سرکاری اسکولوں کی حالت زار

0

بچوں کو تعلیم دلانا نہ صرف وقت کا تقاضاہے بلکہ ہر فرد کی ضرورت بھی ہے ۔ تعلیم ہی تہذیب وتمدن اورقوم ومعاشرے کی ترقی کا ضامن ہے۔تعلیم ہی وہ زیور ہے جس سے انسان کا کردار بھی سنورتاہے اور قوم ترقی بھی کرتی ہے۔اسی لئے ہرمذہب میں اس کی اہمیت وافادیت بیان کی گئی ہے اورہر ملک میں سرکاری سطح پراس پر زور دیا جاتا ہے۔بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں اب تو اسے بچوں کا بنیادی حق قرار دے کر اس کی ذمہ داری خود سرکار لے رہی ہے ۔ ہندوستان بھی ان ملکوں میں شامل ہے جہاںآئین کی تدوین سے ہی اس پر توجہ دی گئی اوروقت کے ساتھ اس سے متعلقہ قوانین میں ترمیم کرکے بچوں کو مفت اورلازمی تعلیم فراہم کرنے کی پالیسی بنائی گئی حتیٰ کہ 2009میں رائٹ ٹو ایجوکیشن کے نام سے باقاعدہ ایک جامع قانون بناکر 6سے 14سال کے تمام بچوں کو پہلی سے 8ویں کلاس تک مفت تعلیم کے حصول کو بنیادی حق قراردے دیا گیا۔ اب تو 12ویں تک مفت تعلیم دی جارہی ہے ۔یہ قانون یکم اپریل 2010سے نافذ ہے ۔ ایک طرف یہ صورت حال اور دوسری طرف جب اس طرح کی رپورٹیں آتی ہیں کہ کورونا کے دورمیں آن لائن تعلیم سے بچوں کے سیکھنے کی صلاحیت کم ہوئی ، یا ان کی تعلیم متاثر ہورہی ہے ۔کیونکہ ایک تو ملک میں اس کا ماحول نہیں، دوسرے آن لائن تعلیم کے لئے ڈیجیٹل ڈیوائس اور انٹرنیٹ تک ملک کے تمام بچوں خصوصاً غریب بچوں کی رسائی نہیں ہے ۔یہ بات تو پھر بھی قابل فہم ہے کہ غربت زیادہ ہونے یا آن لائن تعلیم کا باقاعدہ سسٹم ہرجگہ نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی تعلیم اورسیکھنے کی صلاحیت متاثر ہورہی ہے،لیکن اسکول چلیں اوران میں اساتذہ نہ ہوں ، یہ تو سراسر رائٹ ٹو ایجوکیشن ایکٹ کی خلاف ورزی ہے اوربغیر اساتذہ کے اسکول اورکلاس بے ایمانی ہے ۔
یونیسکو کی ایک نئی رپورٹ میںہندوستان میںسرکاری اسکولوں اوراسکولی تعلیم کا جائزہ لے کر جو رپورٹ جاری کی گئی ،اس سے کافی تشویشناک صورت حال سامنے آتی ہے ۔اس میں یہ بتایاگیا ہے کہ اسکولی تعلیم کی حالت اچھی نہیں ہے ۔بظاہر اسکول تو چل رہے ہیں لیکن ان میں بچوں کو پڑھانے کیلئے اساتذہ نہیں ہیں ۔ رپورٹ کے مطابق ملک میں 1.10لاکھ اسکول ایسے ہیں جو محض ایک ٹیچر کے بھروسے چل رہے ہیں۔ اسکولوں میں اساتذہ کی 11.16لاکھ آسامیاں خالی ہیں ۔ شہری علاقوں میں حال پھر بھی کچھ غنیمت ہے لیکن دیہی علاقوں میں بہت زیادہ خراب صورت حال ہے، دوتہائی خالی آسامیاں دیہی علاقوں میں ہیں ۔جوویسے ہی پسماندہ ہوتے ہیں۔ یونیسکوکی رپورٹ کاوہ پہلو کافی اہم ہے کہ سیکنڈری اسکولوں میں اساتذہ کی بہت کمی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ میں صلاحیت اورقابلیت کی کمی الگ باعث تشویش ہے۔زیادہ تر اسکولوں میں تمام مضامین کے اساتذہ نہیں ہیں ۔حالانکہ بعض ریاستوں میں صورت حال اچھی ہے،لیکن بیشتر میں خراب ہے ۔یونیسکو کاتو یہ بھی کہنا ہے کہ اسکولوں میں اصلاح وبہتری پربہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔ حالانکہ وقتاً فوقتاً اس کیلئے کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں،جن کی سفارشات منظر عام پر آتی بھی ہیں اوران کو نافذ بھی کیا جاتا ہے لیکن زمین پر وہ تبدیلی نظر نہیں آتی ہے ۔
یونیسکو کا یہ نکتہ غورطلب ہے کہ 1968کے بعد سے قومی تعلیمی پالیسی سے متعلق تمام رپورٹوں میں قومی پیداوار کا 6فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کی بات کہی گئی ہے لیکن سال 2019-20کے اقتصادی سروے میں کہاگیا کہ قومی تعلیمی پالیسی سے متعلق پہلی رپورٹ کے 52سال بعد ملک نے تعلیم پر 3.1فیصدخرچ کیا ۔اب تو نئی تعلیمی پالیسی آگئی ۔ اس سے تعلیم کے معیار میں کتنی بہتری آئے گی ، یہ توبعد میں پتہ چلے گا لیکن فی الحال جو سسٹم ہے اوراساتذہ کی جو کمی اوران میں صلاحیت کا فقدان ہے، ان کو دیکھتے ہوئے بہتری کی امید نہیں کی جاسکتی ۔دراصل ہمارے ملک میں کاغذ پر پالیسی کی کوئی کمی نہیں ہوتی لیکن ان کا نفاذ مؤثر طریقے سے نہیں ہوپاتا۔مفت اور سب کو تعلیم اسکولی تعلیم کی پالیسی کا کیا فائدہ جب پڑھانے کے لئے اساتذہ ہی نہ ہوں ۔اسکولوں میں اساتذہ کی 11لاکھ خالی آسامیاں بے روزگاری کا بھی مسئلہ ہے۔ اس لئے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے اوراسے حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS