ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
سوشل میڈیا آج کی زندگی میں اس قدر اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ بہت سے لوگ روزانہ 5 سے 8 گھنٹے تک اپنے فون یا کمپیوٹر تھامے رہتے ہیں۔ اگر ہم معلوم کریں کہ وہ کیا پڑھتے اور دیکھتے رہتے ہیں تو ہمیں حیرانی اور افسوس دونوں ہوں گے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر کوئی ایسا کرتا ہے۔ سوشل میڈیا کی اپنی افادیت ہے۔ گوگل تو آج کل ورلڈ ماسٹر(وِشو مہاگرو) بن گیا ہے۔ دنیا کی کون سی معلومات نہیں ہے، جو پلک جھپکتے ہی اس پر نہیں مل سکتی۔ گوگل نے دنیا سے لغات، نالج بک/علمی متن اور حقیقی اساتذہ کی جگہ لے لی ہے۔ اس کے ذریعہ کروڑوں لوگوں تک آپ چٹکی بجاتے ہی پہنچ سکتے ہیں لیکن اسی سوشل میڈیا نے خوفناک سماج دشمن کردار ادا کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اس کے ذریعہ نہ صرف جھوٹی افواہیں پھیلائی جاتی ہیں بلکہ ہتک آمیز، فحش، اشتعال انگیز اور نفرت انگیز مواد بھی پھیلایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ سے فسادات ہوتے ہیں، شدید عوامی تحریکیں اٹھتی ہیں اور قوموں کے درمیان زہر بھی پھیل جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ سب سے زیادہ تباہ کن کام بچوں کے خلاف ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھی اپنے موبائل فون کے ذریعہ دن بھر فحش تصاویر اور مناظر دیکھتے رہتے ہیں۔ وہ اس سے سنگین جرائم کرنے کے حربے بھی سیکھتے ہیں۔ بہت سے نوجوان انٹرنیٹ کے احکامات پر عمل اس حد تک کرتے ہیں کہ وہ خودکشی تک کر لیتے ہیں۔
گزشتہ ایک سال میں ایسی کئی خبریں ہندوستان کے اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں دیکھی گئی ہیں۔ بچوں کو بداخلاق بنانے میں سوشل میڈیا کا خاص کردار ہے۔ وہ اپنی پڑھائی میں وقت گزارنے کے بجائے فحش تصویروں اور کہانیوں میں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ مسلسل کئی گھنٹے بیٹھ کر کمپیوٹر اور موبائل دیکھنے کی وجہ سے ان کی جسمانی سرگرمیاں بھی کم ہوجاتی ہیں۔ اس کے مضر اثرات ان کی صحت پر بھی ظاہر ہوتے ہیں۔ وہ بے حسی اور سستی کے بھی شکار ہو جاتے ہیں۔ ہندوستان میں ابھی یہ زہریلی بیماری بچوں میں تھوڑی محدود ہے لیکن امریکہ اور یوروپ کے بچے بڑے پیمانے پر اس کے شکار ہو رہے ہیں۔ اس نے وہاں وبا کی شکل اختیار کرلی ہے۔ امریکی قانون ساز اس سے اس قدر پریشان ہیں کہ اب انہوں نے اس سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لیے سخت قوانین بنانے کا عزم کر لیا ہے۔ وہ جلد ہی ایک قانون بنانا چاہتے ہیں جس سے یہ پتہ چل سکے کہ 16سال سے کم عمر کے بچے کتنی دیر تک سوشل میڈیا دیکھتے ہیں۔ ان کے والدین کو یہ جاننے کی سہولت ہوگی کہ ان کے بچے انٹرنیٹ پر کیا کیا دیکھتے ہیں اور کتنی دیر تک دیکھتے ہیں۔ وہ انٹرنیٹ پر جانے والے ہر قسم کے قابل اعتراض مواد پر پابندی لگائیں گے۔ ایسی بہت سی دوسری حدود کا نفاذ نہ صرف امریکہ بلکہ ہندوستان اور جنوبی ایشیا کے ممالک میں ان سے زیادہ ضروری ہے۔ اگر حکومت ہند اس معاملے میں تاخیر کرے گی تو ہندوستانی ثقافت کی جڑیں اکھڑتے دیر نہیں لگے گی۔ میں تو چاہتا ہوں کہ ہندوستان کی تقلید دنیا کے تمام ممالک کریں۔
(مضمون نگار ممتاز صحافی، سیاسی تجزیہ کاراور
افغان امور کے ماہر ہیں)
[email protected]