فروری 2020 کے دہلی فسادات ہندوستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک ایسا سیاہ باب ہیں جنہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاجات کے دوران اشتعال انگیز بیانات اور منظم نفرت انگیزی نے شمال مشرقی دہلی کو خون میں نہلا دیا۔سیکڑوں جانیں گئیں‘ہزاروں لوگ زخمی ہوئے‘ مکانات اور دکانیں جلیںاور سب سے بڑھ کر ہزاروں غریب مزدور بے سہارا ہو گئے۔ سوال یہ ہے کہ اس قیامت کا بوجھ کس پر ڈالا گیا؟ وہی اقلیتیں جو پہلے ہی خوف اور محرومی کے سائے میں جی رہی تھیں۔ دہلی پولیس نے تقریباً 700 مقدمات درج کئے‘مگر ان مقدمات کی اکثریت ان ہی مظلوموں اور ان کے حامیوں پر تھی‘جن کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنی آئینی آواز بلند کرنے احتجاج میں شریک ہوئے تھے۔
شرجیل امام اور عمر خالد‘دونوں اب تک برسوں سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ ان پر یو اے پی اے کی سخت دفعات لگا کر ضمانت کو ایک خواب بنا دیا گیا۔ دہلی ہائی کورٹ نے ان کی ضمانت کی درخواستیں بارہا مسترد کیں اور سپریم کورٹ میں سماعت بار بار ملتوی ہوتی رہی۔ حتیٰ کہ حالیہ دنوںاپنے ایک خطاب میں جب چیف جسٹس بی آرگوائی نے خود اس اصول کو دہرایا کہ ’’ضمانت ایک اصول ہے‘جیل استثنا‘‘تب بھی یہ اصول کاغذی ہی رہا۔ ہندوستانی جیلوں میں 3.75 لاکھ سے زائد زیر سماعت قیدی موجود ہیں‘جو کل قیدیوں کا 74.2 فیصد ہیں۔ یہ اعدادوشمار صرف عدالتی تاخیر یا قانونی پیچیدگیوں کی علامت نہیں بلکہ نظام عدل کی پسماندہ طبقوں کے ساتھ بے حسی کا نوحہ ہیں۔
دہلی فسادات سے جڑے مقدمات کی حقیقت اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی ہے۔ دہلی پولیس نے خود 695 مقدمات میں ملزمین کو بری کر دیا جبکہ صرف 19 مقدمات میں سزا ہوئی۔ 93 بریت کے فیصلوں میں یہ انکشاف ہوا کہ جھوٹی ایف آئی آرز‘جعلی گواہ‘فرضی دستاویزات اور پولیس کی من گھڑت کہانیاں اس تفتیش کا حصہ تھیں۔ کئی کانسٹیبلز کو بطور گواہ کھڑا کیا گیا جنہوں نے ملزم کو موقع پر دیکھنے کے جھوٹے بیانات دیئے۔ ملزم کی شناخت مشکوک ثابت ہوئی اور گواہی میں اضافی تفصیلات بعد میں گڑھی گئیں۔ سوال یہ ہے کہ جب پورا مقدمہ ہی اس قدر کھوکھلا ہے تو پھر عمر خالد اور شرجیل امام کو بغیر مقدمہ چلائے برسوں تک جیل میں رکھنا کس اصول کے تحت جائز ہے؟ کیا یہ انصاف ہے یا انتقام؟
یہ منظرنامہ محض عدلیہ یا پولیس کی ناکامی نہیں بلکہ ریاستی طاقت کے بے جا استعمال کا المیہ ہے۔ چیف جسٹس نے واضح کیا تھاکہ ضمانت کے اصول کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے‘خاص طور پر ان قیدیوں کیلئے جو پسماندہ طبقوں سے آتے ہیں اور جنہیں قانون تک رسائی کے وسائل میسر نہیں۔ آنجہانی جسٹس کرشنا ائیر نے بھی کہا تھا کہ ضمانت کا فیصلہ قیدی کے جیل میں گزارے گئے وقت اور مقدمے کی طوالت کو دیکھ کر ہونا چاہئے۔ آج جب خالد اور امام پانچ سال سے قید میں ہیں‘کیا ان کے مقدمے میں یہ اصول لاگو نہیں ہوتا؟ یا عدالت کے پیمانے مظلوم اور طاقتور کے درمیان الگ الگ ہیں؟
دہلی پولیس کے کردار پر انگلیاں اٹھنا کوئی حیرت کی بات نہیں۔ امیت شاہ کی قیادت میں پولیس نے بارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ آئین سے زیادہ سیاسی آقائوں کی خدمت گزار ہے۔ جب تحقیقات جھوٹی ایف آئی آر‘جعلی گواہوں اور فرضی شواہد پر کھڑی ہو تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قانون کہاں ہے؟ اور عدلیہ‘جو عوام کا آخری سہارا ہے‘وہ کیوں خاموش ہے؟اب سپریم کورٹ کے سامنے ایک اور امتحان ہے۔ 19 ستمبر کو عمر خالد‘شرجیل امام اور دیگر ساتھیوں کی ضمانت کی عرضیوں پر سماعت ہونی ہے۔ یہ محض ایک عدالتی کارروائی نہیں بلکہ ہندوستانی جمہوریت کی ساکھ کا امتحان ہے۔ اگر عدالت واقعی چیف جسٹس کے بیان کردہ اصول پر عمل کرتی ہے کہ ’’ضمانت اصول ہے‘‘ تو پھر اس دن انصاف کو قید سے رہائی ملے گی۔ لیکن اگر سماعت ایک بار پھر ملتوی ہوئی‘یا ضمانت کو سیاسی دبائو کی بھینٹ چڑھا دیا گیا‘تو یہ صرف چند افراد کی قید نہیں رہے گی‘بلکہ پورے عدالتی نظام کی قید ثابت ہو گی۔
کل کا دن فیصلہ کن ہے۔ سب کی نگاہیں اس پر جمی ہیں کہ عدالت کا وقار کس جانب جھکے گا۔ دیکھنا یہ ہے کہ عدالت اپنے سر کو فخر اور غرور کے ساتھ انصاف کے روشن ستون پر بلند کرتی ہے یا پھر طاقت کے اندھیروں میں گم ہو کر اپنی روشنی کھو دیتی ہے۔ اگر فیصلہ ضمیر اور قانون کی روشنی میں آیا تو یہ تاریخ میں انصاف کے وقار کا سنہرا باب ہوگا اور اگر طاقت و سیاست کا سایہ غالب آیا تو یہ عدلیہ کی آزادی پر ایک اور سیاہ دھبہ بن کر رہ جائے گا۔
edit2sahara@gmail.com