’آپریشن سندور‘ کا مقصد اور سیز فائر

0

صبیح احمد

ہندوستان اور پاکستان کے درمیان سیز فائر کے بعد لوگوں نے راحت کی سانس لی ہے۔ بالخصوص جموں و کشمیر سمیت سرحدی علاقوں کے لوگوں میں ایک نئی امید جاگی ہے۔ اب حساب کتاب ہو رہا ہے، محاسبہ کیا جارہا ہے، حالات کا جائزہ لیا جا رہا ہے، آگے مذاکرات بھی ہوں گے، یعنی کہ لوگوں کو یہ یقین دلانے کے لیے سرکاری سطح پر آسمان زمین ایک کیاجائے گا کہ آپ لوگوں کی جان ومال کے تحفظ کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جا رہی ہے اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہتا ہے جب تک کہ کوئی نئی جنگ یا لڑائی کی صورتحال پیدا نہ ہو جائے۔ اس درمیان لوگوں کو اپنے نقصانات کے ازالہ کے لیے بھی وقت اور موقع مل جاتا ہے۔ حالیہ سیز فائر کے بعدبھی یہ سلسلہ جاری ہے۔ وقتی طور پر حالات تو پر امن ہو گئے ہیں لیکن اب بھی بہت سارے معاملے زیر التوا ہیں۔ سندھو آبی معاہدہ، فضائی خطہ کا استعمال، شملہ سمجھوتہ جیسے دیگر کئی معاملے ہیں جو اب بھی دوران لڑائی کی حالت میں ہیں۔ حالانکہ دونوں ملکوں کی جانب سے فی الحال گولی باری روک دی گئی ہے اور سرحد پر مجموعی طور پر امن کا ماحول ہے لیکن دونوں ہی طرف کی سرکاریں اور افواج الرٹ پر ہیں۔ ہندوستان بار بار اس بات کا اعادہ کررہا ہے کہ ’آپریشن سندور‘ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ یعنی اگر ضرورت پڑی اور سرحد پار سے دہشت گردی کی کوئی ناپاک حرکت کی گئی تو ہندوستان اس کا منھ توڑ جواب دینے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔

دونوں ملکوں کے درمیان سیز فائر کا اعلان سب سے پہلے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا۔ اس کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے اس کی تصدیق کی گئی۔ اب سب سے بڑا یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ سیز فائر کا اعلان ایک تیسرے فریق کی جانب سے کیوں کیا گیا؟ کیا امریکی ثالثی کو قبول کرتے ہوئے دونوں ممالک سیز فائر کے لیے تیار ہوئے؟ جبکہ ہندوستان کی روایتی خارجہ پالیسی کے لیے یہ بات قطعی قابل قبول نہیں ہے کہ کسی بھی بین الاقوامی بالخصوص پاکستان کے ساتھ تنازع میں کوئی تیسرا فریق ثالثی کرے۔ خاص طور پر کشمیر کے معاملے میں ہندوستان کا موقف بالکل واضح ہے کہ یہ دوطرفہ معاملہ ہے، اس میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت کی قطعی طور پر کوئی گنجائش نہیں ہے۔ تو پھر حالیہ لڑائی میں سیز فائر کا سب سے پہلے اعلان ٹرمپ کی جانب سے کیوں کیا گیا؟ جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو وہ یہ چاہتا ہی ہے کہ جموں و کشمیر سمیت ہند-پاک کے درمیان تمام تنازعات بین الاقوامی ثالثی میں حل کیے جائیں۔بہرحال امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے اس اعلان نے مودی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ حکومت سے مسلسل یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ امریکی صدر نے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جنگ بندی کا اعلان کیوں کیا؟ اپوزیشن کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس مسئلہ پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلایا جائے۔ حالانکہ اس معاملے میں کل جماعتی میٹنگ بلائی گئی اور حکومت کی جانب سے ’آپریشن سندور‘ کی کامیابی کے حوالے سے وضاحت پیش کی گئی لیکن پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس ابھی تک نہیں بلایا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سیز فائر کے اعلان کے بعد آپریشن سندور کے جو مقاصد تھے، کیا وہ حاصل ہوسکے ہیں؟ چونکہ حکومت کے ساتھ ساتھ تمام دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ ہندوستان اس وقت مضبوط پوزیشن میں تھا اور اس صورتحال کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف مضبوط قدم اٹھانے پر مجبور کر سکتا تھا، اس لیے ہندوستان اس مقصد کی مکمل حصولیابی تک اگر سیز فائر کیلئے راضی نہ ہوتا تو شاید زیادہ بہتر ہوتا۔

بہرحال اس آپریشن کے 2 واضح مقاصد تھے، ایک پاکستان کو دنیا کے سامنے دہشت گردی کو فروغ دینے والے ملک کے طور پر بے نقاب کرنا تھا اور دوسرا یہ کہ دہشت گردوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ 7 مئی کو آپریشن سندور میں درجنوں بڑے دہشت گرد مارے گئے جس کے بعد پاکستانی فوج کے اہلکاروں نے ان کے جنازے میں حصہ لیا۔ پاکستانی فوج کے سربراہ نے دہشت گردوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔ یہ تصاویر پوری دنیا نے دیکھیں۔ اس سے واضح ہوگیا کہ دہشت گردی پاکستانی فوج کا ایک اہم حصہ ہے۔ اس سے بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی امیج بے نقاب ہوئی ہے۔اس طرح ہندوستان نے یہ ہدف حاصل کر لیا۔ پہلی پریس کانفرنس میں ہی ہندوستان نے 21 دہشت گرد کیمپوں کے بارے میں معلومات دی تھیں، جن میں سے 9 پر حملہ کر کے انہیں تباہ کر دیا گیا۔ ہندوستان نے جنگ بندی سے قبل یہ بھی واضح کر دیا تھا کہ مستقبل میں دہشت گردی کے کسی بھی واقعہ کو ملک پر حملہ قرار دیا جائے گا۔ اس سے یہ پیغام بھی ملتا ہے کہ مستقبل میں بھی ان دہشت گرد کیمپوں کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔ اب یہ پاکستان پر منحصر ہے کہ وہ اس صورتحال میں کیسا رویہ اختیار کرتا ہے۔ اس پورے آپریشن میں ہندوستانی فوج نے پوری دنیا کے سامنے اپنی مضبوط پوزیشن کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کے کسی ایک شہری مقام کو بھی نقصان پہنچائے بغیر صرف دہشت گردوں کے کیمپوں کو تباہ کرنا ہماری فوجی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس جنگ کے دوران یہ بھی واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کے عام لوگ وہاں کی فوج اور حکومت کے خلاف ہیں۔ ہندوستان کے لیے اس سے بڑی کامیابی نہیں ہوسکتی کہ پاکستانی عوام اپنے حکمرانوں پر اعتماد نہیں کرتے، جبکہ اس کے برعکس ہمارا پورا ملک اس مشکل صورتحال میں متحد نظر آیا۔ یہ ثابت کر دیا کہ دہشت گردی کے خلاف پورا ملک ایک ہے اور جب بھی ضرورت ہوگی بلاتفریق پوری قوم دہشت گردی پر بھر پور وار کرے گی۔

لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ ان حالات میں یہ دیکھنا بھی دلچسپ تھا کہ دنیا کے دیگر طاقتور ممالک اس کشیدگی پر کیا ردعمل ظاہر کرتے ہیں۔ چین نے کھل کر کہا کہ وہ پاکستان کی خود مختاری کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے۔ ترکی نے بھی پاکستان کا ساتھ دیا۔ اسرائیل نے یہ ضرور کہا کہ ہندوستان کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ لیکن اسرائیل کے مقابلے چین بہت بڑا ملک ہے اور دنیا کی دوسری بڑی معیشت بھی ہے۔ یہ جواز اپنی جگہ درست ہے کہ ہندوستان اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے کسی پر انحصار نہیں کرتا، لیکن خارجہ پالیسی یا سفارت کاری کی کامیابی شاید اس میں بھی نظر آتی ہے کہ بحران کے وقت کتنے ممالک آپ کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہندوستان کی خارجہ پالیسی پر اس وقت زیادہ سوالات اٹھنے لگے جب تیسرے ملک امریکہ کی طرف سے جنگ بندی کا اعلان کیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ امریکہ کو جنگ بندی کا پہلے سے علم تھا اور یہ امریکہ ہی تھا جس نے ہندوستان کے عوام کو اس کے متعلق آگاہ کیا، نہ کے ان کی اپنی حکومت نے۔ دوسری جانب ٹرمپ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں سیز فائر کا اعلان کرتے ہوئے یا اس کے بعد بھی دہشت گردی کا کہیں ذکر تک نہیں کیا۔ جبکہ انہوں نے بعد میں بھی اس حوالے سے سوشل میڈیا پر متعدد بیانات جاری کیے۔ ٹرمپ نے ہندوستان اور پاکستان کو برابری پر لاکر کھڑا کردیا۔
یہ بات اپنی جگہ اٹل ہے کہ ہندوستان مسئلۂ کشمیر پر کسی کی ثالثی قبول نہیں کرتا لیکن امریکہ نے واضح طور پر کہا کہ اس نے سیز فائر کرایا ہے اور پاکستان نے بھی اسے قبول کیا ہے۔ بہرحال ہندوستان نے اپنے ردعمل میں اسے دو طرفہ قرار دیا اور امریکہ کا نام تک نہیں لیا،لیکن پورے معاملے میں عالمی سطح پر جس طرح کا ردعمل سامنے آیا، اس سے یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا اب ملک کی خارجہ پالیسی کا راستہ نان الائنمنٹ (ناوابستگی) سے ملٹی الائنمنٹ (کثیرجہتی وابستگی) کی طرف موڑ دیا گیا ہے؟

[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS