پروفیسر اخترالواسع
اسلام نے خانگی زندگی کو عدل وانصاف پر استوار کیا ہے اور اخلاق واحسان کے ذریعہ اس کو خوش گوار بنایا ہے۔ لیکن انسانی مزاج کے فرق کی وجہ سے بسا اوقات ایسی صورت پیدا ہوجاتی ہے جب یہ خوش گواری برقرار نہیں رہ پاتی اور کبھی معاملہ عدل وانصاف کی سرحد سے نکل کر ظلم وزیادتی کے دائروں میں داخل ہو جاتا ہے۔ ازدواجی زندگی میں پیش آنے والے ایسے حالات کے لیے اسلام نے پیش بندی کی ہے اور مختلف مرحلوں میں مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ طلاق کی گنجائش کچھ اسی قسم کی صورت حال کے لیے علاج ہے۔
کہا جاتا ہے کہ طلاق کا حق مرد کو دیا گیا ہے اور وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ نان نفقہ کی ذمہ داری مرد پر رکھی گئی ہے، گھر کو چلانا اور فیملی کے تمام قسم کے اخراجات پورا کرنا مرد کی ذمہ داری بنائی گئی ہے۔ اسلام نے حتی الوسع اس بات کی کوشش کی ہے کہ علیحدگی کی نوبت نہ آنے پائے۔ اس لیے ازدواجی زندگی میں اختلاف پیدا ہو تو افہام وتفہیم سے کام لینے یا پھر دونوں خاندان سے حکمین مقرر کرکے مسئلہ کو سلجھانے کی راہ بتائی ہے۔ اگر یہ کوششیں اپنے مقصد میں بارآور نہ ہوں اور دونوں کے لیے علیحدگی ہی میں سکون اور عافیت ہو تو پھر علیحدگی ہی بہتر سمجھی جاتی ہے اور اسی لیے اسلام نے ازدواجی رشتہ کو جنم جنم کا بندھن نہیں بلکہ ایک باہمی معاہدہ تصور کیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن میں یہ کہا ہے کہ اگر دونوں اپنے لیے علیحدگی ہی کو بہتر سمجھتے ہوئے علیحدہ ہوجائیں تو پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں میں سے ہر ایک کو اپنی مدد سے نوازے گا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کسی خاتون کو اپنے شوہر سے ناچاقی نفرت کی حد تک پہنچ جائے، جبکہ شوہر اپنی ذمہ داریوں کو پورا بھی کرتا ہو اور اپنی ازدواجی زندگی کو برقرار بھی رکھنا چاہتا ہو، تو کیا ایسی خاتون کو اس کے شوہر کے ساتھ رہنے پر مجبور کیا جائے گا۔ ظاہر سی بات ہے کہ عورت کی ناپسندیدگی اس کی خوشگواری کو ختم کر دے گی۔ لہٰذا اسے یہ حق ملنا چاہیے کہ وہ ایسی صورت میں بھی اپنے شوہر سے علیحدہ ہوسکے۔ اسلام نے اسی صورت حال کے لیے خلع کا حکم رکھا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق اگر دونوں اللہ تعالیٰ کے طے کی ہوئی حدود کو قائم نہ رکھ سکیں، تو بیوی شوہر کی طرف سے دی ہوئی مہر کی رقم واپس کر کے طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہے، یہی خلع ہے۔ اس صورت میں شوہر کی ذمہ داری بنائی گئی ہے کہ وہ اپنے دیے ہوئے مہر کی رقم واپس لے کر بیوی کو طلاق دے دے۔ نبی کریمؐ کے زمانہ میں ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا تھا۔ ایک خاتون نے آکر حضور اکرمؐ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ مجھے اپنے شوہر کے دین اور اخلاق کے بارے میں کوئی شکایت نہیں ہے، لیکن میں ان کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتی۔ حضور اکرم ؐنے اس خاتون سے پوچھا کہ کیا تم وہ باغ لوٹانے کو تیار ہو جو شوہر نے تمہیں مہر میں دیا ہے۔ خاتون راضی ہو گئی اور حضور اکرمؐ نے شوہر سے اسے طلاق دلوا دی۔
بہت سارے موقعوں پر مرد کے نہ چاہتے ہوئے بھی بیوی شوہر کے ساتھ اگر رہنے کے لیے راضی نہیں ہے تو اس میں بیوی کی جانب سے طلاق کا مطالبہ ہوتا ہے اور چونکہ شوہر نے مہر کی رقم دے کر ازدواجی زندگی کا ماحول بنایا تھا، اب جب اس کی مرضی کے بغیر یہ ماحول ختم ہو رہا ہے تو مہر کی رقم اسے واپس ملنا اس کا معقول حق بنتا ہے۔ چونکہ ازدواجی زندگی کی خوشگواری دونوں ہی فریق کی رضا مندی سے ہوتی ہے، اگر ایک فریق بھی راضی نہ ہو تو یہ خوشگواری باقی نہیں رہتی۔ واضح رہے کہ خلع کی یہ صورت جس میں شوہر مہر کی رقم کے بدلہ میں طلاق دیتا ہے، وہ ایک طلاق بائن کے حکم میں ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ عدت ختم ہونے کے بعد دونوں میاں بیوی اگر چاہیں تو پھر سے نئے مہر کے ساتھ نیا نکاح کر سکتے ہیں۔
لیکن خلع کا معاملہ ہمارے سماج میں اتنا سادہ نہیں رہ گیا ہے۔ آج بہت سارے کیسز میں شوہر کی طرف سے عورت پر ظلم وزیادتی ہو رہی ہوتی ہے، اس کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کی جا رہی ہوتی ہے، عورت کو اس کے سسرال میں ازدواجی زندگی کا خوشیوں بھرا ماحول نہیں مل رہا ہوتا ہے۔ ایسے دم گھٹتے حالات میں عورت اپنے شوہر سے علیحدہ ہونا چاہتی ہے، تو شوہر کوچاہیے کہ اسے طلاق دے کر دوسری خوشگوار زندگی کا موقع فراہم کرے۔ اگر شوہر از خود طلاق نہیں دیتا ہے اور بیوی ان حالات سے دل برداشتہ ہو کر خلع کا مطالبہ کرتی ہے تو شوہر کو اس مطالبہ پر عمل کرنا چاہیے اور مہر کی رقم واپس لے کر خلع دے دینا چاہیے۔ یہاں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسلامی قانون کے ماہرین اور فقہاء کے مطابق اگر زیادتی شوہر کی جانب سے ہو اور اس بنیاد پر بیوی خلع کا مطالبہ کرے تو شوہر کو بغیر مہر کی رقم واپس لیے خلع دے دینا چاہیے۔
لیکن صورت حال اس وقت سنگین ہوجاتی ہے جب خود شوہر ظلم وزیادتی کا مرتکب ہو رہا ہو اور ان حالات سے تنگ آ کر بیوی خلع کا مطالبہ کرے اور شوہر اس مطالبہ کو بھی خاطر میں نہ لائے اور اپنے انتقامی جذبہ کے تحت اسے نہ طلاق دے اور نہ خلع کے لیے راضی ہو۔ تب ایسی صورت میں عورت کی زندگی مجبور محض بن کر رہ جاتی ہے اور وہ سراسر ظالم شوہر کی زیادتیوں کے رحم وکرم پر منحصر ہوجاتی ہے۔ آج ہمارے سماج میں ایسے واقعات اکا دکا نہیں بلکہ بے شمار ہیں، اور ایسی مظلوم خواتین اپنی داد رسی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے مجبور ہو رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایسا ہی ایک کیس کیرالہ ہائی کورٹ سے فیصل ہوا ہے جس میں فاضل جج نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ خلع میں شوہر کی رضا مندی ضروری نہیں ہے اور اس کے بغیر بھی خلع صرف عورت کے مطالبہ پر ہوجائے گا۔ اس پر ایک بار پھر ملک میں بحث چھڑگئی ہے۔ اسلام کا عام موقف تو یہی ہے کہ خلع باہمی اتفاق سے علیحدگی کی صورت ہے۔ یعنی اگر شوہر ازدواجی زندگی کو برقرار رکھنا چاہتا ہو اور بیوی اس کے لیے راضی نہ ہو تو پھر دونوں مل کر باہمی رضا مندی کے ساتھ مہر کی واپسی اور اس کے بدلہ طلاق کی کارروائی انجام دیتے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب زیادتی خود شوہر کی جانب سے ہو اور مظلوم خاتون نہ شوہر سے طلاق پا رہی ہو اور نہ اس کے مطالبہ خلع پر شوہر کان دھر رہا ہو، تو کیا اس مظلوم خاتون کی فریاد سننے کا اسلام کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے؟ اسلامی قانون میں ایسی صورت حال کے لیے فسخ اور تفریق کی صورت رکھی گئی ہے۔ یعنی ایسی مظلوم خاتون کو مسلم قاضی کے سامنے نکاح کے فسخ کا مقدمہ پیش کرنا چاہیے اور مسلم قاضی معاملہ کی تحقیق کے بعد اس نکاح کو شوہر کی رضامندی کے بغیر بھی فسخ کرسکتا ہے۔ گویا طلاق مرد کے اختیار میں دیا گیا ہے تو فسخ مرد کی مرضی کے بغیر بھی عورت کے مطالبہ پر قاضی کی جانب سے نکاح کو ختم کرنے کا راستہ بنایا گیا ہے اور خلع دونوں کی باہمی رضامندی اور اتفاق سے نکاح ختم کرنے کا طریقہ ہے۔
ہمارے سماج میں خلع کے حوالہ سے جو صورت حال ہے، اس میں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ خواتین کی جانب سے بھی بسا اوقات ایسے مطالبے ہوتے ہیں یا ایسی آزادیاں طلب کی جاتی ہیں، جو خانگی زندگی کے استحکام اور گھر کی خوشگواری سے میل نہیں کھا رہی ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں ازدواجی زندگی کو ختم کرتے ہوئے خلع کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں سنجیدہ موقف نہیں ہے۔ ایک حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر کوئی خاتون بغیر کسی جائز وجہ کے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے، تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے۔ لیکن ایسا بے جا مطالبہ خلع کی صورت میں بھی شوہر اگر اپنی ضد پر خلع کے لیے راضی نہیں ہوتا ہے تو یہ نتیجہ دونوں کی زندگی کو اجیرن بناتا ہے اور اسلام کے نزدیک یہ قابل قبول نہیں ہے۔ اس لیے ایسی صورت میں بھی جب کہ خلع کا مطالبہ بیوی کی جانب سے بہ اصرار ہو اور معاملہ عدالتوں تک پہنچنے لگ جائے، تو شوہر کو چاہیے کہ وہ خلع پر راضی ہو اور طلاق دے کر دونوں کے لیے کسی دوسری خوشگوار زندگی کے آغاز کا امکان پیدا کرے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس (اسلامک اسٹڈیز) ہیں۔)
[email protected]