آئین میں صدر مملکت اور وزیراعظم کا اپنا اپنا مقام

0

خواجہ عبدالمنتقم

جس طرح گھر کے بڑے کو فیملی کا ہیڈ کہا جاتا ہے اور سب اس کا بے حد احترام کرتے ہیں اسی طرح ملک کا بھی ایک ہیڈ یا سربراہ ہوتا ہے، جسے ہم عوامی جمہوریہ میںصدر یا راشٹرپتی اور ملک کا اول شہری کہتے ہیں۔ انھیں بھی فیملی کے ہیڈ کی طرح ملک کا عاملانہ سربراہ ہونے کے ناطے کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ آئین کی دفعہ53کے مطابق صدرملک کے انتظامی ہیڈ یا سربراہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے عاملانہ اختیارات کا استعمال اپنے ماتحت عہدہ داروں کی وساطت سے ہی کرتے ہیں۔البتہ انھیں اپنے بیشتر اختیارات کا استعمال وزرا کونسل، جس کے سربراہ وزیراعظم ہوتے ہیں، کے مشورہ سے ہی کرنا پڑتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگا کہ یونین لیجسلیچر یا پارلیمنٹ کے حوالے سے صدر کو حیثیت سربفلک حاصل ہے۔وہ کبھی بھی پارلیمنٹ کا اجلاس بلا سکتے ہیں اور پارلیمنٹ کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انھیں آئین کے تحت حاصل مختلف النوع اختیارات بھی حاصل ہیں جن کی بنیاد پر یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ اگروہ وزیر اعظم کی طرح با اختیار نہیں تو اتنے بے اختیار بھی نہیں کہ انھیں محض ربر اسٹامپ کہا جائے۔
جس طرح ہمیں برطانیہ کے دیگر قوانین وراثت میں ملے ہیں، اسی طرح ہمیں صدر مملکت کے حوالے سے بھی بہت سی برطانوی روایات ورثے میں ملی ہیں جن میں سے بیشتر کو تو خود آئین میں شامل کر لیا گیا ہے۔ہمارے ملک کے صدر برطانیہ کے بادشاہ یا رانی کی طرح آئینی سربراہ ہوتے ہیں۔ مجوزہ قانون سے متعلق بل صدر کی منظوری کے بغیر قانون کی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔ان کی منظوری اور مابعد سرکاری نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ہی وہ لاگو ہوتاہے۔صرف یہی نہیں اگر پارلیمنٹ نہ چل رہی ہو اور کوئی قانون بنانا ضروری ہو تو وہ آئین کی دفعہ 123کے تحت پارلیمنٹ کے وقفہ کے دوران آرڈی نینس جاری کر سکتے ہیں بشرطیکہ انھیں یہ اطمینان ہو جاتا ہے کہ واقعی ایسی صورت حال پیدا ہو گئی ہے کہ آرڈی نینس جاری کیا جائے۔ یہ بات دوسری ہے کہ وہ اپنی رائے کیبنٹ کی دی گئی صلاح کی بنیاد پر ہی قائم کرتے ہیں۔ یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہیں ہوگا کہ جہاں ہمارے ملک جیسا جمہوری نظام قائم ہے، وہاں کسی بھی صدر کو اتنے اختیارات حاصل نہیں جتنے ہمارے صدر کو حاصل ہیں۔ یہ بات دوسری ہے کہ صدر کو بیشتر فیصلے وزرا کے مشورے سے ہی کرنے پڑتے ہیں۔
ہمارے صدر کو دیگر اختیارات کے ساتھ ساتھ یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ وہ مجرموں کی سزا معاف کردیں، کم کردیں، تبدیل کردیں یا ملتوی کردیں۔ ناناوتی بنام ریاست بمبئی(اے آئی آر1961ایس سی112)،کیہر سنگھ بنام یونین آ ف انڈیا((اے آئی آر1989ایس سی653))،ریاست پنجاب بنام جوگیندرسنگھ (اے آئی آر1989ایس سی653) والے معاملوں میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا ہے کہ دفعہ 72 کے تحت صدر کے اختیارات اس کے اختیار تمیزی میں آتے ہیں اور عدالتوں کو اس بات کا اختیار نہیں ہے کہ وہ نفس معاملہ کے لحاظ سے کیے گئے صدر کے فیصلہ میں کسی طرح کی مداخلت کریں اور ان کو ایسے معاملات میں بہت ہی محدود عدالتی نظر ثانی کا اختیار حاصل ہے۔ اس کے علاوہ گرو سوامی بنام ریاست تمل ناڈو والے معاملے(1991کریمنل لاء جرنل 1890) میں مدراس ہائی کورٹ نے صدر کے عہدے کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ فیصلہ دیا تھا کہ صدر کا عہدہ انتہائی پر وقار عہدہ ہے۔
یہ مانا کہ دفعہ 74 کے تحت صدر جمہوریہ اپنے کارہائے منصبی انجام دیتے وقت وزرا کی کونسل کے مشورے کے مطابق ہی کام کر تے ہیںلیکن اس کونسل کے سربراہ تو وزیراعظم ہی ہوتے ہیں لیکن اگر صدر کو کسی بھی معاملے میں شکوک ہوں یا وہ یہ سمجھتے ہوں کہ کونسل نے صحیح سفارش نہیں کی ہے تو وہ کونسل سے معاملے پر دوبارہ غور کرنے کے لیے کہہ سکتے ہیں لیکن کونسل کے دوبارہ دیے گئے مشورے کی مزید نظرثانی کی گنجائش نہیں ہے اور صدر ایسی صورت میں کونسل کے مشورے کے مطابق عمل کریں گے۔ شمشیر بنام ریاست پنجاب والے معاملے(اے آئی آر1974ایس سی2092) میں بھی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ دفعہ 74(1) کی توضیعات کے مطابق صدر کیبنٹ کے مشورے کے مطابق کارروائی کریں گے۔ان تمام محدوداختیارات کے باوجود انھیں محض ربر اسٹاپ یا نام نہاد سربراہ نہیں کہا جا سکتا۔
ماضی میں رونما ہونے والے واقعات اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ ہمارے کئی صدور نے خاص کر راجندر پرشاد اور ڈاکٹر رادھا کرشنن نے کتنے ہی معاملات میں خاص کر قانون سازی کے معاملات میں اپنی بات منوائی اور سرکار کو ان کی رائے کا احترام کرتے ہوئے ان کی مجوزہ ترامیم کو ماننا پڑا۔ ہمارے ملک کے ساتویں صدر گیانی ذیل سنگھ نے تو 1986 میں مندرجہ بالا التزام ہونے کے باوجود امریکی صدر کی طرح اپنے پاکٹ ویٹو کا استعمال کرتے ہوئے پوسٹ آفس(ترمیم) بل کو وزراء کونسل کو دوبارہ غور کرنے کے لیے نہیں بھیجا اور اسے زیر التوا رکھا۔کیا ایسی صورت میں صدر کو ربر اسٹامپ کہا جاسکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ صدر کے اختیارات کی مندرجہ بالا تفصیل محض اشارتی ہے ورنہ انھیں دیگر عاملانہ و غیر عاملانہ امور میں اور بھی اختیارات حاصل ہیں جن کی تفصیل خصوصی طور پر آئین کے جز 5 میں یونین سے متعلق باب-1 میں شامل دفعات میں دی گئی ہیں۔ علاو ہ ازیں صدر کو اپنا عہدہ سنبھالتے وقت مندرجہ ذیل عبارت پر مشتمل حلف لینا ہوتا ہے جو اس بات کا معتبر ثبوت ہے کہ انھیں آئین کے تحت نہایت اہم ذمہ داریا ں سونپی گئی ہیں۔
’’میں الف.ب.، خدا /ایشورکے نام سے حلف اٹھاتا ہوں/ اقرار صالح کرتا ہوں کہ میں بھارت کے صدر کے عہدے کے فرائض(یا صدر کے کارہائے منصبی) کو وفاداری کے ساتھ انجام دوںگا اور حتی المقدور آئین اور قانون کو برقرار رکھوں گا اور اس کی حفاظت و مدافعت کروں گا اور بھارت کے لوگوں کی خدمت اورفلاح و بہبود کے لیے اپنے آپ کو وقف کروں گا۔‘‘
وزیراعظم بھی اپنے عہدے کا حلف لیتے وقت یہ اقرار کرتے ہیں کہ وہ بھارت کے آئین پر اعتقاد رکھیں گے اور اپنے فرائض ایمانداری اور دیانت داری سے انجام دیں گے اور سب کے ساتھ آئین اور قانون کے بموجب بلاخوف یا رعایت عناد یاشفقت انصاف کریں گے۔
اگر حکومت شہریوں کی آزادی یا حقوق بشمول بنیادی حقوق یا مفاد عامہ کے دیگر معاملات میں مبینہ طور پر نا مناسب دخل اندازی کرتی ہے تو بھی ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ صدر سے ہی رجوع کرتے ہیں اور صدر حکومت کو ، اگر وہ یہ سمجھیں کہ واقعی صورت حال ایسی ہے کہ حکومت کو عقبی و اصلاحی کارروائی کے لیے کہا جائے تو وہ کتنے ہی معاملوں میں حکومت کی توجہ grey areas کی جانب مبذول کراتے رہے ہیں اور حکومت نے ان کی صلاح کبھی مانی ہے، کبھی نہیں۔
(مضمون نگار آزاد صحافی، مصنف، سابق بیورکریٹ اور عالمی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تاحیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS