’کم تر برائی‘ کا سیاسی کھیل اور صاحبان جبہ و دستار: محمد فاروق اعظمی

0

محمد فاروق اعظمی

چار مرحلے گزرچکے ہیں،ابھی عام انتخاب کے تین مرحلے باقی ہیں۔ ان تین مرحلوں میں مسلم ووٹوں کو نام نہاد تقسیم سے بچانے کیلئے صاحبان جبہ و دستار، امت کے ’جید ‘علما ئے کرام کا قافلہ مختلف شہروں میں اتر رہاہے۔ کہیں کوئی قاسمی جلوہ فگن ہے تو کہیں کوئی مدنی اور ندوی علم و دانش کے گہر پارے تقسیم کر رہاہے توبعض مقامات پر رضویوں کے خطابات بھی مسلمانوں کی رگ حمیت پھڑکارہے ہیں۔ امت کو انتشار اور بکھرائو سے دور رہنے کے گراں قدر مشورے دیے جارہے ہیں۔ان سبھی کلاہ پوش اکابرین کا ایک بات پرزیادہ زور ہے اور وہ ہے کہ ’عظیم تر برائی‘ کے خلاف ’کم تر برائی‘ کا انتخاب کیاجائے۔ ’کم تر برائی‘ کو وقت کی ضرورت بتانے کیلئے طرح طرح کی دلیلیں دی جارہی ہیں اور فقہا ئے سابقین کے فیصلوں کے لمبے لمبے اقتباسات سنائے جارہے ہیں، طولانی داستان اور حوادث بیان کیے جارہے ہیں۔ کہاجارہاہے کہ جب دو برائیاں در پیش ہوں تو کمتر برائی کو گوارہ کر کے بڑی برائی کو روکا جائے گا۔ دو شر میں سے کمتر کو اور دو ضرر میں سے ہلکے ضرر کو گوارہ کیا جائے یا جہاں دو نقصان در پیش ہوں تو کمتر نقصان کو گوارہ کر کے بڑے نقصان سے بچا جائے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ مصلحت اور منفعت کو حاصل کر نے سے زیادہ اہم مفاسد کو دور کرنا ہے۔یعنی اگر ایک طرف کسی فائدہ کا حصول ہو، لیکن اس میں دوسرا پہلو نقصان کا ہو، تو نقصان کے دور کر نے کو ترجیح حاصل ہو گی۔

مغربی بنگال کی سرزمین بھی ان دنوں ایسے ہی قائدین ملت کے ’ قدوم میمنت لزوم‘ کی زیربار بنی ہوئی ہے۔ ہر ہفتہ کوئی نہ کوئی قاسمی، نعمانی، ندوی، مدنی اور رضوی کسی منبر پر جلوہ افروزہوتا ہے اور ’ربِّ اشرَح لِی صَدری ۔۔۔،کاورد کرنے کے بعد ملت کو بتارہاہوتا ہے کہ کسے ووٹ دے کر ہم فائدہ حاصل کرسکتے ہیں یا کسے ووٹ نہ دے کر ہم برائی کو روک سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو ’ فراست ایمانی‘ کی غیرت دلاکر انہیں کمتربرائی کو گلے لگانے کیلئے تیار کیاجارہاہے۔ ’دانش پاروں‘ کی یہاں تک تقسیم قابل ستائش ہے اور اس سے صد فیصد اتفاق بھی کیا جانا چاہیے لیکن دلچسپ بات تو یہ ہے کہ منبرو محراب سے فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے والے یہ صاحبان جبہ و دستار یہ بھی نشاندہی کررہے ہیں کہ مغربی بنگال میں کون ’کم تر برائی‘ ہے، کسے گواراکیاجائے اور کسے رد کیاجاناچاہیے۔

عام زندگی میں مختلف مسائل پر مسلسل دست بہ گریباں رہنے والے علمائے کرام اور اکابرین ملت کا اصرارہے کہ مغربی بنگال میں کم تر برائی ’ ترنمول کانگریس ‘ ہے۔اس کے بعد وہ اپیل کرتے ہیں مسلمان متحد ہوکر ترنمول کانگریس کوووٹ دیں تاکہ بھارتیہ جنتاپارٹی کے عظیم ترشر سے انہیں تحفظ حاصل رہے۔ انہیں ملک سے نکالے جانے کا سامان نہ کیا جائے، ان کی عباد ت گاہیں نہ منہدم کی جائیں، انہیں دوسرے درجہ کاشہری نہ بنایاجاسکے،ان کے شہری حقوق سلب نہ کیے جاسکیں،مذہب پر عمل پیرا ہونے کی آزادی کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو، اظہار رائے کی آزادی باقی رہے،سب سے بڑھ کر انہیں درانداز نہ کہا جائے، ان کی شہریت نہ چھینی جاسکے، این آر سی اور سی اے اے کا عفریت انہیں نگل نہ سکے وغیرہ وغیرہ۔دلچسپ بات تو یہ ہے کہ علمائے کرام کایہ قافلہ مسلمانوں سے خطاب کے بعد ترنمول کانگریس کی نام نہاد اقلیتی سیل کے لیڈروں کے جھرمٹ میں بھی نظرآتا ہے۔

علما کرائے اور اکابرین ملت کی اس نتیجہ تک رسائی کیسے ہوئی یہ تووہی بتاپائیں گے لیکن ترنمول کانگریس کو کم تر برائی قرار دیتے ہوئے یہ صاحبان جبہ و دستار غالباً یہ بھول جاتے ہیں کہ برائیوں کا کم تر سے بھی ایک نچلا درجہ کم کا ہوتا ہے۔ اس انتخابی میدان کارزار میںکم تر سے کم برائی کی حامل ایسی سیاسی جماعتیں بھی ہیںجنہیں اگر مسلمانوں کا ووٹ مل جائے تو جیت کے ریکارڈ بھی توڑ سکتی ہیں۔ ان کے امیدوار لائق،فائق، اہل باصلاحیت، دردمند، مسلم دوست اور ایماندار بھی ہیں۔جن کا سیکولرازم مصدقہ اور مسلمہ ہے جنہوں نے ’السلام علیکم‘ اور ’خداحافظ‘ کے الفاظ سے دھوکہ نہیں دیا ہے۔جنہوں نے عیدین کے خطبہ کی حرمت پامال نہیں کی ہے۔ جنہوں نے اردو کو مسابقتی امتحانات سے باہر کا راستہ نہیں دکھایا ہے،جنہوں نے گیہوں دکھاکر جو نہیں بیچے ہیں، جنہوں نے انتخابی بانڈز کے ذریعہ سیاسی رشوت لینے میں کوئی مقام حاصل نہیں کیا ہے۔ ان سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ دے کر کم تر سے کم کا انتخاب بھی کیاجاسکتا ہے۔

کیوں کہ ان سیاسی جماعتوں کے کسی لیڈر کی وابستگی بھی کبھی تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ وہ مسلمانوں کے ووٹ سے منتخب ہوکر ایوان میں پہنچنے کے بعد بھارتیہ جنتاپارٹی کی گود میں جاکر نہیں بیٹھ گئے ہیں اور نہ ہی انہوں نے کبھی مسلمانوں کو زد پہنچانے والے قوانین کو ایوان سے پاس کرانے میں واک آئوٹ کرکے بالواسطہ مدد کی ہے۔ نہ انہوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے خلاف قائم ہونے والے اتحاد ’ انڈیا‘ سے نکل کر اپنی الگ راہ بنائی ہے اورنہ باہر سے مسلم امیدوار لاکر ممکنہ جیت حاصل کرنے والے سیکولر لیڈروں کے مقابلے کھڑا کیا ہے اور نہ جنہوں نے اپنے بھائی بھتیجہ کی بدعنوانی پر ہونے والی گرفت روکنے کیلئے سیاسی سودے بازی کی ہے۔

ایسی کم برائی کی حامل سیاسی جماعتیں بھی ہیں جن کے لیڈروں کے بارے میں یہ شبہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ ترنمول کانگریس میں ہیں یا بھارتیہ جنتا پارٹی میں۔ ایسی کم برائی کی حامل ایسی جماعتیں بھی ہیں جن کے تمام اہل خانہ ایک ہی سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں، ان کے بارے میںیہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ ان کا ایک بھائی بھارتیہ جنتاپارٹی کا لیڈرہے اور ریاستوں میں گورنر رہ چکا ہے اور دوسرا بھائی مسلمانوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والا ایم پی ہے۔ ایسی بھی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں سسر داماد ایک ہی جماعت میں ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سسر مسلمانوں کے ووٹ کا دعویدار ہو اور داماد بھارتیہ جنتا پارٹی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑرہا ہو، نہ ہی ان میں ایسا کوئی ہے جس میں شوہر نے مسلمانوں کے ووٹ سے جیت حاصل کرکے اپنے لیے جنت شداد بنائی ہو ا ور بیوی بھارتیہ جنتا پارٹی کے قصیدے پڑھ رہی ہو۔ نہ ایسا کوئی ہے جس کا بیٹا رکن اسمبلی اور مسلمانو ں کا نمائندہ ہونے کا فیض حاصل کررہا ہو اور باپ بھارتیہ جنتاپارٹی کا نائب صدر لگ جائے۔

’عظیم تر‘ کے مقابلے ’کم تر‘ برائی کی حمایت کرنے سے قبل ایک بار اس پر ضرورغور کیاجاناچاہیے کہ اس انتخابی میدان کارزار میں اور بھی سیاسی جماعتیں ہیں۔بہتر تو یہ ہوگا کہ نام نہاد’کم تر‘ برائی کے اس سیاسی کھیل میں علمائے کرام آلہ کار نہ بنیں اور نہ مغربی بنگال کے مسلمانوں کو ایک ہی سوراخ سے بار بار ڈسے جانے کامشورہ دیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS