علیزے نجف
کسی بھی ملک یا معاشرے کی ترقی کا انحصار کافی حد تک شرح خواندگی کے اعلیٰ گراف کے ساتھ ساتھ تعلیم یافتہ افراد کی صلاحیت کے ارتقا اور ذہنی نشوونما پر بھی ہوتا ہے۔ تعلیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے جس کے لئے والدین کے ساتھ معاشرے کو بھی ذمہ دار خیال کیا جاتا ہے والدین کے ساتھ معاشرے کی ذمہ داری اس لئے ہے کہ ارد گرد کے تعلیم یافتہ افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ علم کی اہمیت سے ہر کسی کو بشمول اپنے اطراف کے سب لوگوں کو آگاہ کریں،معاشرہ ہم سب کی زندگی میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہم انسان عملی سطح پر معاشرتی اقدار سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں جو کچھ ہمارے ارد گرد ہو رہا ہوتا ہے ہم اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
علم کے حصول میں زبانوں کا کلیدی کردار رہا ہے اس کے ذریعہ ہی ہم سیکھتے ہیں۔ زبان خیالات کا مظہرہوتی ہے زبانیں تو ساری ہی اپنی جگہ اہم ہوتی ہیں اور ہر زبان علم کی وارث ہوتی ہے لیکن تمام زبانوں میں مادری زبان کی حیثیت ہمیشہ سے مسلم رہی ہے کیوں کہ اس زبان سے بچہ اپنی پیدائش کے ساتھ ہی جڑ جاتا ہے ابتدائی مرحلوں میں اگر چہ وہ بولنے سے قاصر ہوتا ہے لیکن پھر بھی الفاظ اس کے لاشعور میں اکٹھا ہو رہے ہوتے ہیں یہاں تک کہ اسکول جانے کی عمر تک وہ اچھا خاصا لفظوں کا ذخیرہ کر چکا ہوتا ہے اور بول چال میں انھیں کا استعمال کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہی وہ اپنے احساسات دوسروں سے شیئر کرتا ہے۔
ہماری دوسری مادری زبان اردو ہے اردو ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کی علمبردار رہی ہے۔ اس زبان میں اعلیٰ سطح کی کتابیں لکھی گئی ہیں خواہ وہ مذہب ہو یا سیاست یا اور دوسرے موضوعات ہوں۔ اردو زبان کے بولنے والے دنیا کے سبھی حصوں میں پائے جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہندوستان نے جب آزادی حاصل کی اور ملک تقسیم ہوا تو زبان کی بھی تقسیم کی بنیاد پڑ گئی اور کچھ دہائیاں گزرنے کے بعد دیوار کھڑی کرنے کی کوشش شروع ہو گئی یوں اردو پر مسلمانوں کی زبان کا ٹیگ لگا دیا گیا اور اردو کو دوسرے درجے کی مادری زبان کا حق دے دیا گیا۔ ہندی زبان سے بچ جانے والی توجہ اردو کو ملتی ہے جو کہ اس کے ترویج و اشاعت کے لئے ناکافی ہے۔ حالاں کہ اردو کو اس مذہبی تقسیم کی کوئی ضرورت نہیں تھی جب ہندوستان اپنی کثیر لسانیات کی وجہ سے پہچانا جاتا ہے تو اس حوالے سے اردو بھی ہندوستانی تہذیب کی امین ہے لیکن افسوس کہ صورتحال اس کے بالکل برعکس رہی۔
ملکی سطح پہ اردو کے تئیں برتے جانے والے سوتیلے رویے کے اثرات اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ اردو کو خود اس کے اپنے ہی ناقابل اعتنا خیال کرنے لگے ہیں بدلتے وقت کی تبدیلیوں میں وہ کھو کر خود اپنی ہی زبانی تہذیب و ثقافت سے بے نیاز ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم مسلمان چاہتے ہیں کہ اردو کو حکومتی سطح پہ پزیرائی حاصل ہو لیکن خود اس کے لئے کسی طرح کی جدو جہد کرنے کے روادار نہیں۔ اردو اساتذہ اور پروفیسروں کے بچے بھی اردو سے ناواقفیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔بیشک وہ اکثر چاہ کے بھی اپنے بچوں کو اردو زبان سے آشنا نہیں کروا پاتے کیوں کہ ان کے نزدیک اسکول کا ٹائم شیڈول بہت ٹف ہوتا ہے اور پھر اس کے بعد ٹیوشنز اور عربی اردو پڑھنے کے لئے الگ سے کسی مسجد میں مولوی صاحب کے پاس بھیجنا بچے کی شخصیت کو بوجھل کر دیتا ہے جس کی وجہ سے بچے بھی اردو کو غیر ضروری خیال کر کے کترانا شروع کر دیتے ہیں ایسے میں اردو زبان ترجیحات کی لسٹ سے اکثر خارج ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے پچھلی دو دہائیوں سے اردو زبان میں اعلی صلاحیتوں کی نشوونما نہیں ہو پا رہی اور اردو میڈیم اسکول یا تو ناپید ہوتے جا رہے ہیں یا ہیں تو ان کے سسٹم میں اس قدر خرابیاں ہیں کہ معاشرے میں وہ اپنا مثبت کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
جب بھی کسی اسکول کی بات کی جاتی ہے تو اس اسکول کے اساتذہ اور نظام تعلیم کا سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے، رہی بات طلبہ کی تو بیشک طلبہ کی اقدار اکثر اساتذہ اور نظام تعلیم کی مرہون منت ہی ہوتی ہیں۔ اس تناظر میں اگر یہ کہا جائے کہ فی زمانہ اردو میڈیم اسکولوں کا یہ دو مضبوط ستون دیمک زدہ ہو چکا ہے اس میں اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ اپنی زبان میں سائنس، تاریخ اور فلسفے وغیرہ جیسے جدید علوم کا بوجھ اٹھا سکے۔ ایسے میں کسی کے بھی ذہن میں یہ خیال آ سکتا ہے کہ حکومت کی عدم توجہی اور ملکی سطح پہ اردو کو اس کا جائز مقام نہ دینے کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں۔ بیشک یہ سچ ہے کہ اگر اردو کو ہندی کے ساتھ پروان چڑھنے کا موقع دیا جاتا تو آج کسی کو بھی اردو کے لئے الگ سے ٹیوشن لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
نئی تعلیمی پالیسی ہندوستان اکیسویں صدی کی سب سے اہم پالیسی خیال کی جاتی ہے جو ایک طویل جدو جہد کے بعد 2019 میں مسودے کی صورت تیار ہوئی اور ہندوستان کی یونین کابینہ نے اس مسودے کو 29 جولائی2020 میں باقاعدہ منظوری دی۔ اس پالیسی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ اس میں بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ تعلیم کے تمام پہلوؤں جیسے بنیادی تعلیم، اعلی تعلیم ، درس و تدریس، نصاب، تعلیمی نظم و نسق صنعتی تعلیم، تعلیمی سرمایہ کاری، تعلیم بالغاں اور تکنیکی تعلیم وغیرہ پہ خاص طور سے بحث کی گئی ہے۔ اگر یہ تعلیمی پالیسی باقاعدہ نفاذ عمل میں آ جائے تو پورے ملک کا تعلیمی نظام یکسر بدل سکتا ہے اور اکیسویں صدی کی تبدیلیوں سے ہم آہنگ تعلیمی نظام ملک کی اقتصادی ترقی کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔ اس پالیسی میں ہندوستانی زبانوں کے حوالے سے بھی بحث کی گئی ہے جس میں کہ اردو بھی شامل ہے اس ضمن میں اس بات پہ زور دیا گیا ہے اس پالیسی کے رو سے ہر علاقے کی ثقافت و روایات کی صحیح شمولیت اور اس کا تحفظ اور اسکولوں میں تمام طلبہ کی صحیح تفہیم اسی وقت حاصل ہو سکتی ہے جب قبائلی زبانوں سمیت تمام ہندوستانی زبانوں کو مناسب احترام دیا جائے۔ یہ پالیسی اپنے آپ میں واقعی وہ طاقت رکھتی ہے کہ ملک میں تعلیمی میدان میں انقلاب پیدا کر سکے اور تعلیمی انقلاب کے اثرات زندگی کے دیگر شعبوں پہ لازماً پڑتے ہیں لیکن یہ اس وقت ممکن ہو گا جب اس کو عملی سطح پہ لایا جائے کیوں کہ اکثر یہ بھی ہوتا ہے کہ پالیسیاں تو بن جاتی ہیں لیکن وہ سالہا سال عملی میدان سے پرے فائلوں میں پڑی رہتی ہیں۔ یا اس کا نفاذ مکمل طور سے نہیں ہو پاتا جزوی طور پر ہی وہ سسٹم کا حصہ بن پاتی ہے۔
اس وقت بات اردو میڈیم اسکولوں کی ہو رہی تھی اردو میڈیم اسکولوں کی بدحالی اور شکستگی نہ کسی سے ڈھکی چھپی ہے اور نہ ہی اردو داں طبقے کو اس پہ شرم آتی ہے، اس بدحالی کے پیچھے کئی طرح کے عوامل کارفرماں ہیں، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اردو زبان میں ادب کے علاوہ دوسرے موضوعات پہ لکھی جانے والی کتابیں دوسری زبانوں کے مقابلے میں اتنی کم ہیں کہ اسے انگلیوں پہ گنا جا سکتا ہے۔ اگر کچھ والدین اپنے بچوں کو ابتدائی تعلیم اردو میڈیم اسکولوں سے دلوانے کی کوشش کریں تو اگلے چار سے پانچ سال کے بعد ان کے سامنے یہ مسئلہ آن کھڑا ہوتا ہے کہ اگر وہ انھیں اعلی تعلیم کے لئے انگلش میڈیم اسکول میں ڈالنے کا سوچیں تو انھیں ایک دو سال پیچھے آنا پڑے گا کیوں کہ ان کی انگلش اچھی نہیں ہوتی اور ضروری مضامین پہ ان کی گرفت اچھی نہیں ہوتی اور ان کی قابلیت بدلتے کے وقت تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہوتی۔ ہمارے یہاں اردو کے ماتھے پر بیک ورڈ کا لیبل بھی لگا دیا گیا ہے ہم انگریزی بولنے میں ہی سارا ماڈرنزم خیال کرتے ہیں۔ میں نے یہاں تک دیکھا ہے کہ اگر کوئی بچہ محنت کر کے اور نئی زبان و علوم سے آراستہ ہو کر کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب کرنے لگتا ہے تو عام بول چال کی زبان میں اردو کے الفاظ بولنے سے اجتناب کرتا ہے کیوں کہ ان کے خیال میں پھر انھیں اردو کی پستی کے آئینے سے دیکھا جانے لگے گا۔ وہ ہمہ وقت انگلش میں ہی گفتگو کرنے کو کامیابی سمجھتا ہے۔ اب کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ ہم نے اس سے متضاد صورتحال بھی دیکھی ہے کہ اردو میڈیم کے طلبہ کسی نہ کسی طرح تمام اعلیٰ شعبوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور اردو سے اپنے رشتے کو مستحکم رکھتے ہیں۔ بیشک میں نے بھی ایسی مثالیں دیکھی اور سنی ہیں لیکن ان کا تناسب ایسا نہیں کہ اردو میڈیم اسکولوں پہ اردو زبان کی اشاعت پہ فخر کیا جا سکے۔
اردو میڈیم اسکولوں کی بدحالی کی کئی ساری وجوہات ہیں جو کہ کافی تفصیل طلب ہیں۔ اس موضوع پہ بات کرتے ہوئے ذہن میں یہ بھی خیال آتا ہے کہ ان کی حالت زار کیسے بہتر اور مستحکم کی جاسکتی ہے۔ بیشک اس پہلو پہ بھی چند باتیں ضرور کی جانی چاہئیں۔
یاد رکھیں ہم اردو کی بقا کی جنگ اردو کے معیار سے سمجھوتہ کر کے کبھی نہیں جیت سکتے۔ میں اپنے مشاہدہ اور مطالعہ کے تحت پورے وثوق کے ساتھ یہ بات کہتی ہوں کہ ہمارے یہاں جو اردو داں طبقہ ہے ان میں سے بہتوں کی زبان کی صحت اس قدر لاغر ہے کہ انھیں معلوم ہی نہیں کہ اس لفظ کا صحیح تلفظ کیا ہے اور اس کو کس طرح ادا کیا جانا چاہئے۔ طلبہ کو جتنی بھی اردو پڑھائی اور سکھائی جائے اس میں اردو کی صحت کا خیال رکھا جانا چاہئے جیسے اس لفظ کا معنی کیا ہے اس کا ماخذ کیا ہے اور اس کا صحیح تلفظ کیا ہے ہم ساری ذمہ داری اساتذہ پہ ہی نہیں ڈال سکتے والدین کو بھی چاہئے کہ وہ عام بول چال میں اردو کے جو الفاظ استعمال کریں خیال رکھیں کہ ان کا تلفظ اور محل استعمال صحیح ہو، اپنے بچوں کے اندر ادبی ذوق بھی پیدا کرنے کی کوشش کریں، ادبی ذوق زبانوں کو سیکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اردو کی ترویج و ترقی کے لئے ضروری ہے کہ اردو کے اساتذہ کا انتخاب کرتے وقت اعلی معیار سے سمجھوتہ کرنے کی کوشش سے گریز کریں، کم از کم گھر میں ایک اردو ماہنامہ ضرور باقاعدگی سے لائیں۔ اساتذہ ہوں یا والدین دونوں کو ہی چاہئے کہ اپنے بچوں کو اردو کی خصوصیات ان کے سامنے اردو کے تئیں اپنی محبت کا بلاتکلف اظہار کریں اردو سے محبت کے لئے ضروری نہیں کہ انگریزی اور ہندی جیسی دوسری زبانوں سے پرہیز کرنا شروع کردیں جس طرح والدین کے لئے بیک وقت کئی بچوں سے محبت کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں اسی طرح بیک وقت کئی زبانوں کو برتنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، اردو زبان بولنے میں کبھی شرم محسوس نہ کریں کیوں کہ آپ کے اعتماد کی کمی زبان کو کمتر ثابت کرتی ہے جب کہ زبانیں ہر طرح کی اونچ نیچ سے آزاد ہیں۔ اردو زبان کے نئے نئے لفظ سیکھنے کی کوشش کریں اردو کی بقا اور ارتقاء کے لئے ضروری نہیں بڑے بڑے پلان بنائے جائیں ہم اپنی مقدور بھر استطاعت کے ساتھ بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں بشرطیکہ یہ کوشش تسلسل کے ساتھ جاری رہے۔ ٭٭٭