حافط محمد ہاشم قادری
قرآن مجید سے یہ واضح ہوتاہے کہ روزے کے تین بنیادی مقاصد ہیں۔(1)تقویٰ یعنی خوفِ خدا رکھنا(2) اللہ کی ہدایت پر اس کی عظمت کا اظہار (2) اللہ کی نعمت پر اس کا شکریہ ادا کرنا ۔ارشاد ربانی ہے : اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرؤوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پر ہیزگار بن جاؤ۔تمام حلال چیزیں اپنے رب کے حکم سے چھوڑ دیں تواب جو حرام ہیں ان کو بھی ترک کردو اور سال کے باقی گیارہ مہینے بھی اللہ سے ڈر کے رہواور روزہ کے دنوں کی طرح پوری زندگی گزارو۔ روزہ کے دوسرے مقصد کا ذکر قرآن کریم میں یہ بیان کیاگیا ہے :قرآن پاک کو رمضان سے اور رمضان المبارک کو قرآن سے ایک خصوصی مناسبت اور گہرا تعلق ہے ۔
یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں انسانی ہدایت کے لئے قرآن کا نزول ہوا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اس میں فیصلہ کی روشن باتیںہیں۔ حضور اکرم ﷺ رمضان میں تلاوت کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ص سے روایت ہے کہ رمضان کی ہر رات میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آتے اور قرآن مجید کا دور کرتے ۔ روزہ کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ کے حضور گڑگڑاکر اپنی خطاؤںسے معافی طلب کرے ، خوف خدا اس کے دل میں بس جائے۔ماہِ رمضان قبولیت دعا کا حسین وقت ہے ۔اس ماہ میں دعاؤں کی کثرت کیجئے۔ پیارے آقا نے ارشاد فرمایا کہ خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادتیں چھوڑ دو اور روزہ رکھنے والوں کی دعاؤں پر آمین کہو۔ قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے۔خدا کی رحمت بہت وسیع ہے کسی کے گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں بندہ جب اللہ کی بارگاہ میں شرمسار ہو کر گڑگڑا تا ہے تو مولائے رحیم اسے اپنے دامنِ عفو میں چھپا لیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:ترجمہ: اپنے پروردگار سے مغفرت چاہو اور اس کی طرف پلٹ جاؤ۔ یقینا میرا رب بڑا ہی رحم فرمانے والا اور محبت فرمانے والا ہے۔
روزہ کی اصل روح
روزے کے شرعی مقاصد میں یہ بات داخل ہے کہ انسان کو بھوک اور پیاس کی حالت میں رکھ کر اسے صبر و تحمل کا عادی بنایا جائے۔ کوئی آپ کی تحقیر و تذلیل کرے تو آپ صبر و تحمل سے کام لے کر نظر انداز کر دیجئے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :تم میں سے جب کوئی روزے سے ہوتو اپنی زبان سے بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شورو ہنگامہ کرے اور اگر کوئی اسے گالم گلوج کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو اس روزہ دار کو سوچنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں، میں کیسے گالم گلوج اور لڑائی کر سکتا ہوں۔(بخاری) روزہ رکھ کر اپنے اندر اخلاق و کردار کی تعمیر کرے۔ آدمی وہ کام کرے جس سے اخلاق سدھریں، جذبات و خواہشات قابو میں رکھے ،خوف خدا کے ساتھ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرے جو اصل روزے کی روح ہے ۔ اسی لئے حدیث پاک میں فرمایا گیا کہ روزہ رکھنا ،کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ روزہ تو وہ ہے کہ روزہ دار لغو اور برے کاموں سے بھی اجتناب کرے۔ تقویٰ پر عمل کی قبولیت کا مدارہے۔ قرآن کریم میں ہے ترجمہ اللہ متقیوں کا ہی عمل قبول فرماتا ہے (القرآن، سورہ المائدہ، آیت27) ۔تقویٰ (خوف خدا) بہت ہی اونچی اور اعلیٰ صفت ہے ۔ بلکہ تمام خوبیوں کی روح تقویٰ ہے۔ جس کو یہ اعلیٰ ترین صفت میسر ہے اس کے لئے دنیا و آخرت کی بے شمار نعمتوں کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے ترجمہ: بے شک متقیوں کے لئے ان کے رب کے یہاں نعمتوں سے لبریز جنتیں ہیں(القلم )
یہی نہیں بلکہ ان سے دنیا میں بھی آسمان و زمین کی برکتوں کا وعدہ کیا گیاہے۔ ترجمہ: اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پرزمین و آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو تقویٰ کا حکم فرمایا اور اس امت سے پہلے لوگوں کو بھی تاکید فرمائی۔ارشاد باری ہے: یقینا جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی انھیں اور تم کو ہم نے تاکید فرمادی ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔ یقینا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے ۔
خوف خدا رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت کے باغات میں داخل فرمائے گا۔یقینا اللہ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے ۔ اس دنیا اور آخرت میں فضیلت و کامیابی کا معیار تقویٰ کو بنایا ، کسی خاندان میں پیدا ہونا ، کسی ملک کا باشندہ ہونا اور خوبصورت ہونا ان چیزوں کو اسلام نے وجہ افتخار نہیں قرار دیا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ص فرماتے ہیں ۔اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور اس سے ڈرنے کا حق یہ ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے، نافرمانی سے بچا جائے ، اس کا ذکر کیا جائے ، اس کو بھلایا نہ جائے اور اس کا شکریہ ادا کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے ۔یہی بنیادی مقصد روزوں کا ہے کہ بندہ اللہ سے خوف رکھے اور اسی خوف کی بنیاد پر تمام دنیاوی معمولات و عبادات پر عمل پیرا ہو۔
زبان و آنکھ ، کان کا روزہ
ارشاد باری ہے: ترجمہ: کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیارنہ بیٹھا ہو لکھنے کے لئے۔(القرآن سورہ ق،آیت17)ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے رہتے ہیں ۔ایک دائیں ایک بائیں۔دایاں نیکیاں لکھتا ہے بایاں گناہ۔ حدیث پاک میںہے یہ فرشتے بیمار کا کراہنا بھی لکھتے ہیں ۔ نیکی والا فرشتہ ایک کی دس لکھتا ہے۔ برائی والا ایک کی ایک ہی لکھتا ہے ۔ اگر بندہ توبہ استغفار کرے تو محو(مٹادیتا)کر دیتا ہے۔روزے میں ہربرائی اور ہر مصیبت سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ روزے کا مقصد ہی زندگی کو پاکیزہ بنانا ہے۔ بد کلامی، فضول گوئی، طنز، لعن طعن، جھوٹ، بہتان، لڑائی جھگڑا،گالی گلوج سے مکمل اجتناب کرنا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :تم میں جو روزہ دار ہووہ نہ بدکلامی کرے نہ فضول گوئی اور شور شرابہ۔ اگر کوئی اس کو گالی دے یا لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔(متفق علیہ)۔ روزہ رکھ کر بھی انسان برائیوںسے نہ بچ سکے تو ایسے روزہ سے بھوک اور پیاس کے سوا آدمی کو کچھ حاصل نہیں ۔اللہ کے رسول نے فرمایا: روزہ دار صبح سے شام تک خدا کی عبادت میں ہے جب تک کہ وہ کسی کی غیبت نہ کرے اور جب وہ کسی کی غیبت کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے روزے میں شگاف پڑ جاتا ہے۔ زبان صرف اور صرف نیک و جائز باتوں کے لئے ہی حرکت میں آئے۔ تلاوت قرآن کریں ، درود شریف کثرت سے پڑھیں ، نعتیں پڑھیں ، دین کی باتیں کریں، جھوٹ، غیبت، چغلی، فضول باتیں ہرگز نہ کریں۔ زیادہ باتیں کرنے والا اللہ کے نزدیک سخت نا پسندیدہ ہے۔ اللہ کے رسول کا ارشاد گرامی ہے: اللہ کے نزدیک تین شخص نا پسندیدہ لوگ ہیں۔(1) زیادہ باتیں کرنے والا(2) زیادہ مال خرچ کرنے والا یعنی فضول خرچ(3)زیادہ سوال کرنے والا۔ اللہ ان باتوں سے بچائے آمین! حاصل کلام یہ کہ ماہ رمضان تزکیہ نفس و تربیت کا مہینہ ہے خاص کر اس کا آخری عشرہ جس میں ایک طاق رات شب قدر ایسی ہے جو قرآن پاک کے نزول کی رات ہے۔ جو لوگ اس مہینے اور قدر کی اس رات کی برکتوں سے مستفیض نہ ہو پائیں ان کی زندگیوںمیں کوئی تبدیلی رونما نہ ہو تو قرآن کے الفاظ میں وہ جانوروں کے مثل ہیں۔ترجمہ :وہ تو چوپائے جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ۔ اللہ کا فضل جس پر جس قدر ہوتا ہے وہ اتنا ہی اس ماہ کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ وہ لوگ قابلِ مبارکباد ہیں جنھوں نے اللہ کے فضل اور توفیق سے اس ماہ کے حقوق کما حقہ ادا کئے اور اللہ کے وعدہ رحمت و مغفرت کے مستحق ہوئے۔