اس تناظر میں آج جس طرح ملک کے عدلیہ تنازعات کے گھیرے میں ہیں ۔ا یسا لگتا ہے کہ کاش ان معزز ججوں کی تشویش پر بہت سنجیدگی سے توجہ دی جاتی تو آج جیسی صورت حال سے ملک کا عدلیہ دوچار نہ ہوتا اور ملک و بیرون ممالک میں سبکی نہ ہو رہی ہوتی۔ اب ذرا غور کیجئے کہ ملک کی مختلف عدالتوں سے سبکدوش ہونے والے 28 سابق جج وشو ہندو پریشد کی تقریب میں شرکت کرتے ہیں ۔ عدلیہ میں متعصبانہ آلودگی کا ہی اثر ہے کہ الہٰ باد ہائی کورٹ کے برسرروزگار جج جسٹس شیکھر یادو وشو ہندو پریشد کے ایک متنازع پروگرام میں نہ صرف شرکت کرتے ہیں بلکہ اپنی تقریر میں ملک کے آئین اور مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی کرتے ہوئے ملک کو اکثریت کی خواہش کے مطابق چلائے جانے کی اپنی خواہش کا برملا اظہار کرتے ہیں ۔ ایسے زہریلے بیان پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے کہا تھا کہ شیکھر کمار یادو کا بیان انتہائی غیر ضروری ، قابل اعتراض اور احمقانہ ہے۔ انھوں یہ کہہ کر مزید تشویش میں مبتلا کردیا کہ اس طرح کے فرقہ وارانہ ذہنیت والے وہ واحد جج نہیں ہیں ۔ جج جس آئین کا حلف لیتے ہیں اور وہ آئین اس ملک کو سیکولر قرار دیتا ہے ۔
مارشکنڈے کاٹجو نے اس بات پر سخت اعتراض کیا کہ ایک جج کے لئے وشوہندو پریشد کے پروگرام میں شرکت کرنا انتہائی غیر مناسب ہے جو کہ آر ایس ایس کا حصّہ ہے اور مسلمانوں کی شدید مخالف ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ نہ جانے کس کی شہ پر اس جج کی اتنی ہمّت بڑھ گئی ہے کہ پورے ملک کے سیکولر لوگوں کی سخت تنقید، پارلیمنٹ میں مواخذے کی کارروائی کی نوٹس اور عدالت عظمیٰ کی سرزنش کے باوجود اس نے منافرت کے پیکر شخص یتی نرسنگھا سے ملاقات کرکے یہ واضح کر دیا ہے کہ اسے کسی بھی تادیبی کارروائی کی پرواہ نہیں ہے ۔ اس متعصب جج کے تعلق سے سابق چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے یہ کہہ کر پورے ملک کو چونکا دیا کہ ان کے جج رہتے ہوئے جسٹس یادو کی تقرری کو لے کر سخت مخالفت ہوئی تھی اور بہت ہی واضح طور پر یہ بات کہی گئی تھی کہ شیکھر یادو ہائی کورٹ کے جج بننے کے قابل نہیں ہے ۔اس کے باوجود اس کی تقرری کی گئی ۔ اب یہ بات واضح ہوجانی چاہئے کہ اس متعصب جج کو کتنے بااثر لوگ کی پناہ حاصل ہے اور جب ایسے جج انصاف کی کرسی پر بیٹھائے جائیں گے تو ان کی قلم سے فیصلے تو ہو سکتے ہیں انصاف کی توقع نہیں کی جا سکتی ہے ۔ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والے ایسے تنازعات پر اظہار خیال کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی سینئر جج جسٹس بی وی ناگر تھنا نے بڑی اچھی بات یہ کہی کہ جو لوگ تحمل اور ضبط نفس کا مظاہرہ نہیں کر سکتے ہیں انھیں جج کا عہدہ قبول نہیں کرنا چاہئے ۔اب ملک کے مختلف عدلیہ میں جب ایسے متعصب جج برسرروزگار ہوںگے تو پھر ملک کے قاتلوں ، زانیوں کو باعزّت ہی بری کیا جاتا رہے گا ۔
جیسا کہ بلقیس بانو، ہاشم پورہ ، گجرات وغیرہ کے سانحات پر دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ ایسی ایک آدھ نہیں سیکڑوں مثالیں بھری پڑی ہیں جو متعصب ججوں کے فیصلے کو شک و شبہات پیدا کرنے والے ہیں ۔ افسوس کہ جو جج صاحبان ملک کی عدالتوں میںبرسرروزگار ہیں ۔ ان جج صاحبان کا یہ حال ہے کہ ایک جج ویدویاس چارشری شانند نے اپنی ذہنی آلودگی کا اظہار کرتے ہوئے کرناٹک کے بنگلورومیں مسلم اکثریت والے علاقے کو منی پاکستان کہنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچائے، ساتھ ہی ساتھ اپنے ذہن کی سطح کا اس طرح بھی اظہار کیا کہ ایک خاتون وکیل سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ انھیں اپوزیشن پارٹی کے بارے میں اتنی زیادہ معلومات ہیں کہ وہ شاید ان کے انڈر گارمنٹس کا رنگ بھی بتا سکتی ہیں ۔ اس جج کے ایسے ریمارکس کا ویڈیو بھی خوب وائرل ہوا ۔
بعد میں بڑھتے ہنگامہ کے دوران سپریم کورٹ نے مداخلت کرتے ہوئے ان کی سرزنش کی جس کے جواب میں مذکورہ جج نے معافی مانگ لی ہے ۔ اسی طرح کرناٹک ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب جسٹس ایم ناگا پراسنا کی سنگل بنچ نے ایک مسجد کے اندر مبینہ طور پر ’ جئے شری رام ‘ کے نعرے لگا کر اشتعال پیدا کرنے کے والے ملزموں یہ کہہ کر الزام سے بری کر دیا کہ ’ مسجد کے اندر ’ جے شری رام ‘ کا نعرہ لگانے سے مذہبی جذبات مجروح نہیں ہوتے ہیں۔ ایسے ہی دہلی ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج جسٹس چندرا دھاری سنگھ نے فروری 2020 ء میں دہلی فسادات کے ہیرو انوراگ ٹھاکر اور ممبر پارلیمنٹ پرویش ورما کے ذریعہ 27 جنوری 2020 ء کو ’’ دیش کے غدّاروں کو گولی مارو سالوں کو ‘‘ اور دوسرے کئی اشتعال انگیز اور منافرت سے بھرے نعرے لگا کر فرقہ وارانہ ماحول کو گرم کر دیا تھا جس کے نتیجہ میں اس فساد میں 53 مسلمان ہلاک ہوئے تھے ۔ ایسے بیہودہ اور مشتعل کرنے والے نعروں کے خلاف کمیونسٹ لیڈر ورندا کرات اور کے ایم تیواری نے مقدمہ دائر کرایا، جس پرتادیبی کارروائی کئے جانے کے بجائے اس جج صاحب نے یہ کہہ کر مضحکہ صورت حال پیدا کر دی تھی کہ مسکرا کراگر (مشتعل ) کرنے والی گالیاں ( مسلمانوں کو) د ی جائیں تو یہ قابل گرفت نہیں ہیں اور کہتے ہوئے اس جج نے مرکزی وزیر اور ممبر پارلیمنٹ کو بے قصور ثابت کرتے ہوئے مقدمہ خارج کر دیا ۔اس سال ہونے والے انتخاب کے دوران جب وزیر اعظم نے مسلمانوں کو نازیبا الفاظ سے نوازا تھا اور مقدمہ سپریم کورٹ میں درج کرایا گیا تھا تو جج صاحب نے یہ کہہ کر مقدمہ کو سماعت کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ اس قابل اعتراض معاملہ کو سپریم کورٹ کے بجائے الیکشن کمیشن کے سامنے پیش کیا جائے ۔ زعفرانی رنگ میں رنگنے کے ہی یہ اثرات ہیں کہ آج ملک کے مختلف حصوں کی عدالتوں میں ایسے واقعات سامنے آ رہے ہیں اور مذہبی فرقہ پرستی اور منافرت کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ملک کی مختلف جیلوں میں بڑی تعداد میں ملک کے مسلمان اپنی بے گناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ سال 2020 ء میںشمال مشرقی دہلی میں منصوبہ بند اور منظم طور پر ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات، جس میں مسلمانوں کی جان و مال کا ہی بڑا نقصان ہوا تھا اور افسوسناک پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں کو ہی فساد ی قرار دئے جانے کے الزامات میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں بھی ہوئی تھیں ۔
ان میں شرجیل امام کو بھی اسی الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور پوری دنیا یہ بات سن کر انگشت بدنداں رہ جا ئے گی کہ ا س شرجیل امام کی درخواست ضمانت کو اب تک 69 بار سماعت کے لئے پیش کیا گیا اور ہر بار اسے التوا میں ڈال دیا گیا ۔ شرجیل امام کے ساتھ ساتھ عمر خالد کی گرفتاری بھی اسی زمانے میں ایک تقریر کو توڑ مروڑ کر پیش کئے جانے کے بعد ہوئی تھی اور وہ گزشتہ چار سال سے بغیر کسی ٹرائل کے جیل میں قید و بند کی زندگی گزاررہے ہیں ۔ اس ناانصافی کی بازگشت بیرون ممالک تک پہنچ گئی اور عالمی شہرت یافتہ اخبار ’ نیو یارک ٹائمز ‘ کے 22 ؍ اکتوبر 2024 کے شمارہ کے پورے ایک صفحہ پر رپورٹ شائع کی گئی ہے ۔ اس رپورٹ کے آنے کے بعد ہمارے ملک کے عدلیہ کو جس طرح کی سبکی کا سامنا ہے ۔ ا س بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اس پورے تناظر میں دیکھا جائے تو اندازہ ہوگا کہ ملک کے مسلمانوں کو اس وقت ہر سطح پر مظالم ، منافرت اور استحصال کا سامنا ہے ۔ اب ملک کا عدلیہ جو ہر ناانصافی اور ظلم و ستم اور حق تلفی کے خلاف امید کی آخری کرن مانا جاتا تھا ۔ اب وہ بھی زعفرانی رنگ میں رنگ کر انصاف کی بجائے صرف فیصلہ سنانے لگے تو پھر کس سے توقع کی جائے ۔
( کالم نگار سینئر صحافی اور معروف ادیب ہیں )
[email protected]